والذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا
وکان بین ذالک قواما ۔ اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ
تنگی کریں ۔
( اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں ایک بزرگ نے کہا کہ اسراف میں
بھلائ نہیں دوسرے بزرگ نے کہا نیکی میں اسراف ہی نہیں اور تنگی کرنا یہ ہے
کہ اللہ تعالی کے مقرر کئے ہوئے حقوق کےادا کرنے میں کمی کرے یہی حضرت ابن
عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللہ
تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اسنے اقٹار کیا
یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اسنے اسراف کیا یہاں ان بندوں کے
خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جاتا ہے کہ وہ اسراف و اقتار کے دونوں مذموم
طریقوں سے بچتے ہیں ۔
عبدالملک بن مروان نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنی
بیٹی بیاہتے وقت خرچ کا حال دریافت کیا تو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ
تعالی عنہ نےفرمایا کہ نیکی دو بدیوں کے درمیان ہے اس سے مراد یہ تھی کہ
خرچ میں اعتدال نیکی ہےجو دونوں بدیاں ہیں اس سے عبدالملک نے پہچان لیا کہ
وہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہیں مفسرین کا قول ہے کہ اس میں جن
حضرات کا ذکر ہے وہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کبار
ہیں جو نہ لذت و تنعم کے لئے کھاتے نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے بھوک
روکنا ستر چھپانا سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا اتنا انکا مقصد تھا۔ )
الفرقان ٦٧
تفسیر پاک آیت ٥٠ سورت سبا: عرب کے ایک مایہ ناز شاعر اسلام لائے تو کفار
نے ان سے کہا کہ کیا تم اپنے دین سے پھر گئے اور اتنے بڑے شاعر اور زبان کے
ماہر ہو کر محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے انہوں
نے کہا ہاں وہ مجھ پر غالب آگئے قرآن کریم کی تین آیتیں میں نے سنیں چاہا
کہ ان کے قافیہ پر تین شعر کہوں ہرچند کوشش کی محنت اٹھائ اپنی تمام قوت
صرف کر دی مگر یہ ممکن نہ ہو سکا تب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بشر کا کلام
نہیں وہ آیتیں قل ان ربی یقذف بالحق سےسمیع قریب تک ہیں۔ ( روح البیان )
|