بیچارے نیب زدہ لوگ

سپریم کورٹ نیب کے رویے سے خوش نہیں۔ اسلئے کہ نیب کا رویہ معصوم لوگوں کے ساتھ بہت جارحانہ، جابرانہ اور ظالمانہ ہے۔جب کہ اصل مجرموں کا ساتھ بڑی شفقت پیاراور جوڑ توڑ کا برتاؤ ہوتا ہے۔ ایک کیس میں سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ نیب حکام ہر سکینڈ کے ساتھ ملک کے عوام کا اعتماد کھو رہے ہیں۔نیب کی حالت عجیب ہے۔ ملزموں کو بارگین کے بعد آزاد کرکے اسے پلی بارگین کا نام دیا جاتا ہے۔نیب حکام اپنی خواہشات کے مطابق ملک کو فروخت کر رہے ہیں۔برآمد کی گئی رقم پر پلی بار گین نہیں بارگین ہوتی ہے۔

یہ اﷲکا شکر ہے کہ کوئی ادارہ تو عام لوگوں کا درد محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ کوئی بھی شخص جس کے پاس پیسے ہیں خواہ وہ کوئی سرمایہ دار ہو یا کوئی حرام خور، نیب اس کا کچھ نہیں بگاڑتی۔ اپنے لاثانی اصولوں کے مطابق نیب فقط اپنا حصہ وصول کرتی ہے اور وہ شخص ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے گنگا نہا آیا ہو۔گنگا نہانے کے لئے نیب نے پلی بارگین کا اصول اپنایا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ پلی بارگین اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کاپچیس 25 فیصد نیب کے محنتی افسروں کو ان کی بے پناہ محنت کے صلے میں قانونی طور پر ملتا ہے گواخلاقی طور پریہ ایک قانونی ہیراپھیری ہی ہے ۔ نیب اس ملک کا ایک انتہائی طاقتور ادارہ ہے اور ہر طاقتور کی طرح اس کے اپنے ہی ضابطے ہیں۔ ملک کے بہت سے طاقتوروں کے خلاف نیب نے مقدمات درج کئے مگر کبھی کوئی خاص کاروائی نظر نہیں آئی اور جو کاروائی ہوئی بھی تو وہ ان بیچاروں کے خلاف کہ جو پہلے ان طاقتوروں کے ظلم اور جبر کا شکار ہوکر ان کے جرموں میں حصہ دار ٹھہرے۔ اصل مجرم حصہ دے کر فارغ ہو گئے اور معصوم یا معمولی جرم والوں کے جرم کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ عوام نیب کی پھرتیوں پر عش عش کرنے لگے اور وہ مجبور اور بے بس لوگ عمر کے بقیہ ایام نیب نیب کھیلتے گزا رنے پر مجبور ہیں۔ ان کے مقدر میں ہر ہفتے نیب عدالت کا ایک چکر ضرور ہوتا ہے۔کہتے ہیں نیب کی عدالتیں کوئی بھی فیصلہ دس سال سے پہلے کرنے پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ بے گناہ بھی دس سال بعد ثابت ہونگے۔اب دس سال تک وہ کوئی دوسر ا کام نہیں کر سکتے۔ گھر میں بھوک ہو، افلاس ہو کسی کو کیا۔

میرے ایک شناسا مجھے ملنے آئے کہ نیب نے بلا لیا ہے کیا خیال ہے کیا سلوک ہو گا۔میں ہنس دیا کہ بھائی دس سال ضائع سمجھو۔ بتا رہے تھے کہ دواؤں کی قیمتوں میں کمی بیشی کے لئے وفاقی سطح پر ایک کمیٹی ہے جس میں تمام صوبوں کے نمائندے بھی شامل ہیں جو شاید سیکرٹری سطح کے لوگ ہیں۔ ایک یا دو میٹنگز میں خانہ پری کے لئے اسے بھیج دیا گیا کہ سیکرٹری صاحب مصروف تھے ۔ہر چیز پہلے سے تیار تھی ۔ میٹنگ میں پتہ چلا کہ مینوفیکچرز کی درخواست پر کچھ دواؤں کی قیمتیں میں اضافے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ان کی حیثیت خانہ پری سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے چائے پی ان سے گپ شپ کی اور چلے آئے اسلئے کہ ماتحت تھے اور حکم حاکم مرگ مفادات،کوئی رائے دینے کے بھی مجاز نہ تھے۔ کیا فیصلہ ہوا۔ کس نے میٹنگ کے منٹ لکھے۔ انہیں کچھ پتہ نہیں۔

اب نیب انکوائری کر رہا ہے کہ اس وقت دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے لئے کچھ جوڑ توڑ ہوا تھا۔ سارے مینوفیکچرزپلی بارگین کرکے فارغ ہو چکے۔ اصل مجرم کون ہیں نیب انہیں ڈھونڈھنے کی بجائے اسے اور اس جیسے چند لوگوں کو پکڑنا چاہتا ہے۔اگلے سال اس نے ریٹائر ہونا ہے مگر مجبوری میں جی پی فنڈ کی تمام رقم نکلوا کر وکیلوں کو دے چکا ہے۔ مگر خوف ہے کہ جان نہیں چھوڑتا۔ نیب کی تمام تر زیا دتیوں اور سپریم کورٹ کی تمام تر ہمدردیوں کے باوجود ہمارے ہائی کورٹ تمام تر جانتے ہوئے بھی نیب کے ستائے ہوئے کسی شخص کی ضمانت قبل از گرفتاری لینے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ پریشان لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر عدالت کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں ،کبھی کیس کی باری نہیں آتی ، کبھی وکیل لیٹ، کبھی جج صاحب کسی مسئلے کا شکار۔ بالآخر لوگ نیب کے ہتھے چڑھ جاتے اور پھر اس کے ر حم و کرم پر ہوتے ہیں۔ان حالات میں عوام کی طرف سے یہ مطالبہ بڑے زور شور سے سامنے آ رہا ہے کہ نیب کو ختم کرکے عدلیہ کی زیر نگرانی ایک نیا اور آزاد احتساب کمیشن بنایا جائے جو کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر،ہر شخص کا چاہے وہ جتنا بھی بااثر ہی کیوں نہ ہو بلا تفریق احتساب کرے اور جس کو قصور وار اور بے قصور کا امتیاز کرنا بھی آئے۔

کہتے ہیں ایک شخص آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے ہوئے پکڑ ا گیا۔ وجہ پوچھی تو بولا ، انصاف لینے آیا ہوں۔ اسے بتایا گیا کہ عدالت تو دن کے وقت لگتی ہے۔جواب میں اس نے ایک بڑی زبردست بات کہی، ظلم چوبیس(24) گھنٹے ہو اور انصاف صرف دن کے وقت ملتا ہو، یہ کیسا قانون ہے۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501275 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More