تحریک آزادی کے دوران اورقیام پاکستان کے بعد شعبہ صحافت
سے وابستہ افراد نے ”قلم کی حرمت“ کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیشہ ہی حق اور سچ
کا پرچم سربلند رکھا ،1963ءمیں نافذ کئے گئے پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس کے
بعد صحافیوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا، حکومت نے پریس کو پابندیوں
میں جکڑ ڈالا ،یہ وہ وقت تھا جب جابر سلطان کے سامنے کلمہ ءحق کہنا واقعی
بڑا جہاد سمجھا جاتا تھا مولانا ظفرعلی خان ،مولانا چراغ حسن حسرت ؒ،حمید
نظامیؒؒ،آغا شورش کاشمیریؒ ،نسیم حجازی ؒ سمیت بہت سے صحافی اپنے اپنے
ادوار میںاس جہاد کا ہر اول دستہ رہے یہی وجہ ہے کہ ہم ان عظیم لوگوں کی
خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے ،۔ضمیر فروشی ، قلم فروشی گویا ان کےلئے گناہ
کبیرہ رہا۔ایسے ہی بااصول و باکردار صحافیوں میں ایک نام صحافی سیّد ناصر
بُخاری ؒ کا بھی ہے۔ 26برس کا طویل عرصہ بیت گیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ گویا
یہ کل ہی کی بات ہے ۔ غریب پروری،ہمدردی،غمگساری،ملنساری،اور انکساری مرحوم
ناصر بُخاری ؒ کی ذات کا خاصا تھی ۔آپ تعلیمی میدان میں ہمیشہ اعلیٰ
نمبروںسے کامیابیاں حاصل کرتے ،ہر امتحان میں ”سکالرشپ“ لیتے ،اس وقت کے
ہندو استاد بھی آپ کی ذہانت ،قابلیت اور صلاحیتوں کے معترف تھے ،آپ کوکالج
کے زمانے میں شاعری سے بھی شغف رہا،مزاحیہ اور حزنیہ نظمیں کہا کرتے تھے
،آپ ناصر تخلص کرتے تھے اور اپنا شعری مجموعہ بھی تیار کر رکھا تھا ،لیکن
اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد شاعری کو خیرباد کہہ دیا ۔
آپ کی صحافتی زندگی آل راؤنڈر صحافی کی حیثیت سے حقائق نگاری اور اصولوں سے
عبارت تھی ، رپورٹنگ ، ایڈیٹنگ سمیت اخبار سے متعلق ہر شعبے کاآپ کو وسیع
تجربہ حاصل تھا ۔کورٹ رپورٹنگ میں انہیں بہت ہی کمال حاصل تھا۔ آپ ”خبر“کے
حوالے سے اور عملی زندگی میں ”سچ“ کی تلاش میں سرگرداں رہے ، ”سینہ گزٹ“ کو
کبھی خبرکا حصہ نہ بنایا ۔آپ کا کہنا تھا کہ ”ایف آئی آر “ اکثر و بیشتر
جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے اس لئے بلا تصدیق محض ”ایف آئی آر“ کی روشنی میں خبر
بنانے سے اجتناب کرنا چاہئے ،یہی وجہ ہے کہ جرائم کے حوالے سے آپ کی
رپورٹنگ ایک مثال کی حیثیت رکھتی تھی ،60کی دہائی میں چونکہ ٹیلی فون اور
ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان تھاجس کی وجہ سے اکثر صحافی خبرکے حصول میں
تسائل پسندی سے کام لیتے جبکہ آمد ورفت کے محدودوسائل کے باوجود آپ ایک ایک
خبر اور واقعہ کے حقائق جانے کےلئے کئی کئی میل کی پیدل مسافت طے کرتے ۔اور
اپنے قارئین کو حقیقت پر مبنی خبریں فراہم کرتے تھے ۔
آپ کو پاکستان اور آزادکشمیر کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں( بشمول خاکسار تحریک
اور مسلم کانفرنس )کی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں بطور خاص مدعو کیا جاتا
لیکن آپ نے اجلاسوںکی رازداری کو ہمیشہ برقرار رکھا اور کبھی ا س حوالے سے
اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ، اسی اصول پسندی کے باعث آپ کو زندگی میں بے
پناہ مشکلات کا سامنا رہا ،لیکن آپ نے ثابت قدمی کے ساتھ اپنا صحافتی مشن
جاری رکھا .کالج کے زمانے میں ہی آپ مختلف اخبارات و جرائد میں لکھنے لگے
تھے تاہم آپ نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے اخبار
”زمیندار“ سے کیا ،بعد میں روزنامہ ”تعمیر“ سے منسلک ہو گئے ،روزنامہ
”تعمیر“ کے ایڈیٹر صفدر ہمایوں ایک مرتبہ اخبار کی اشاعت معطل ہونے کے
باوجود آپ کی فرض شناسی ،محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے آپ کو تنخواہ دیتے
رہے ۔”تعمیر “کے بعد جب روزنامہ”کوہستان“ کا اجرا ءہوا تو آپ اس کے ساتھ
منسلک ہو گئے ،مرحوم عنایت اللہ اور ممتاز ادیب اور ناول نگار نسیم حجازی
اس اخبار کے مالک تھے ۔آپ نے روزنامہ ”کوہستان“ میں اسٹاف رپورٹر کے علاوہ
بھی کئی اہم عہدوں پر کام کیامذکورہ اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے ،آپ
نے ”کوہستان“ کے زوال تک اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی ،اپنا تمام اثاثہ
اس اخبار کوزندہ رکھنے کےلئے لگا دیا ،تاہم سازشی ٹولے نے اپنے مذموم مقاصد
کے تحت ”کوہستان“ کو اپنے انجام تک پہنچا دیا ۔”کوہستان“ کی بندش کے بعد آپ
نے ہفت روزہ ”الاخبار“ کا اجراءکیا۔لیکن اسکے بعد میڈیا میں موجود کرپشن نے
انہیں سخت پریشان و مضطرب کیا ۔ اس بارے آپ کا کہنا تھا کہ اخبار کی ترقی
کے لیے کرپشن اور لوٹ مار کا جو ماحول ہمارے صحافتی شعبے اور معاشرے میں
پروان چڑھ رہا ہے اس میں کام کرنا باضمیر انسان کے لیے انتہائی مشکل ہے ۔
اس دوران آپ روزنامہ ”نوائے وقت“ سے منسلک ہو گئے ،آپ کی صحافتی زندگی
40سالوں پر محیط ہے ۔
آپ راولپنڈی پریس کلب کے فعال رکن بھی رہے اور راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس
کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ، ”قلم کی حُرمت“کی پاسداری کی اور فرائض کی
ادائیگی کے دوران ازخود اخلاقی اقدار کاپاس کرتے رہے ،صحافتی شعبے میںآپ کی
رائے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی ،صحافت میں نئے آنے والے نوجوانوںکی حوصلہ
افزائی کرتے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ہمیشہ مددگا ر ثابت
ہوتے،یہی وجہ ہے کہ آپ کے بے شمارشاگرداس وقت اندرون و بیرون ملک اہم عہدوں
پر ملک اورملت کی خدمت کر رہے ہیں ،آپ نے ظاہری نمود و نمائش سے بے نیاز ہو
کر اپنی زندگی بسر کی ،2مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی ،کوئی دنیاوی آرزو نہ
رکھتے تھے ۔ صحافتی شعبے میں آپ نے جو راہیں آنے والی نسلوں کے لئے متعین
کیں ،وہ ہم سب کے لئے راہ ہدایت اور روشنی کا مینار ہیں ،حق اور سچ کی آواز
کو پھیلانے میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات ہیں لیکن ہمیں حوصلہ مندی کے
ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔
آج آپ کی وفات کو 26برس بیت گئے ہیں بیشک! اخلاقی معاشرتی اقدار ناپید ہو
چکی ہیں، مادہ پرستی اور نفسا نفسی کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں سبھی
سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں ،حقوق العباد کو لوگ بھول چکے ہیں ، ظلم اور
انصافی بڑھ رہی ہے ، زور آور لوگ دنیا ہی رنگینوں سے مستفید ہو رہے ہیں
لیکن ظالموں کو کہیں فلاح نہیں ہے، مشکلات کے باوجودہم اپنے والدبزرگوا
رکامشن جاری رکھے ہوئے ہیں ، عارضی مشکلات ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر
سکتیں ۔ |