رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سا لار ،غزوات اور جنگوں کا احوال -21

جنگ خیبر کے مالِ غنیمت کی تقسیم
خمس نکالنے کے بعد، جانبازانِ اسلام کے درمیان مالِ غنیمت تقسیم ہوا۔ ان عورتوں کو جنہوں نے لشکر اسلام کی کمک اور ان کی تیمارداری کی تھی رسول خدا ﷺ نے بیش قیمت گلوبند وغیرہ عطا فرمائے۔(حوالہ سابق)

ایک شخص کو ایک خرابہ سے دو سو درہم ملے پیغمبر ﷺ نے اس کا خمس نکال لیا اور بقیہ اس کو دے دیا۔ لشکر اسلام خیبر سے کوچ کرنے والا ہی تھا کہ جعفر ابن ابی طالب حبشہ سے واپس آگئے جب آپ نے رسول خداﷺ کو مدینہ میں نہیں دیکھا تو خیبر کی طرف چل پڑے۔ آنحضرت جعفر کی واپسی پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور فرمایا” سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس بات کے لیے زیادہ خوشی مناؤں فتح خیبر کے لیے یا جعفر کی واپسی کے لیے۔ (مغازی اقدی جلد۲ ص ۶۸۳، زادالمعاد ج۳ ص ۳۳۳، سنن ابی دائود (۲۷۴۵) صحیح بخاری جلد۴ ص ۳۵)

خیبر کے حملہ کے نتائج
خیبر کا حملہ، اسلام سے ٹکرانے کے لیے یہودیوں کی اقتصادی اور جنگی اہم طاقتوں کے گھٹ جانے کا باعث بنا۔ اس حملے کے دوسرے نتائج میں یہ ہے کہ یہودیوں کے ایک دوسرے گروہ کے ہتھیار ڈال دینے کی بدولت مشرکین کی فوج میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تحریک اسلام کی مزید پائیداری ہوئی۔

خیبر میں لشکر اسلام کی کامیابی کے اسباب
حملہ کے نقشہ اور مؤثر جنگی ٹیکنیک کا استعمال۔
پیغمبر اسلام کی دقیق اور حکیمانہ سپہ سالاری اور لشکر اسلام کا سپہ سالار کے حکم پر مکمل عمل۔
جنگی حکمت والی مناسب جگہ پر ڈٹے رہنا۔
خیبر کے کامل محاصرہ تک لشکر اسلام کی مکمل پوشیدگی۔
دشمن کے حالات کی اطلاع اور ہر قلعہ میں لشکر کی تعداد و کیفیت کے بارے میں مکمل معلومات۔
مولا علی علیہ السلام کی بے امان جنگ، ایسی جنگ کہ دشمن کے نقصانات میں سے آدھا نقصان دست زبردست حیدر کرار کی توانائی کا نتیجہ تھا۔

فدک
خیبر سے ایک منزل اور مدینہ سے 140 کلومیٹر دور کچھ یہودی فدک نامی ایک قصبہ میں رہتے تھے۔ یہ لوگ خیبر کے یہودیوں کے انجام سے ڈر گئے اور خدا نے ان کے دل میں خوف و دہشت بڑھا دی اس وجہ سے انہوں نے پیغمبر ﷺ کے نمائندہ کے جواب میں ایک شخص کو قرارداد صلح طے کرنے کے لیے رسول خدا ﷺکے پاس بھیجا اور آنحضرت ﷺسے یہ معاہدہ کیا کہ آدھا فدک وہ ان کے حوالہ کر دیں گے اور اس میں کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آمدنی ان کے حوالہ کریں گے۔ (مغازی ج۲ ص ۷۰۶)

رسول خدا نے فدک بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو عطا کر دیا۔ فدک کی سالانہ آمدنی42000 درہم تھی۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اس آمدنی کا بیشتر حصہ بے سہارا لوگوں کی امداد اور اجتماعی مصالح ایسے امور خیر میں صرف کرتی تھیں۔ (پڑوہشی عمیق از زندگانی علی ص ۲۶۱،۲۶۶)

غزوہ وادی القریٰ ۷ ہجری قمری
خیبر کی جنگ ختم ہونے کے بعد رسول خدا ﷺ مدینہ سے350 کلومیٹر دور وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے جو کہ یہودیوں کا ایک اہم مرکز شمار کیا جاتا تھا۔ آپ نے اس کا محاصرہ کرلیا ان کا قلعہ چند دنوں تک لشکر اسلام کے محاصرہ میں رہا۔ انجام کار فتح و کامرانی کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زمینوں کو انہیں کے قبضہ میں رہنے دیا اور وہی معاہدہ جو خیبر کے یہودیوں سے ہوا تھا ان سے بھی طے پایا۔(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۶،۱۷)

تیماء۷ہجری قمری
مسعودی کی تحریر کے مطابق ”تیماء“ کے لوگ یہودی اور رسول خدا کے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادی القریٰ کے فتح کی خبر سنی تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے صلح کرلی اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے اس طرح سے جزیرة العرب سے یہودیوں کی طرف سے جنگی خطرہ بالکل ہی ختم ہوگیا۔

خیبر کے سرایا
خیبر کی فتح کے بعد رسول خداﷺ اپنے دیرینہ دشمن کی طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدینہ میں وہ اطمینان و سکون ہوا جو پہلے نہ تھا۔ صفر سے لے کر ذی القعدہ تک چند مہینوں کی مدت میں آپ نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل کرنے کے لیے یا ان بکھرے دستوں اور جماعتوں کی تنبیہ و سزا کے لیے جنہوں نے داخلی امن و امان میں رخنہ ڈال رکھا تھا روانہ فرمائے ان سرایا کے علاوہ اور کوئی دوسرا جنگی حملہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔

مکہ کی طرف (عمرة (القضا)
یکم ذی القعدہ ۷ ہجری قمری کو صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد صلح نامہ کی شرط کے مطابق مسلمان عمرہ کے ارکان بجا لانے کے لیے تین روز تک مکہ میں ٹھہرنے کے مجاز ہوئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لشکر اسلام کے 2 ہزار افراد کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان میں وہ افراد بھی تھے جو صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ جو خیبر میں شہید ہوگئے یا وفات پاگئے اور کچھ دوسرے لوگ بھی تھے جو اس سفر میں شریک ہونے کے لیے آمادہ ہوگئے تھے۔ قرارداد کے مطابق چونکہ ایک مسلمان سوائے ایک تلوار کے (جو مسافر کا اسلحہ سمجھا جاتا تھا) اپنے ساتھ زیادہ ہتھیار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لیے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ممکنہ خطرہ سے بچنے کے لیے لشکر اسلام کے ایک سردار کو دو سو جاں بازوں کے ساتھ کافی اسلحہ کے ساتھ آگے بھیج دیا تاکہ وہ لوگ ”مرالظہران“ پر مکہ سے22 کلومیٹر شمال میں ٹھہریں اور درہ میں آمادہ رہیں۔ مسلمان، مکہ کے قریب پہنچے، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ناقہ قصویٰ پر سوار تھے اور عبداللہ ابن رواحہ اس کی مہار تھامے ہوئے تھے اور فخر کے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ 2 ہزار مسلمان خاص شان و شوکت کے ساتھ جبکہ ان کی آواز فرط شوق سے لرز رہی تھی۔ ”لبیک اللھم لبیک“ کی آواز بلند کرتے جا رہے تھے۔ اب برسوں بعد، کعبہ کی زیارت کی توفیق ان لوگوں کو نصیب ہوئی تھی۔ قریش نے شہر مکہ خالی کر دیا تھا وہ پہاڑ کی بلندیوں سے مسلمانوں کی جمعیت کو دیکھنے میں مشغول تھے۔ مسلمانوں کی صدائے لبیک کی پرشکوہ گونج نے ان کے دلوں پر وحشت طاری کر دی تھی۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد احتیاطی فوج کے دستہ نے اپنی جگہ دوسرے گروہ کو دے دی ۔انہوں نے عمرہ کے فرائض انجام دیئے۔ مکہ میں سہ روزہ اقامت کی مہلت تمام ہوئی۔ قریش نے ایک شخص کو رسول خدا ﷺکے پاس بھیجا اور یہ کہلوایا کہ جتنی جلدی ہوسکے مکہ سے نکل جائیں۔ اس سفر میں رسول خداﷺ نے مکہ کے شمال میں 21 کلومیٹر کے فاصلہ پر مقام ”سرف“ میں جناب میمونہ سے عقد فرمایا اور اس طرح آپ نے قریش کے درمیان اپنی حیثیت اور زیادہ مضبوط کرلی۔ عمرة القضاء کے بعد ۷ ہجری میں اور چار دوسرے سرایا پیش آئے۔

جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112089 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More