فضائل درود احادیث کی روشنی میں - 2
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
ازعثمان
احمد حفظہ اللہ
February 3, 2017
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
(فضائل درود پرسندا چند ضعیف احادیث و اقوال)
فائده نمبر1:
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
من صلّى على حين يصبح عشرًا وحين يمسي عشرًا، ادركته شفاعتي يوم القيامة
(مجمع الزوائد للهيثمي : 491/1، 120/10؛ الترغيب والترهيب للمنذري : 233/1؛
جلاء الأفهام لابن القيم، ص : 63 )
یہ روایت بلحاظ سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کے راوی خالد بن معدان کا سیدنا
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں، جیسا کہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
نے اس کی نفی کی ہے۔ (المراسيل لابن أبي حاتم، ص : 52، جامع التحصيل، ص:
206)
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفيه انقطاع. ”اس سند میں انقطاع ہے۔“ (تخريج أحاديث الإحياء : 398/3)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فيه انقطع لأنّ خالدًا لم يسمع من أبى الدّرّداء، وأخرجه ابن ابي عاصم
ايضا، وفيه ضعف.
”اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ خالد بن معدان نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ
عنہ سے حدیث نہیں سنی۔ اس حدیث کو ابن ابوعاصم نے بھی بیان کیا ہے، لیکن ان
کی بیان کردہ سند میں بھی کمزوری ہے۔“ (القول البديع فى الصلاة على الحبيب
الشفيع، ص :121)
فائده نمبر2:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ منسوب ہے : میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے سامنے کھڑا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى على يؤم الجمعة ثمانين مرة؛ غفر الله له ذنوب ثمانين عاما، فقيل له
: كيف الصلاة عليك يا رسول الله؟ قال : تقول: اللَّهُمْ صل على مُحَمّد
عبدك ونبىك ورسولك النبي الأمى، وتعقد واحدة. (تاريخ بغداد للخطيب :
463/13، العلل المتناهية فى الأحاديث الواهية لابن الجوزي : 468/1، ح :
796، ميزان الاعتدال للذهبي :351/3)
اس روایت کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
اس کے راوی وہب بن داؤد بن سلیمان ابو القاسم کے بارے میں امام خطیب بغدادی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان ضريرا، ولم يكن ثقة.
(یہ نابینا تھا اور قابل اعتبار نہیں تھا۔‘‘ (تاريخ بغداد :463/13
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذ ا حديث لا يصح
(1یہ حدیث ثابت نہیں۔“ (العلل المتناهية فى الأحاديث الواهية:468/
حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وحسنه العراقي، ومن قبله أبو عبدالله بن النعمان، ويحتاج إلى نظر.
”حافظ عراقی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے ابو عبداللہ بن نعمان نے اس حدیث کو
حسن قرار دیا ہے لیکن یہ بات تحقیق کی محتاج ہے۔“ (القول البديع فى الصلاة
على الحبيب الشفيع، ص: 199)
فائده نمبر3:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
من صلى علي، بلغتني صلاته، وصليت عليه، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات.
”جو شخص مجھ پر دوود پڑھتا ہے، مجھے اس کا درود پہنچ جاتا ہے اور میں اس پر
رحمت کی دعا کرتا ہوں، اس کے علاوہ اس کے لئے دس نیکیاں بھی لکھ دی جاتی
ہیں۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 1642)
اس روایت کی سند دو وجہ سے ”ضعیف“ ہے:
(1) اسحاق بن زید بن عبدالکبیر خطابی راوی ”مجہول الحال“ ہے۔ امام ابن حبان
(اثقات : 122/8) کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
(2) ابوجعفر رازی (حسن الحدیث) کی روایت بہ طور خاص ربیع بن انس سے ”ضعیف“
ہوتی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ ربیع بن انس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
والناس يتقون حديثة، ما كان من رواية أبي جعفر عنه، لان فيها اضطراب كثير.
”محدثین ربیع بن انس کی ان روایات سے بچتے ہیں جو ابوجعفر نے ان سے بیان کی
ہیں، کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہے۔“ (الثقات: 228/4)
مذکورہ بالا روایت بھی ربیع بن انس سے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ بن ماہان ابوجعفر
رازی بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، جسے رد کرنا جائز نہیں۔
یاد رہے کہ مذکورہ حدیث کی سند میں امام طبرانی کے استاذ احمد بن نضر بن
بحر، مقری، عسکری ’’ثقہ“ ہیں۔
فائده نمبر: 4
امام عبدالملک بن عبدالعزیز، ابن جریج رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے:
قلت لعطاء : فإن لم يكن فى البيت أحد؟ قال: سلم، قل: السّلام على النبى
ورحمة الله وبركاته، السّلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، السّلام على
أهل البيت ورحمة الله.
میں نے امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر گھر میں کوئی نہ
ہو تو (سلام کہوں) ؟ انہوں نے فرمایا: یوں سلام کہو: نبی اکرم پر سلام،
اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔
اہل بیت پر بھی سلامتی اور اللہ كی رحمت ہو۔
(تفسير الطبري: 379/17، وفي نسخة : 174/18)
اس قول کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کی سند میں قاسم بن حسن کون ہے؟
معلوم نہیں۔
فائده نمبر :5
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تک یہ بات پہنچی ہے:
إذا دخل البيت غير المسكون؛ يقال : السّلام علينا وعلى عباد الله
الصّالحين.
”جب کسی غیر آباد گھر میں داخل ہوا جائے تو یوں کہا جائے: ہم پر اور اللہ
کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔“ (المؤطا للامام مالك : 962/2)
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
امام مالک رحمہ اللہ تک اس قول کو پہنچانے والا نامعلوم و مجہول ہے۔
فائده نمبر: 6
فقہ حنفی کی معتبر کتب میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف
منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
مع كل مؤمن خمسة من الحفظة؛ واحد عن يمينه يكتب الحسنات، وآخر عن يساره
يكتب السيئات، وآخر أمامه يلقنه الخيرات، وآخر ورائه يدفع عنه المكاره،
وآخر عند ناصيته يكتب ما يصلّي على النبى صلى الله عليه وسلم يبلّغة إلى
الرسول عليه الصّلاة والسّلام.
”ہر مومن کے ساتھ پانچ فرشتے ہوتے ہیں؛ ایک اس کی دائیں جانب ہوتا ہے جو
نیکیاں لکھتا ہے، دوسرا اس کی بائیں جانب ہوتا ہے جو گناہ لکھتا ہے تیسرا
اس کے سامنے ہوتا ہے جو اسے نیکیوں کی تلقین کرتا ہے اور چوتھا اس کے پیچھے
ہوتا ہے جو اس سے تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور پانچواں اس کی پیشانی کے پاس
ہوتا ہے جو اس کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ ھے جانے والا
درود لکھتا ہے اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے۔“
(العناية شرح الهداية للبابرتي : 321/1 ؛ الجوهرة النيرة للحدّاد : 56/1؛
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق للزيلعي الحنفي : 126/1؛ البحر الرائق شرح
كنز الدقائق لا بن نجيم : 256/1؛ منحة السلوك للعيني الحنفي، ص : 142؛
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح للطحطاوي :275/1؛ مراقي الفلاح شرح نور
الايضاح للشرنبلالي، ص : 102)
لیکن یہ بے سروپا قصہ اور سفید جھوٹ ہے، جسے بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی
گرفت سے بے خوف و خطر ہوتے ہوئے اپنی طرف سے گھڑ کر سیدنا عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
فائده نمبر: 7
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیدہ حواء علیہا السلام کا حق مہر یہ مقرر
کیا گیا کہ سیدنا آدم علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی
پر درود پڑھیں۔ (بستان الواعظين ورياض السامعين لابن الجوزي، ص: 307 بحار
الأنوار المجلسي الرافضي: 33/15)
لیکن آج تک کوئی مسلمان اس جھوٹی کہانی کی سند پر مطلع نہیں ہو سکا۔
فائدہ نمبر: 8
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب نے بلا تردید ایک جھوٹا خواب نقل کیا
ہے:
” (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) میں ہر اس شخص کی فریاد کو
پہنچتا ہوں، جو مجھ پر کثرت سے دور بھیجے۔
(تبلیغی نصاب، ص: 791)
جناب زکریا صاحب نے اس جھوٹے خواب کو رد کرنے کی بجائے اسے نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم سے بعد از وفات فریاد کرنے کی دلیل بنایا ہے، جو کہ صریحاً
شرک ہے۔
فائده نمبر: 9
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ نہیں پڑھی
گئی، بلکہ صحابہ کرام ٹولیوں کی صورت میں جاتے تھے اور درود پڑھ کر واپس آ
جاتے تھے۔ جب کہ یہ بات صحیح روايات اور اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے
باطل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ پڑھی گئی، البتہ اس میں امام
کوئی نہیں تھا، سب نے اپنے طور پر نماز جنازہ ادا کی۔ |
|