لہو لہان پاکستان اور ہمارے جھوٹے عزم و حوصلے

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ گزشتہ روز سہون شریف کے المناک واقعے میں جاں بحق ہوجانے والے بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد اور مکمل صحت یابی عطا فرمائے آمین۔

گزشتہ روز سہون میں حضرت بعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش دہشت گردی کے واقعات میں ان گنت انسان زندگی کی بازی ہار گئے اور بڑی تعداد میں زخمی لوگ اسپتال کے نام پر نامعلوم کس طرح اپنے سسکتے اور رستے زخموں کے ساتھ بیٹھے زندگی سے ناطہ جوڑنے کی کوشش میں جیتے جی مر رہے ہیں اور ہمارے حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کررہے ہیں ان میں سے چند ایک کے عزائم اور حوصلے درج زیل ہیں۔

عوام پرسکون رہے ہم بدلہ لیں گے اور جلد لیں گے
وطن عزیز کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے
اب مزید صبر نہیں ہوسکتے کسی سے رعایت نہیں برتیں گے
قوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا فوری حساب لیں گے
دشمنوں کی سازش کو سمجھ چکے یہں
دشمن کو اس کی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اس سانحے کی پرزور مذمت کرتے ہیں
دشمنوں کو اب کوئی ڈھیل نہیں دی جائے گی۔
ہم قوم کے ساتھ شانہ بشانے کھڑے ہیں۔
دشمن جان لے وہ ہمارے عزائم کو کمزور نہیں کرسکتا۔
دشمن کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے انہیں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔
عوام حوصلہ رکھے اور ہمت سے کام لے۔

یہ ہیں چند جھلکیان ان بے شمار بیانات میں سے کہ جن پر کم از کم میڈیا پر ہم نے دشمنوں کی نیندیں اڑادیں ہیں اور لگتا ہے کہ دشمنوں کی صفوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور وہ اپنی جانیں بچا کر بھاگنے میں مصروف ہیں۔

ان تمام دعوں اور میڈیا پر اپنے بیانات کی سرخیوں میں جدت اور نیا پن لانے کی ہر حکمران، سیاسی اور فوجی رہنما زبردست کوشش کرتے پائے گئے۔ مگر افسوس کہ میڈیا کی بریکنگ نیوز میں ہی بدلہ لینے اور اس کا عزم کرنے کے دعوے اور وعدے کئے جاتے رہیں گے۔ایک ملک کھربوں روپوں کے بجٹ کے ساتھ چند دہشت گردوں کا جن کا بجٹ ١ ارب بھی نہیں ہوگا ان سے مقابلہ صرف پریس ریلیز میں ہی کرتی رہے گی کیا ؟؟؟؟؟؟؟ کب تک آخر کب تک ہم یہ ڈرامے دیکھتے رہیں گے۔

ہمیں اپنے سیاستدانوں اور فوجی قیادت کے نام تو خوب معلوم ہیں مگر کیا ہمیں اپنے دشمن کے بارے میں کچھ علم بھی ہے کہ وہ کون ہیں اور ان کے رہنما کون ہیں اور ان کے کیا نام ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جب تک ہم اپنے دشمن کے بارے میں جان ہی نہیں پارہے تو ان سے مقابلہ کیا کریں گے۔

اسکے ساتھ ساتھ پولیس کے محکمے نے ان واقعات کے بعد اپنی پھرتی دکھانے کے لئے عوام کو سرچ آپریشن کی نوید سنادی ہے، سرچ آپریشن کے نام پر اب پولیس نہتی عوام کو روڈوں پر روک روک کر ان سے وصولیاں کرے گی اس سے نہ تو کوئی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت اور رہنمائوں پر کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی دہشت گرد اور دشمنوں کو مگر عوام کے ساتھ جو کچھ ہوگا وہ صرف عوام ہی خوب جانتی ہے اور وہی سزا بھگتے گی۔

ہمارے عظیم ملک کی بدنصیبی ہے کہ ہمارے ادارے ایسے کسی بھی واقعے کے بعد مکمل ناکام دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر فرائض ادا کرنے میں کامیاب کسی طور نہیں دیتے۔

ایک صوبے کے حکمران دوسرے صوبے کے حکمرانوں کو لعن طعن کرتے ہیں اور یہ دیکھنا ان کے لئے باعث اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ چلو ہمارے صوبے میں کچھ ایسا ویسا ہوا تو کیا ہوا ہمارے مخالفین کے صوبے میں بھی تو ایسا ہوگیا ہے چنانچہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور ان میں قصور صرف حکمرانوں کا نہیں ہے بلکہ ہم عوام بھی اپنی حالت زار کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔

پہلے مسلم لیگ ن کے حکمرانوں پر خیبر پختونخواہ اور صوبہ سندھ کے حکمران انگلیاں اٹھاتے رہے کہ پنجاب میں یہ ہورہا ہے وہ ہو رہا ہے پھر خیبر پختونخواہ میں دہشتگردی کے واقعات کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مذمت اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اور اب سندھ کی باری تھی چنانچہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کو لعنت طعن کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ یہ کہانیاں اور پوائنٹ اسکورنگ چلتی رہے گی الیکشن قریب قریب ہیں چنانچہ سب سیاسی حکمران ایک دوسرے کی جانب انگلیاں اٹھا کر عوام کو ہمیشہ کی طرح بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں اور عوام ہر سانحے پر ٹی وی پر چپک کر بیٹھ کر بیانات اور عزائم کے بیانات پڑھنے میں مصروف رہتی ہے۔

باشعور عوام ہوتی تو ہمارے حکمرانوں اور رہنمائوں کو اپنے احتساب کر کچھ خوف بھی ہوتا مگر ہمارے رہنما بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کو کس طرح لالی پاپ دیکر اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔ دل صرف ٹوٹ نہیں جاتا بلکہ چھلنی ہوجاتا ہے جب لوگ سیاست کی دکان کے نام پر اپنے مفادات دیکھتے ہیں اور عام معصوم عوام کی جان و مال ان کے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ ہم دکھی دل کے ساتھ لوگوں پر تنقید کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے باقی سیاست اور حکمرانی کرنے والے نجانے کونسی مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ اے کاش ہم عوام کو سمجھ آجائے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہیں جو ایسے سیاستدان اور حکمران ہم پر مسلط ہیں اور ان کے ہٹنے کی اور کوئی صورت نہیں کہ جب تک ہم من الحیث القوم سدھر جائیں اور شعور کا مظاہرہ کریں کاش اے کاش۔

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد۔

 

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493837 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.