دستگیر نواز
ویلنٹائن ڈے کے آنے سے پہلے ہی اس کے چرچہ شروع ہوجاتے ہیں۔ اس دن کو
بائیکاٹ کرنے کی کچھ تنظیمیں اپیل بھی کرتی ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چند
سالوں سے شروع ہوا ہے14 فبروری کے آتے آتے کچھ تنظیموں کی جانب سے
اپیل،بیان بازی اور طرح طرح کے مظاہروں کا رونما ہونا ایک معمول سا بن گیا
ہے لیکن ان تمام حالات کے درمیان 14 فبروری آتی اور چلی جاتی ہے۔
افسوس ان اپیلوں،بیانات اور مظاہروں کا کوئی بھی اثر نہیں ہوتا نہ ہی اس دن
کوئی چہل پہل کم ہوتی ہے، نہ ہی کوئی اسپیشل پروگرام ویلنٹائن ڈے کا منسوخ
ہوتا! وہی رنگینی،وہی عاشقوں کے جمگھٹ،وہی عاشقی کہیں کوئی فرق محسوس نہیں
ہوتا،ہو سکتا ہے ان تمام مرحلوں کا مشاہدہ اپیلوں،بیانات و مظاہرہ کرنے
والی تنظیمیں بھی ضرور کرتی ہونگی۔اسی لئے پچھلے دو سال سے انہی میں سے کچھ
نے Love Jihaad کے نام پر بھی ایسی ہی دہشت برپا کی تھی اور کہیں کہیں تو
اس ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں توڑ پھوڑ بھی مچائی جاتی ہے۔ کیا سمجھتے ہیں
یہ لوگ اس ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہی مظاہروں کی ضرورت ہے۔ نہیں بلکہ عام
دنوں میں بھی ایسی تقربیات کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے جو بے حد ضروری ہے۔
کیونکہ ایسی ہی اور بھی کئی مغربی رسم و رواج ہمارے معاشرے میں اپنا زو ر
جمارہے ہیں۔جسکی گرفت میں بری طرح سے گرفتار ہورہی ہے ہماری نوجوان نسل۔اسی
وجہ سے چاروں طرف بے دردی سے پھل پھول رہی ہے بے ادبی،بد گوئی اور بے حیائی
وغیرہ وغیرہ۔یہ دیکھ کر بہت ہی کوفت ہو تی ہے کہ ان تمام واہیات قسم کی
مصروفیات سے مسلم معاشرہ بھی بُری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ بروقت اس کی روک
تھام کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو ہمیں مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان اُٹھا
نا پڑیگا۔
ویلنٹائن ڈے تو ایک بہانہ ہےSocial Media & Electronic Media کے زریعہ بے
حیائی کا چرچہ کرنے کے لئے دراصل الکٹرانک میڈیا کی مدد سے معصوم عوام خاص
طور پرنوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف راغب کرنے کا اور اسکے نتائج بھی نظر
آرہے ہیں۔شائد ہی کہیں ایک آدھ جگہ مشرقی ماحول نظر آئے ورنہ چاروں سمت
WesternCulture یعنی مغربی ماحول کا بے ہودہ راج ہے اور ہمیں تو یہ سب
بیماریوں کی ایک خاص وجہ جو سمجھ میں آئی وہ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات سے
دوری ہی نظر آئی ہے۔غور کیجئے کیسے سے کیسا کالج چاہے ادنیٰ ہو کے اعلیٰ
صرف اور صرف مسلمانوں کے Admission اورDonations پر ہی قائم ہے۔یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت بھی بتائی گئی ہے۔
ہر مرد و عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے ۔
لیکن کونسی تعلیم کا حکم دیا گیا؟
کیا کبھی ہم نے اس بات کو جاننے کی کوشش کی ہے ؟ یا پھر یہ جاننے کی کبھی
کوشش کی ہے اسلام نے پردہ کے بارے میں کیا حکم کیا ہے؟خیر ہمیں یہ دیکھ کر
افسوس ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان بہنیں کتنی آسانی سے تعلیم کا بہانہ بناکر
بے حیائی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔کالج اوربازار میں تو یہ برقعہ پہن کر جاتی
ہیں لیکن گوشہ پردہ کے لئے نہیں بلکہ فیشن کے لئے ۔لگتا ہے کہ برقعہ کا
Competition چل رہا ہے ایک سے ایک Design کے برقعہ زیب تن کئے ایسے ایسے
مقامات پر نظر آتی ہیں جہاں جانے کے لئے مرد بھی شرمائے۔وہاں لڑکیاں اپنی
سہیلیوں کے ساتھ خود کی سواری یا پھر کسی لڑکے( اﷲ جانے کون ہو؟) کی سواری
پر بیٹھ کر بے شرمی کی کھلی تصویر بنی نظر آتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں اور انکی
اس بے حیائی میں ڈوبی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے حقیقی گوشہ پردہ کرنے والی
ہماری بہنیں بلاوجہ بدنام ہو رہی ہیں اور مصائب کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔
جو تنظیمیں14 فبروری کو ویلنٹائن ڈے کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتی ہیں ہم
اُن تمام تنظیموں سے دردمندانہ گزارش کرتے ہوئے مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ
انہیں چاہیئے پارکس میں ہونے والے واقعات،کالجس کے اطراف و اکناف ہونے والے
حادثات،روز مرہ ٹاکیزوں میں جمع ہونے والے ،فیملی ریسٹورنٹس میں قابلِ
اعتراض حرکتوں میں مشغول عاشقوں کی روک تھام کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ہمارے
Survey کے حساب سے ویلنٹائن ڈے صرف14 فبروری کو نہیں ہر روز ہوتا ہے سوائے
کالجس کی تعطیلات کے۔اگر حقیقت میں ان تنظیموں کو قوم سے کچھ ہمدردی ہے تو
پھر ان وجوہات پر غور کرتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی بے حیائی کی روک تھام کے
ساتھ ساتھ کوئی ایسا اقدام کریں۔جس سے پوری قوم کو فائدہ حاصل ہو۔ مثلاً
روز بہ روز بڑھتی ہوئی ٹریفک اموات،بچہ مزدوری،ہر طرف پھیلی ہوئی
گندگی،صوتی آلودگی چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں کے ٹولے وغیرہ وغیرہ۔ اس
عمل سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو راحت محسوس ہوگی۔
خاص طور پر مسلم تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں اس طرف سنجیدگی سے غور و فکر
کریں اور عملی اقدام کرتے ہوئے کوئی نتیجہ برآمدکریں۔نہ صرف تنظیمیں تمام
ذمہ دارانِ قوم وملت ،اثر و رسوخ رکھنے والے بھی آگے آئیں،خاص طور پر
والدین کو اپنے بچوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ نوجوان نسل خاص طور پر بے
حیائی کے سیلاب میں بہتی ہوئی لڑکیوں کو بچانے کے لئے ﷲ آگے آئیں۔کیبل ہی
کیا کم تھا کے اب Internet اور I.phone نے تو اس بے حیائی کوFingertips پر
دستیاب کردیا ہے خداخیر کرے،اس پر بہت ہی سنجیدگی سے غور وفکر کرتے ہوئے
کوئی لائحہ عمل اپنے آپ پر صادرکرتے ہوئے اپنے محاسبہ کی شدیدضرورت ہے ورنہ
ہماری کوتاہی اور نظراندازی کل ہمیں پچھتانے اور شرمندگی پر مجبور نہ
کردے،خدا نہ کرے۔
ویلنٹائن ڈے ہو یا پھر کوئی بھی مغربی رسم و رواج ہمارے اور انکے معاشرہ
میں زمین و آسمان کا فرق ہے،اسی لئے ہمیں چاہئیے کہ کوئی بھی رسم کا اہتمام
چاہے اس کا تعلق کسی بھی معاشرہ سے ہو اسے اپنی حدمیں رہ کر شائستہ طریقہ
سے انجام دینا چاہئیے اور کسی دوسرے کو اپنی جانب انگلی اٹھانے کا موقع
فراہم نہ کریں۔کسی بھی عمل سے قبل یہ ایک بار ضرور سوچ لینا چاہئیے کہ
ہمارا تعلق کس مذہب سے ہے۔پھر نہ ہی ہوگا کوئی مغربی عمل ہم سے سرزداور نہ
پھر ویلنٹائن ڈے کے ذریعہ پھیلے گا بے حیائی کا زہر! |