حقوق الوالدین اور اسلامی تعلیمات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

انسانی زندگی حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے ،کسی پر کسی کے حقوق ہیں تو کسی پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،زندگی کا سکون و اضطراب ان حقوق اور ذمہ داریوں کی ادائیگی اور عدم ادائیگی پر منحصر ہے ،اسلام سے قبل انسانی زندگی انتہائی اضطراب اور بے چینی کا شکار تھی ،قتل و غارت گری ،چوری اور ڈاکہ زنی عام تھی ،ہر طرف جنگل کا قانون تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مصداق معاشرہ دوسروں کے حقوق سے نا آشنا تھا ،معلم اسلام ﷺنے حقوق و اختیارات کی تعلیم دی ہر ایک کو اس کا مرتبہ بتلایا اور حدود مقرر فرمائیں ،انسان تو انسان حیوانوں کے حقوق بھی سکھلائے ،جس کی وجہ سے کائنات کی ہر مخلوق راحت و سکون محسوس کرنے لگی ۔

مخلوق کے حقوق میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ،اسلام میں خدا وحدہ لا شریک کی توحید اور عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک جزو ایمان ہے ،وہ ہستیاں جو انسان کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں ان کے حقوق کو تمام حقوق پر فضلیت دی گئی ہے ،قرآن پاک و حدیث شریف میں بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ والدین کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے ،قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
ترجمہ :اور تیر ے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کر و اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی ’’ہوں ‘‘بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پر وردگار ان دونوں پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کی (اور صر ف اس ظاہری توقیر و تعظیم پر اکتفاء مت کرنا دل میں بھی ان کا ادب اور قصد طاعت رکھنا کیونکہ )تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے (سورہ بنی اسرائیل ،آیت 230)اﷲ تعالی کی توحید کے بعد فوراً والدین کے حقوق کو مسلسل بیا ن فرمایا کہ ماں باپ دونو ں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو جائے تو ان کو اُف بھی نہ کہو حضرت حسن ؓ نے فرمایا کہ اﷲ جل شانہ کے علم میں کلمہ اُف سے نیچے بھی کوئی درجہ ماں باپ کے تکلیف دینے کا ہوتا تو اﷲ جل شانہ اس کو بھی ضرور حرام قراردیتے ۔(درمنثور)حضرت مجاہد ؒ نے فرمایا کہ جب تیرے والدین بوڑھے ہو جائیں اور ان کی خدمت کے دوران ان کے کپڑے وغیرہ صاف کرتے وقت اُف بھی نہ کہ جیسا کہ وہ بھی اُ ف نہ کہتے تھے جب تیرے بچپن میں تیرا پیشاب پاخانہ وغیرہ دھوتے تھے(درمنثور) ۔

ماں باپ سے خوب ادب سے بات کرنا ،اچھی باتیں کرنا ،لب ولہجہ میں نرمی اور الفاظ میں توقیر و تکریم کا خیال رکھنا ،اگر ماں باپ غصہ کریں اور برا بھلا کہیں تو جواب میں یوں کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائیں ۔حضرت ابوہریرہ ؓ اور ان کی والدہ الگ الگ گھر میں رہتے تھے حضر ت ابوہریرہ ؓ جب اپنے گھر سے نکل کر کہیں جانا چاہتے تو والدہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہتے تھے اے میری ماں !آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ،وہ جواب میں فرماتی تھیں میرے بیٹے تجھ پر بھی سلام ہو اس کے بعد حضر ت ابو ہریرہ ؓ عرض کرتے تھے اﷲ کی آپ پر رحمت ہو جیسا کہ آپ نے مجھ چھوٹے سے کو پالا ،وہ ا سکے جواب میں فرماتی تھیں اﷲ تم پر بھی رحم فرمائے جیسا کہ تم نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا ۔(بخاری شریف )

حضر ت حسن ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ تو ان پر اپنا مال خرچ کراور تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر،ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو اس کو مت مان۔(درمنثور)آپﷺکا ارشاد ہے کہ کسی مخلوق کی کوئی فرمانبرداری، پیدا کرنے والے کی نافرمانی میں نہیں ہے ۔(مشکوٰۃ )شریعت اسلامیہ میں کسی بھی مخلوق کا وہ حکم ماننا جس کے ماننے میں اﷲ جل شانہ کی نافرمانی ہوتی ہو کسی حال میں درست نہیں ہے ،اگر والدین کافر ہوں تو بھی ان کی خدمت اور ان کی عزت و توقیر اولاد پر فرض ہے ،اب والدین میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے ……؟حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ (رشتہ داروں میں )میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ……؟اس کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری والدہ ،حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے ،سائل نے پوچھا پھر کون ……؟آپ ْ نے فرمایا تمہاری والدہ ،سائل نے پوچھا پھر کون ……؟آپ ْ نے فرمایا تمہاری والدہ اس نے دریافت کیا پھر کون ……؟فرمایا تمہار ا باپ (بخاری شریف )والدہ کو یہ رتبہ اس کی مشقتوں قربانیوں اور اس کے ضعف کی وجہ سے دیا گیا ،حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ؐ! والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے ……؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت یا تیری جہنم ہیں (ابن ماجہ )یعنی جس نے ماں باپ کو راضی رکھا تو اﷲ پاک بھی اس سے راضی ہوں گے اور جس نے ماں باپ کو ناراض کیا تو اس نے اﷲ کو ناراض کیا ،جنت اور جہنم دونوں اﷲ کی رضا اور ناراضگی پو موقوف ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ نے والدین کی خدمت میں عظمت و برکت رکھی ہے ،حضر ت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنے والی اولاد جب بھی رحمت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے تو ہر نظر کے عوض اﷲ تعالیٰ اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتے ہیں ۔حضرات صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اگر چہ روزآنہ سو مرتبہ نظر کرے ؟آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اﷲ بہت بڑا ہے اور وہ بہت زیادہ پاک ہے (مشکوٰۃ شریف )حضرت انس ؓ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اﷲ تعالیٰ اس کی عمر دراز کر دے اور اس کا رزق بڑھا ئے اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ صلح رحمی کرے (بہیقی )

والدین کی نظروں کے سامنے خوش و خرم رہنا اور ان کو خوش و خرم رکھنا ،ان کے سامنے مسکرانا ،ہنسنا اور ان سے ایسی باتیں کرنا جس سے ان کا دل خوش ہو اور چہرے پر مسکراہٹ آجائے تو یہ بھی والدین کے اکرام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو ہے ۔اور ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے ماں باپ کو رنج و صدمہ پہنچے اور وہ تکلیف و قلق محسوس کریں ۔والدین کا اولاد پر اتنا حق ہے کہ اگر دوران نماز والدین میں سے کوئی ایک تم کو آواز دے تو نما ز توڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ او ر ان کے حکم کو پورا کرو ۔

ان مبارک تعلیمات کا ثمرہ ہے کہ مسلم معاشرے میں والدین ،بزرگوں اور بڑوں کو خاص مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے ان کی خدمت کو سعادت سمجھ کر کیا ہے ،ان کے تجربات سے سیکھا جاتا ہے ،والدین کی نافرمانی ،حکم عدولی ،گستاخی اور بد زبانی سے بچا جاتا ہے ،والدین کی رضا و خوشنودی کو اﷲ کی رضا اور رحمت تصور کر کے ان کی ہر طرح سے فرمانبرداری کی جاتی ہے ۔ایسی پیاری معاشرت کسی دوسری قوم کے پاس ہے نہ کسی ملت کے پاس ، ــــــــاولڈہاوس جیسی جگہوں کا اسلامی معاشرت و تہذیب میں تصور نہیں ہے جہاں والدین کو موت کے انتظار کے لیے چھوڑ ا جاتا ہے بلکہ اسلام میں بڑے بزرگوں کو خاندان کا سربراہ اور تمام معاملات کا نگران و سر پرست ٹھہرایا ہے ۔

جب والدین وفات پا جا ئیں تو ان کے بعد بھیان کے ساتھ حس سلو ک کرتے رہنا چاہے،آپﷺنے اس کی تفصیل یو ں ارشاد فرمائی کسی صحابی ؓ نے سوال کیا میرے ماں باپ کی وفات کے بعد کوئی ایسی چیز باقی ہے جس کے ذریعے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟

آپ ﷺ نے فرمایا ہاں !ان کے لیے دعا مغفرت کرنا ،ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا ،ان کے نعد اس عہد کو نافذ کرنا جس کو وہ انجام دینا چاہتے تھے ،وہ صلہ رحمی کرنا جو صرف ماں باپ کے تعلق سے ہواور ان کی رضا کے لے ہو ،ان سے میل جول رکھنے والوں کا اکرام کرنا۔(ابوداود)اگر والدین کی حیات میں ان خدمت نہیں کر سکا ،ان کی وفات کے بعد احساس ہوا تو ان کے لے استغفاراور نیک اعمال کرتا رہے یہاں تک کہ اﷲ تعالی اس کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں میں لکھ دیں۔اسلام نے ہر انسان کے لیے موت سے پہلے تک ہر وقت رعایت اور گنجائش رکھی ہے مگر اس سے استفادہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو انابت ،رقت قلب اور رجوع الی اﷲ کا جوہر رکھتے ہوں ،اﷲ کی رحمت برسنے کے بہانے تلاش کرتی ہے مگر کہیں طلب تو ہو۔
 
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275711 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More