اﷲ
تعالیٰ نے جب تخلیق انسان کا فیصلہ کیا تھا تو برکریم کی محبوب ترین مخلوق
فرشتوں نے استفساراً عرض کیا تھا کہ کیا آپ ایسی مخلوق پیداکرنے کا ارادہ
رکھتے ہیں جو زمین میں فساد فی الارض پھیلائے گی۔یعنی کشت و خون کے دریا
بہادے گی، بھائی بھائی رشتہ و عزیز ایک دوسرے کا خون بہانا فرض جان لیں گے،
معمولی نوعیت کے واقعات پر قتل و قتال کا میدان سجا دیں گے،ذاتی منفعت و
فائدے کی خاطر ظلم و جور کی تمام سختیاں اور سازشیں کرگذریں گے اس کے بدلہ
میں دنیا بھر کی عام انسانوں و مخلوقات کو بھی داؤپر کیوں نہ لگانا پڑ
ئے۔جبکہ دوسری طرف ہم ہیں کے صبح و شام ،لیل و نہار، ہر آن و ہر گھڑی آپ کی
تسبیح و تحمید کررہے ہیں۔تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ کو جواب
دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
موجودہ دنیا کے حالات دیکھے جائیں تو انسان ہی انسان کو گاجر مولی کی طرح
کاٹ رہاہے،کہیں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں مظالم کی بدترین مثالیں قائم کی
گئی، کہیں ہلاکو اور چنگیز خان جیسے قاہر و جابر حکمرانوں نے انسان کو خون
کو پانی کی طرح بہایا،تو کہیں فلسطین، چیچنیا،کشمیر و عراق اور افغانستان
اور شام و بورما میں اب بھی خون مسلم ارذاں ہوچکا ہے اور اس سے قبل ہند و
پاک کی تحریک میں لاکھوں انسانوں کا خون بہا،انسانوں کے سبھی طبقات نے اﷲ
تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کرکے شیطان کے راستہ کو اختیار کرتے ہوئے
باہم دست گیر ہوئے کہ انسانی تاریخ بھی شرماتی ہے کہ اس قدر بھیانک واقعات
کی مرتکب یہی اشرف المخلوقات (انسان) خود ہی ہواہے۔ظلم تو یہ ہے کہ جو
اسلام حضرت عیسیٰ ؑ کے انتقال کے چھ سوسال بعد انسانیت کی رہنمائی و رہبری
کیلئے آیا تھا جس میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا، مسلمان پر
مسلمان کے مال، جان، عزت کو ہمیشہ کیلئے حرام کردیا گیا ،مسلمان کی صفت
امتیازی ہی یہ بتلائی گئی کہ مسلمان و مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر
ایک کو تکلیف و اذیت پہنچے تو دوسرے اس کا الم محسوس کریں۔وہ اسلام جس نے
کسی مؤمن کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف پہنچانے سے منع کیا اچنبھے کی بات تو یہ
ہے کہ وہی اسلام جس کا کلمہ ہی امن و سلامتی کے مادہ سے نکلا ہے اسی کے
پیروکار فروعی اختلافات، معمولی نزعوں ،ذاتی منفعتوں اور مصلحتوں ،مادہ
پرستی و جاہ طلبی کی حرص و ہوس میں اسقدر نابینا ہوچکے ہیں کہ اب وحشی
جانور بھی ان سے حیا محسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ہی مسلمان کا خون ِ ناحق
پانی کی طرح بہا رہاہے جس پر وہ بھیڑیا صفت انسان ایک لمحہ بھر کیلئے بھی
پشیمان نہیں ہوتابلکہ فخر و اعزاز سمجھتاہے کہ اعلان کرے کہ میں نے یہ غارت
گری کا بازار گرم کیا ہے۔
ہائے افسوس ایسے مسلمان اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ کے سامنے یوم حساب کوکیا
جواب دیں گے کہ جس دین نے امن و سلامتی کا پھریرالہرایا اسی کے پیروکاروں
نے دنیا کو غارت کردیا ،اس میں دہشت و خوف کے علم کو بلند کرنے کی ہرممکن
سعی کی جب کہ نبی اکرمؐ تو تمام مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔آپ
نے اپنے سگے چچا کے قاتل کو بھی معاف کردیا، آپؐ نے تو مکہ کے ان مشرکوں
اور کافروں کو بھی معافی دی جنہوں نے 40برس کے لیل و نہار میں امن و صدق کی
صفت کا مظہر پانے کے باوجود صرف کلمہ توحید کی دعوت پر 13برس تک آپ پر
تکالیف کے پہاڑ ڈھائے،آپ ؐ نے تو کافر کی بیٹی کو عزت بخشی اپنی ردا اطہر
سے،مگر آج خود کو خاتم النبیین کا امتی کہلانے والا ہی انسانو ں کا خون
بغیر کسی جرم و ذنب کے بہا رہاہے نہ تو وہ مسجد کو چوڑتا ہے نہ ہی قوم کے
محافظوں کو، نہ اس دہشت گردی سے مدارس محفوظ ہیں نہ ہی سکول و کالجز اور
یونیورسٹیاں،دربارو امام بارگاہ ،چرچ و مندر سمیت مسلم و غیر مسلموں کے
عبادت خانوں کو بھی نشانہ اور ہدف بنایا جارہاہے جب کہ یہ مقامات تو صرف
امن و محبت کا حقیقی مظہر ہوتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے فلسطین کو فتح
کرنے کے بعد وہاں کے عیسائیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کرکے مسجد اس لئے
تعمیر نہیں کی کہ یہ قیامت تک بری مثا ل قائم ہوجائے گی اور اس سے کوئی
عبادت گاہ محفوظ نہیں ہوگی۔
دوسری جانب قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان
بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی حفاظت کی اور جس نے کسی ایک انسان کو
بغیر کسی گناہو ذنب کے قتل کیاتو گویا اس نے پوری انسانیت کو خاک و خون میں
لت پت کردیا۔قرآنی آیات و احادیث نبویؐ کو سامنے رکھنے کے باوجود بھی فساد
فی الرض کا مرتکب ہو تو اس سے بڑا شقی القلب انسان کوئی نہیں بلکہ وہ تو
ایسا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو بڑھ کر بھی گدھوں کی مثل ہے کہ اس پر ان کا
کوئی اثر نہیں یعنی اس پر علم کا جو وزن ہے وہ گدھوں پر بوجھ کی طرح ہے۔اور
ایسے ہی انسانوں کو قرآن کریمؐ نے جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر قرار
دیا۔الغرض موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان و اہل علم
بالعموم اور پاکستان کے مسلمان و اہل علم و دانش بالخصوص اپنے ملک میں
حقیقی اسلام کی روح کو بیدار کرنے کی سعی کریں اور حکومت و فوج اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بغیر شروط و قیود کے تعاون کریں کہ امت
مسلمہ پر لگے بدنما داغ کو بنیاد سے ہی ختم کردیا جائے جبکہ دوسری جانب
حکومت و فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہئے کہ اچھے اور برے
کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان تمام عناصر کیخلاف راست اقدام اٹھایا
جائے جو اپنی بات کو منوانے کیلئے زبان و بیان اور تقریر و تحریر یا علمی
انداز کی بجائے گالی و گولی کی زبان استعمال کرے وہ شدت پسند مذہبی ہو یا
سیاسی ،لسانی ہو یا صوبائی،لبرل ہو یا سیکولر ان تمام کیخلاف سخت ایکشن
لینا وقت کی ضرورت بن چکی ہے ورنہ شہدائے کوئٹہ، شہداء کراچی ،شہدا ء
لاہور، شہداء ڈیرہ اسماعیل خان اور شہداء لعل شہباز قلندر کا خون بدستور
مسلم علما ء و حکمران اور صحافیوں کے کندھوں پر قائم و دائم رہے گا۔اﷲ پاک
تمام شہداء پاکستان کے درجات بلند اور زخمیوں کو صحت یاب اور لواحقین کو
صبر جمیل عا کرے۔اور ملک پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے
امریکہ و بھارت، روس و اسرائیل کو باہم دستگیر بنادے۔آمین |