حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکہ آمد

ًحضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کو ہمراہ لیکر حجاز تشریف لے آئے اور وہاں ایک بے آب وگیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہرا دیا اس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا صرف ٹیلے کی طرح ابھری ہوئی زمین تھی سیلاب آتا تھا تو دائیں بائیں سے کترا کر نکل جاتا تھا وہیں مسجد حرام کے بالائی حصے میں زمزم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑا تھا۔ اس وقت مکہ میں نہ پانی تھا نہ آدم اور آدم زاد اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہوگیا اور سخت مشکل پیش آئی مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کیلئے سامان رزق اور متاع حیات بن گیا۔

کچھ دن بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے یہ قبیلہ اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گردوپیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوگئے جرہم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی سے آپ کی شادی کردی اسی دوران حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا انتقال ہوگیا ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا کہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہئے چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے حالات دریافت کئے اس نے تنگ دستی کی شکایت کی آپ علیہ السلام نے وصیت کی کہ اسماعیل آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔

اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے بیوی کو طلاق دیدی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی جو جُرہم کے سردار مضاض بن عَمرو کی صاحبزادی تھی۔ اس دوسری شادی کے بعد ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے مگر اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے احوال دریافت کئے تو اس نے اللہ کی حمدو ثنا کی۔ آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس ہوگئے۔

اس کے بعد پھر تشریف لائے تو اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے دیکھتے ہی لپک پڑے دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہوئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کرسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے جن کے نام یہ ہیں۔ (۱) نابت یا نبایوط(۲) قیدار(۳)ادبائیل(۴) مبشام(۵) مشماع(۶) دوما (۷) میشا (۸) حدد (۹) تیما(۱۰) یطور(۱۱) نفیس (۱۲)قیدمان

ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ ہی میں بودوباش اختیار کی ان کی معیشت کا دار ومدار زیادہ تر یمن اور مصر وشام کی تجارت پر تھا۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں بلکہ بیرون عرب بھی پھیل گئے اور ان کے حالات، زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے صرف نابت اور قیدار کی اولاد اس گمنامی سے مستثنیٰ ہیں۔

اوس وخزرج قحطانی عرب نہ تھے بلکہ اس علاقے میں نابت اسماعیل علیہ السلام کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی تھے۔ قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھلتی پھولتی رہی یہاں تک کہ عدنان اور پھر ان کے بیٹے معد کا زمانہ آگیا۔ عدنانی عرب کا سلسلہ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے۔

عدنان، نبی ﷺ کے سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب اپنا سلسلہ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے۔ فرماتے کہ ماہرین انساب غلط کہتے ہیں۔ مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ان کی تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں۔
Muhammad Zubair
About the Author: Muhammad Zubair Read More Articles by Muhammad Zubair: 11 Articles with 18067 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.