ز حال مسکین مکن تغا فل

قدیم دور میں جب اردو اپنی ارتقائی منزلیں طے کر رہی تھی ،اردو غزل میں فارسی کا اثر بہت نمایاں تھا۔ اس وقت اردو ایک مکمل زبان کی شکل سے ابھی طویل فاصلے پر تھی۔چنانچہ اس وقت کے اردو شعرا اپنی غزلوں میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کا بھر پور استعمال کرتے تھے۔ ایسی تمام غزلیں جن میں اردو اور فارسی کا امتزاج ہوتا یعنی کچھ مصرعے فارسی اور کچھ اردو کے ہوتے ریختہ کہلاتی ہیں۔ جدید اردو والوں نے بعد میں ریختے سے فارسی کا عمل دخل ختم کرکے اسے غزل کا نام دے دیا۔

حضرت امیر خسرو کے کلام میں ریختے کے قدیم تریں خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ ان کی ایک غزل یا ریختہ پچھلے کئی سالوں سے نامکمل شکل میں بہت سے گانوں اور قوالیوں کی ابتدا میں گایا جاتا ہے۔اسے سننے کے دوران کچھ الفاظ سمجھ آتے ہیں اور کچھ نہیں آتے۔ اس کی وجہ عام آدمی کی فارسی سے مکمل ناواقفیت اور کچھ گانے والوں کی بہت سے الفاظ کی غلط ادائیگی ہے۔ لوگوں کو مفہوم تو دور کی بات الفاظ بھی صحیح پتۃ نہیں چلتے اس لئے اس غزل یا ریختے کی خوبصورتی کا اندازہ ہی کر پاتے۔اس انتہائی خوبصورت مکمل غزل یا ریختہ کے الفاظ اور مفہوم کچھ یوں ہیں۔
ز حال مسکین مکن تغا فل دو رائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جان نہ لیہو گاہے گاہے چھتیاں
(اس مسکین ، اس لاچار کے حال کو نظر انداز مت کرو، نہ ہی اس سے آنکھیں پھیرو اور نہ ہی اس پرباتیں بناؤ۔کہ اے میری جان ، اب مجھ میں ہجر کی تاب نہیں، تم مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگاتے۔)
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلش چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
(ہجر کی راتیں زلفوں کی طرح دراز ہیں لمبی ہیں اور وصل کا دن عمر کی طرح انتہائی مختصر ، میرے دوست میں اگر اپنے پیا کو، پریمی کو نہ دیکھوں تو یہ اندھیری راتیں کس طرح کٹیں گی۔)
یکایک از دل دو چشم جادو بہ صدفریبم با برد تسکین
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
(یکایک ان دو آنکھوں نے سینکڑوں فریب دے کر میرا سکون برباد کر دیا ہے اب کسے پڑی ہے کہ وہ میرے دوست کو جا کر مجھ پر جو بیت رہی ہے بتائے۔ )
چوں شمع سوزاں، چوں ذرہ حیراں ز مہر آ ں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
( سلگتی ہوئی شمع یا حیران ذرے کی مانند میں اس کے پیار کی آگ میں بھٹکتا پھرتا ہوں۔آنکھوں میں نیند نہیں ، جسم کو چین نہیں۔ وہ نہ خود آتے ہیں اور نہ ہی پیام بھیجتے ہیں۔)
بحق روز وصال دلبر کہ داد مارا فریب خسرو
سپیت منکے درائے جو جائے پیا کے کھتیاں
(وصال کے اس دن کی یاد کو، کہ جب محبوب نے اپنے وصل سے خسرو کو بہلایا، پھسلایا تھا، خسرو اپنے دل میں اس کے فریب کا پھر شکار ہونے تک چھپائے رکھے گا )
ان ریختوں میں ایک مصرعہ فارسی میں ہے اور دوسرا اس وقت کی ہندی یا اردو زبان میں ۔ یہ زبان یا بھاشا اس وقت کے دیہاتی علاقوں کی بھاشا یا بولی تھی اور اسے برج بھاشا کہا جاتا ہے۔جوں جوں اردو ترقی کرتی گئی، اس کا ذخیرہ الفاظ وسیع ہوتا گیا، فارسی کا استعمال محدود ہوتا گیا اور ریختہ کی جگہ غزل آ ج ہمارے سامنے ہے۔
اردو کی ابتدا کہاں سے ہوئی ، دہلی سے، دکن سے، پنجاب سے یا ساحلی علاقوں سے جہاں مسلمان ماہی گیروں نے شروع شروع میں نئی بستیاں آباد کیں۔ مگر بنیادی طور پر یہ مقامی زبانوں کے عربی، فارسی، ترکی کے الفاظ کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے جو اس وقت فاتح بن کر آنے والے نئے حکمرانوں کی ضرورت تھی۔ ابتدا میں یہ ہندی یا ہندوی کہلائی بعد میں یہ مسلمانوں کی زبان قرار پا کر اردو کہلائی۔ بھارت میں آج ہندی کہلانے والی زبان بھی اردو کے علاوہ کچھ نہیں ماسوائے اس کے کہ اس میں سنسکرت کے الفاظ شامل کر دئیے گئے ہیں۔ اردو پر گو فارسی، عربی اور ترکی کا اثر نمایاں ہے مگر موجودہ صورتحال تک پہنچنے میں اس نے مقامی زبانوں پنجابی، ملتانی، کشمیری، سندھی، بلوچی اور پشتو سمیت سب سے کچھ نہ کچھ اثر قبول کیا ہے۔ اس لئے اسے اصلاً ایک مقامی زبان کہاجاتا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500840 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More