جی! میں درد بیچتا ہوں

پچھلے کافی دنوں سے کچھ لکھ نہیں پایا ، یہ میری مجبوری سمجھیں یا پھربے حسی۔اس دوران وطن عزیز کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی حالات میں بے پناہ تبدیلیاں رو نما ہوئیں مگرمیں خاموش تماشائی بن کر اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتا رہا اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ میں جس معاشرے کا فرد ہوں بطور مجموعی ہمارا یہی رویہ ہے ۔ہم پر کوئی سفید چمڑی والا حکومت کرے یا پھر کالی والا ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے ہمیشہ خوشآمدکی روایات کو زندہ رکھا ہے ۔ ہم اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک و قوم کا کسی بھی حد تک نقصان کر سکتے ہیں۔اور ایسا کئی بار ہوا ہے ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ہمارا تھوڑا سا فائدہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز کی باگ ڈور کبھی آمریت کے ہاتھ میں تھی تو کبھی نام نہاد جمہوریت کے ہاتھ میں مگر ہوا کیا ، جہاں سے چلے تھے وہاں سے پیچھے ہی گئے ہیں ملکی ترقی صرف نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ہر حکومت اپنا موازنہ دوسری حکومت کے ساتھ کر کے اپنے کارنامے گنواتی نظر آتی ہے۔لیکن اگر ان کے کارناموں کا حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو کسی نے کچھ زیادہ لوٹا ہے تو کسی نے کم، بس یہی ہماری ترقی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ممکن ہے میرے بہت سے احباب مجھ سے اتفاق نہ کریں کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں جناب گھوڑوں پر سفر کرنے سے لے کر ایٹم بم تک کا سفرترقی نہیں تو اور کیا ہے۔تو جناب کے لیے عرض یہ ہے کہ ترقی کے معیارات زمانے کے ساتھ چلتے ہیں۔ترقی کا مطلب صرف مصنوعی شان و شوکت نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔جب میں ڈھائی کروڑبچوں کو سکول سے باہر دیکھتا ہوں، جب میں کسی غریب کو ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کر جان کی بازی ہارتے دیکھتا ہوں ، جب میں اپنی محفوظ سرحد کے اندر ڈرون حملے دیکھتا ہوں ، اور جب تھر میں بھوکے پیاسے لوگ تڑپتے دیکھتا ہوں اور جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں جانوروں کے ساتھ انسانوں کو پانی پیتے دیکھتا ہوں۔جب کسی جان کی قیمت صرف چند روپے دیکھتا ہوں تو مجھے یہ ترقی ہضم نہیں ہوتی۔یہ کیسی ترقی ہے جس میں کسی کے جان مال عزت و آبرو کی حفاظت نہ ہو۔میں نے سوچا تھا کہ شائد اب نہیں لکھوں گا لیکن کیا کروں جب یہ سب دیکھتا ہوں تو مجھے میرے اندر کا بھگت سنگھ جینے نہیں دیتا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ملک کی باگ ڈور ہم عوام کے پاس ہوتی مگر بدقسمتی سے ہم پر بالواسطہ یا بلاواسطہ غیر ہی مسلط رہے۔ ہم حکومتیں تو بناتے ہیں مگر ان کی باگ ڈور آج بھی بالواسطہ طور پر کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔جس کی کئی ایک واضح مثالوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو ایسا کیا ہوا تھا کہ کارگل کے واقعے کے بعد ہمیں کلنٹن کے قدموں میں جھکنا پڑا جس کے نتیجے میں ہمارے کئی فوجی جوان شہید ہوئے۔ابھی پچھلے زخم بھرے نہیں تھے کہ امریکہ بہادر نے ایک نئی سازش تیار کی جس کے نتیجے میں وہ افغانستان پر چڑھ دوڑا اور پھر ساری مسلم دنیا کو وہ روندتا ہوا چلا گیا۔ایسا کیا ہوگیا تھا جو ہمارا بہادر کمانڈو ایک امریکی کال پر ڈھیر ہوگیا۔اور پھر کسی کی لگائی ہوئی آگ میں ہمیں کودنا پڑا جس کے نتیجے میں ہمیں ہزاروں لوگوں کی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔اور اس دہشت گردی کی جنگ نے ہمیں رسوا کر کے رکھ دیا۔جس کی وجہ سے آج ہمارے اپنے شہری در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کے خود مختارنا ہو۔اور کوئی بھی قوم اسوقت تک خودمختار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے سربراہ ایمان،اتحاد ،تنظیم جیسے فلسفے پر عمل پیرا نا ہوں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو کرپشن ،اقربا پروری ،ناانصافی جیسی بیماریوں نے جکڑ رکھا ہے ۔اور جن لوگوں نے اس معاشرے کی رہنمائی کرنا تھی وہ خود اس کار خیر کا حصہ ہیں۔ادارے چند گھروں کی لونڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔غریب اور امیر کے درمیان حد فاصل بڑھتی جا رہی ہے۔میں جانتا ہوں مایوسی کفر ہے مگر خو ش فہمی بھی تو جہالت کے زمرے میں آتی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ مایوسی پھیلائی جائے انسان کو ہمیشہ پر امید ہونا چاہیے مگر کوئی راستہ بھی تو ہو۔یہ مایوسی امید میں تب تبدیل ہوسکتی ہے جب ہمارے جمہوری نمائندے جمہور کی بات کریں۔حالانکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔جس کی واضح مثال پانامہ کا ہنگامہ ہے۔ جس میں تمام وزراء تمام تر ذمہ داریوں سے ماوراء ہو کر خالصتاً ایک خاندان کے دفاع میں مشغول ہیں۔اور یہی ہمارے معاشرے کے عکاس ہیں۔میڈیا بھی اس فلم بینی میں برابر کا حصہ دار ہے ۔روز عدالت کے باہر عدالت لگتی ہے ۔جھوٹ عبادت سمجھ کر بولا جا رہا ہے۔اور ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جھوٹ بولواتنی شدت اور اعتماد سے بولو کہ سچ لگنے لگے۔شائد اسی فلسفے پر عمل پیرا ہمارے جمہوری نمائندے دن رات اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں۔امن بھائی چارہ جیسے الفاظ کا مطلب تک بھول چکے ہیں ہم ۔ڈاکوؤں سے زیادہ پولیس سے ڈر لگتا ہے ۔کونسا ادارہ ہے جو کسی غریب کے لیے بنا ہو۔تعلیم ،صحت اور انصاف کا حصول غریب کو افسانے سے زیادہ کچھ نہیں لگتے۔یہاں ہیروز تلاش کیے جاتے ہیں بنائے نہیں جاتے۔محمد وسیم باکسنگ ورلڈ چیمپئن بن جاتا ہے مگر ریاست بے خبرہے ایسا کیوں ؟بچپن میں اکثر سنتے تھے کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر نا جانے وہ کونسی ریاست کی بات کرتے تھے۔میرے بہت سے ساتھی مجھ سے اختلاف کرتے ہیں کہ جناب ملک کے حالات بدل رہے ہیں آپ بھی ذرہ بہتر منظر کشی کیا کریں۔ایسے میں مجھے لال بس، پیلی ٹرین اور بڑی بڑی سڑکوں کی مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں۔ایک صاحب تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اگر تو یہی ترقی ہے تو جناب آج کے وزیراعظم بادشاہ لفظ کو اپنے لیے گالی کیوں سمجھتے ہیں۔کیونکہ برصغیر کے بادشاہ بھی بڑے بڑے مقبرے بناتے تھے، قلعے بناتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے تو تاج محل تک بنا دئیے۔مگرافسوس یہ کہ کوئی یونیورسٹی نا بنا سکے۔اٹھائیس کلومیٹر پر چلنے والی لال بس کافی نہیں غریبوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اور نا ہی خوبصورت دارالخلافہ لوگوں کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے۔میرا درد صرف اتنا سا ہے کہ یہ بادشاہ نما حکمران غریبوں کو اپنے لیے گالی کیوں سمجھتے ہیں ۔اگر یہ سمجھتے ہیں کہ سب اچھا کے گن گائے جائیں تو یہ سب انسانوں پر خرچ کرنا شروع کیوں نہیں کر دیتے؟پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا ہی کیوں نا ہو ہر طرف مفلسی ،بے بسی اور معاشرتی استحصال کی داستانیں نظر آئیں گی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہمارا غریب اکثریت والا معاشرہ بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے ۔ صرف ظلم کرنے والا ہی ظالم نہیں ہوتا ظلم سہنے والا بھی برابر کا شریک ہوتا ہے۔

اور یہ معاشرتی استحصال تب تک ہوتا رہے گا جب تک ہمیں ہمارے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہوگا۔ اور ہم اس کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے۔دنیا میں کرپشن کو گناہ کبیرہ سمجھا جا رہا ہے مگر ہم آج بھی چپ سادھ کر بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ٹی وی پر بیٹھ کر ثبوت ثبوت کا راگ ٓٓآلاپنے والے یہ تو بتائیں رومانیہ، سکاٹ لینڈ یا پھر برطانیہ میں عوام کونسی فائلیں لے کر احتجاج کر رہی ہے۔مگر ہم زندہ قوم صرف زندہ باد کے نعرے لگانے تک محدود ہیں۔میرا مقصد کسی کی تحقیر یا تذلیل ہرگز نہیں میں تو صرف غریبوں کو جگانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ․۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔۔اور یہ ادنیٰ سا طالبعلم ان کے دروازے پر دستک دیتا رہے گا۔اور ہاں جو راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے ۔ اس کے لیے میں صرف اتنا ہی کہوں گا
میں درد سوچتا ہوں ،جی! میں درد بیچتا ہوں۔
Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 17202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.