الزامات کا اُٹھتا دھواں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
جمعرات 9 فروری کو اسلام آباد میں غیرملکی کارپوریٹ رہنماؤں اور عالمی
کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو ز سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے
کہا کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور مراعات سے
فائدہ اٹھائیں۔ اُنہوں نے چودہ ممالک کی نامور کمپنیوں کے 38 ایگزیکٹوز سے
خطاب کرتے ہوئے اُنہیں حکومت کی سرمایہ کار پالیسیوں اور پاکستان میں
سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا ۔ اُنہوں نے کہاکہ 2025ء تک ملک میں ترقی
کی شرح 8 فیصد ہو گی اور ہم آئندہ برسوں میں دُنیا کے 20 بہترین معیشت والے
ممالک میں شامل ہوں گے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے خطّے میں معاشی
سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور وسط ایشیاء کی ریاستوں کے ساتھ روابط کو فروغ
ملے گا ۔ وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا کہ حکومت نے سرمایہ کار دوست ماحول
فراہم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے
انتہائی پُرکشش ہے اِس لیے عالمی سرمایہ کاروں کو اِس موقعے سے فائدہ
اُٹھانا چاہیے ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء سے اب تک نوازلیگ کی حکومت نے ملکی ترقی کے
لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور کچھ بہتری بھی نظر آئی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت
کے خاتمے کے بعد پاکستان مالی اور توانائی کے شدید بحران کا شکار تھا ۔ کئی
کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے نہ صرف عام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی
بلکہ معیشت کا پہیہ بھی رُک چکا تھا ۔ اِس کے علاوہ دہشت گردی کا عفریت ہر
کہ و مہ کو نگلنے کے لیے ہمہ وقت ایستادہ تھا ۔ کراچی خونم خون تھا۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے جینا دوبھر کر رکھا تھا اور اقوامِ عالم
یہاں تک کہہ رہی تھیں کہ دہشت گرد کسی بھی وقت اسلام آباد پر قابض ہو سکتے
ہیں ۔ پاکستان عالمی تنہائی کی طرف بڑھ رہا تھا اور ہمارا ازلی ابدی دشمن
بھارت ، پاکستان کو تنہا کرنے اور اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا تھا ۔عجیب افراتفری کا ماحول تھا اور کرپشن کی
نِت نئی کہانیاں جنم لے رہی تھیں۔
موجودہ حکومت نے معاملات کو سلجھانے کے لیے کئی اقدام کیے اور شاید پاکستان
کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ملکی سلامتی کے لیے
ایک صفحے پر دکھائی دینے لگی جس سے کئی قابلِ ذکر کارنامے سامنے آئے۔ آج
صورتِ حال یہ ہے کہ دہشت گردی 90 فیصد کم ہو چکی ۔ دہشت گرد اپنا وجود ثابت
کرنے کے لیے اب بھی اِکاّ دُکّا وارداتیں کرتے رہتے ہیں ۔13 فروری کو
اُنہوں نے لاہور میں دہشت گردی کی واردات کرکے پولیس کے 2 ڈی آئی جیز سمیت
14 افراد کو شہید کر دیا لیکن بُزدِل دشمن دیکھ لے کہ ہمارا عزم صمیم اور
حوصلے جواں ہیں ۔ یہ تو بہرحال طے ہے کہ قوم دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ
کرکے ہی دَم لے گی ۔ کراچی کی روشنیاں بحال ہو گئیں اور اب عروس البلاد
پہلے کی طرح ساری ساری رات جاگتا ہے ۔ بلوچستان میں ’’فراری‘‘ دھڑادھڑ
ہتھیار ڈال رہے ہیں اور پورے بلوچستان میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں ۔
گیم چینجر اقتصادی راہداری بتدریج آپریشنل ہو رہی ہے اور تمام عالمی سرویز
پاکستان کومستقبل میں مضبوط اور مستحکم ظاہر کر رہے ہیں ۔ پاک بحریہ کی
کثیر القومی بحری مشقیں جاری ہو چکیں ۔ اِن مشقوں میں امریکہ ، چین ، روس ،
جاپان ، برطانیہ اور ترکی سمیت 37 ممالک شرکت کر رہے ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ میں
بہت حد تک کمی آ چکی ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ مزید سولہ ہزار میگا واٹ
بجلی اِس سال کے آخر تک پیدا کی جا سکے گی جس سے پاکستان بجلی کی پیداوار
میں نہ صرف خودکفیل ہو جائے گا بلکہ بَرآمد کے قابل بھی ہو سکتا ہے ۔
حکومتی اعلانات کے مطابق عوام کو انتہائی سستی بجلی مہیا کی جائے گی اور
بجلی کا پندرہ سے بیس روپے فی یونٹ ریٹ قصّۂ پارینہ بن جائے گا ۔
یہ سب کچھ اُن حالات میں ہوا جب تحریکِ انصاف متواتر سڑکوں پر رہی اور
علامہ طاہر القادری بھی بار بار حملہ آور ہوتے رہے ۔ اسلام آباد کے ڈی چوک
میں126 روزہ دھرنے کے دوران کیا کچھ نہیں ہوا،وزیرِاعظم ہاؤس پر قابض ہونے
کی کوشش کی گئی ، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا ، پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں
ڈیرے ڈالے گئے ، شاہراہِ دستور کے فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اکھاڑ لی گئیں،
درخت جلا دیئے گئے اور امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار کیا جاتا رہا ۔
اگر جنرل راحیل شریف کا جمہوریت پر غیر متزلزل ایمان نہ ہوتا تو شاید ایک
دفعہ پھر مارشلاؤں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جاتے ۔ ہمارے عظیم دوست چین کے
صدر اُنہی دنوں پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے لیکن حالات کے جبر نے
حکمرانوں کواتنا مجبور کر دیا کہ اُنہیں چینی صدر سے دورہ ملتوی کرنے کی
درخواست کرنی پڑی۔ جب دَورہ ملتوی ہو گیا تو کپتان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے
ہو کر کہا ’’او جھوٹو ! چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا تھا ‘‘۔ چینی صدرِ محترم
پاکستان آئے بھی اور چھیالیس اَرب ڈالر کا اعلان بھی ہوا جسے بعد میں ستاون
اَرب کر دیا گیا ۔ اِس میں چھتیس اَرب صرف توانائی کے لیے ہیں جو قرضہ نہیں
بلکہ چین خود اِنویسٹ کر رہا ہے ۔ اگر یہ 126 روزہ دھرنا نہ ہوتا تو شاید
آج اقتصادی راہداری بہت حد تک آپریشنل ہو چکی ہوتی ۔
بات اگر اِنہی دھرنوں تک ہی رہتی تو قوم اِسے’’ گزشت آنچہ گزشت ‘‘ کہہ کر
بھول بھی جاتی لیکن افراتفری پھیلانے کی کوششیں تو جاری و ساری ہیں اور اب
پاناما پیپرز کی آڑ میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ 15 فروری
کو سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کی سماعت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوچکا
اورایک دفعہ پھر الزامات کی بارش میں قومی سکون غارت ہونے کو ہے ۔ شاید یہ
پاناما پیپرز بھی اُن عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے جنہیں پاکستان میں معاشی و
سیاسی استحکام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بھارت کھلم کھلا اقتصادی راہداری کی
مخالفت کر رہا ہے ۔ اگر بھارت کے سوا کوئی اور ملک اِس سازش میں شامل نہیں
تو پھر بھی افراتفری کا ماحول ہر شے کو تہ و بالا کرنے کے لیے کافی ہے ۔ہم
دیکھ چکے ہیں کہ جن دنوں پاناما پیپرز کی سماعت ہو رہی تھی اُن دنوں عدالت
کے باہر ہر روز ایک عدالت سجتی تھی جس میں دونوں طرف سے سوائے الزامات کے
اور کچھ نہیں ہوتا تھا اور یہ الزامات گھروں تک پہنچ رہے تھے حالانکہ سیاست
میں کبھی ذاتیات شامل نہیں ہوا کرتی ۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ کہ حکومتی
اکابرین کو سِرے سے ادراک ہی نہیں کہ تحریکِ انصاف کے پاس گنوانے کو کچھ
بھی نہیں ، جو نقصان بھی ہو گا ، نوازلیگ ہی کا ہو گا یا پھر قوم کا جو
سہانے سپنے سجائے بیٹھی ہے ۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کپتان ایک خاص منصوبے
کے تحت یہ سب کچھ کر رہے ہیں کیونکہ ہمارا حسنِ ظَن یہی ہے کہ وہ محبِ وطن
پاکستانی ہیں لیکن یہ کہے بنا بھی کوئی چارہ نہیں کہ کپتان صاحب کا یوں
سڑکوں پر نکلنا کسی بھی صورت میں ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے ۔ |
|