حسنِ اخلاق دین اسلام کی جامع تعلیمات اور نافع ہدایات کا
خلاصہ و لب لباب ہے ،اور کمالِ ایمانی کا لازمی نتیجہ و ثمرہ ہے ، یہ وہ
وصف ہے کہ اگر وہ اخلاص و ایمان کے ساتھ ہو تو اس سے متصف ایک مسلمان ہی
نہیں بلکہ ہر انسان اپنے خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دل عزیزی،بلکہ
دونوں جہاں کی دائمی کامیابی حاصل کر سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث
میں جابجا ایمان و اعمال کے بعد اخلاق کی ترغیب اورتلقین و تاکید آئی ہے ،
ایک مقام پر فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی(الأعلیٰ )کامیاب اور
بامرا د ہو گیا وہ شخص جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔اپنے اخلاق درست کر لیے ،
یعنی جو حسن اخلاق سے متصف ہو گیا ۔اور حدیث مذکور میں گویا اس مضمون کو
یوں بیان فرمایا:اِنَّ مِنْ خِیَا رِ کُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلاَقاًبلا شبہ
تم میں سب سے بہترین شخصوں میں سے خالق ومخلوق کے نزدیک (دارین میں )وہی ہے
جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، جو حسن اخلاق سے متصف ہو ۔ اس لیے اخلاق کی
ترغیب دیتے ہوئے قرآن نے ایک اور مقام پر فرمایا:وََلاَتَنْسَوُا الْفَضْلَ
بَیْنَکُمْ( البقرۃ)تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ
کرو، اس اخلاقی درس کو ہرگز نہ بھولو،ہر جگہ اورہروقت اسے یاد رکھو۔
اخلاق کی حقیقت : حسن اخلاق کی حقیقت میں علماء نے فرمایا کہ اخلاقِ مصطفوی
کا نام حسن اخلاق ہے ، دوسرے لفظوں میں قرآن و حدیث میں جن بھلائیوں کاحکم
دیاگیا ہے انہیں اختیار کرنااور جن برائیوں سے منع کیاگیا ہے ان سے اجتناب
کرنے کا نام حسن اخلاق ہے ، اور حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ نے کتاب و سنت کی
روشنی میں حسن اخلاق کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: بَسْطُ
اَلْوَجْہِ، وَبَذْلُ المَعْرُوْفِ، وَکَفُّ الأَذٰی(مفتاح الأسرار شرحِ
مشکوٰۃ الاٰثار)یعنی تین چیزوں کا نام اخلاق ہے :(1)ملاقات کے وقت دوست
ہویا دشمن، اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک سے کشادہ روئی،خندہ پیشانی اور خوش
دلی سے پیش آنا ۔(2)بخشش اور سخاوت کرنا۔( 3 )ایذا رسانی سے باز رہے ۔
حسنِ اخلاق کے حیرت انگیز واقعات : اس سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا۔حضرت
مولانا احمد علی لاہوریؒ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین
احمد مدنی ؒ جب آخری حج سے تشریف لارہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرفِ زیارت
کے لیے گئے ،اس وقت حضرت کے متوسلین میں سے ایک شخص محمد عارف جھنگ سے
دیوبند تک ساتھ گئے ،ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا،
جس کو قضاءِ حاجت کے لیے جانا تھا،لیکن جا کر الٹے پاؤں بادلِ ناخواستہ
واپس آیا،حضرت مدنی رحمۃ اﷲ علیہ سمجھ گئے ، فورا ً لوٹا لے کر پاخانہ گئے
،اور اچھی طرح اسے صاف کر کے واپس آگئے،پھر اس ہندو دوست سے فرمانے لگے
:’’آپ قضاءِ حاجت کے لیے جانا چاہتے تھے تو جائیے !بیت الخلاء بالکل صاف ہے
قصہ مختصر وہ اٹھا اور جاکر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا،بہت متأثر
ہوااور قضاءِ حاجت کے بعد بھر پور عقیدت سے عرض کرنے لگا: یہ حضور کی بندہ
نوازی ہے ، جو سمجھ سے باہر ہے اس واقعہ کو دیکھ کر ٹرین میں سوار خواجہ
نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھاکہ یہ کھدر پوش کون ہے ؟
جواب ملاکہ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہیں تو خوا جہ صاحب فوراً حضرت مدنیؒ
سے لپٹ گئے اور رونے لگے ، حضرت مدنی ؒ نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو
کہا:سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دیے اور برابھلا کہا،آج
آپ کے اعلیٰ کرداراور اخلاق کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید مر کرسیدھا
جہنم میں جاتا۔ اس پر حضرت مدنی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا:میرے بھائی!میں نے
تو حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کیا ہے ،اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور
صلی اﷲ علیہ و سلم کے یہاں ایک یہودی مہمان نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے
بستر مبارک پر رات کھا کر پاخانہ کر دیااور صبح اٹھ کر جلدی چلا گیا،اور
اپنی تلوار وہیں بھول گیا،جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو کیا دیکھتا
ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم بنفس نفیس اپنے دستِ مبارک سے بستر دھو رہے
ہیں، حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے اِن اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر وہ یہودی
مسلمان ہو گیا۔(ماہنامہ الرشید،کتابوں کی درسگاہ میں )اس لیے عاجز کا خیالِ
ناقص یہ ہے کہ حسنِ اخلاق دعوتی میدان میں نہایت ہی مؤثر پیغام رکھتا ہے ،
اس کی حیثیت ایک سائلینٹ میسیج (خاموش پیغام)کی ہے ،آج ہم مسلمان اسلام کی
تعلیم و تاکید کے مطابق حسنِ اخلاق اختیار کر لیں تو یقینا غیر مسلم ہمارے
اخلاق کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیں،اس لیے کہ جو قوم ہر کنکر کو شنکر مان
کر اس کے سامنے جھکتی ہے وہ حسنِ اخلاق کے سامنے کیوں نہ جھکے گی ؟وہ حسنِ
اخلاق سے کیسے متأثر نہ ہوگی ؟لہٰذا ضرورت ہے ایمان کے بعد اخلاص کے ساتھ
اخلاق سے پیش آنے کی۔
حسنِ اخلاق پر اخروی انعامات :حدیث میں مروی ہے کہ قیامت کے دن قائم اللیل
اور صائم النہار یعنی دن میں روزہ رکھنے والا اور رات بھر نمازیں پڑھنے
والا اپنے اس عمل سے جو مرتبہ اور مقام پائے گا خلیق (حسنِ اخلاق والے )کو
وہی مرتبہ اور درجہ حسنِ اخلاق کی بدولت حاصل ہوگا:عَنْ عَائِشَۃؓ قَالَتْ:
’’سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ: اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْرِکُ
بِحُسْنِ خُلُقِہِ دَرَجَۃَ قَائِمِ اللَّیْلِ وَصَائِمِ
النَّھَارِ(أبوداود،مشکوٰۃ) مومن اچھے اخلاق کی وجہ سے رات کو قیام کرنے
اور دن کو روزہ رکھنے والے کا درجہ پالیتاہے ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ حسنِ
اخلاق سے متصف ہونے والے کے لیے جنت کے نہایت اعلیٰ درجہ میں ایک بہترین
محل بنایا جائے گا ۔وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہا بُنِیَ لَہا فِیْ أَعْلاَھَا(
مشکوٰۃ)جس نے اپنے اخلاق کو درست کرلیا اس کے لیے جنت کے بالائی حصہ میں
گھر بنایاجائے گا،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جنت حسنِ
اخلاق والوں کی سوسائٹی ہے ، اور وہاں ان کا خوب اکرام ہوگا،جیساکہ منقول
ہے کہ ام المومنین سیدہ ام ِسلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رحمتِ
عالم صلی اﷲ علیہ و سلم سے ایک عجیب و غریب سوال کیاکہ حضور! کسی عورت کے
یکے بعد دیگرے ایک سے زائد شوہر ہو ں، اور وہ سب کے سب یکے بعد دیگرے
انتقال کر جائیں، تو یہ عورت جنت میں کس شوہر کے ساتھ ہوگی ؟ فرمایا :یا تو
آخری شوہر کے ساتھ ہوگی، یاپھراسے اختیار دیا جائے گا کہ ان میں جسے چاہے
پسند کر لے ،یا ان میں جس کے اخلاق اچھے ہوں گے اسی کے ساتھ ہوگی، وہ کہے
گی: الٰہی! اس کے اخلاق میرے ساتھ بہت اچھے رہے ، لہٰذا میں اس کے ساتھ
رہوں گی(ابن کثیر)
حسنِ اخلاق کو اختیار کر نا دین و دانش کا تقاضا ہے :قرآن وحدیث کے ان
حقائق سے معلوم ہواکہ جس خوش نصیب کو ایمان و اخلاق کی دولت نصیب ہوگی اسے
یقیناًدونوں جہاں میں مقبولیت اور عزت نصیب ہوگی،اور جو اس سے محروم رہا وہ
دونوں جہاں کی خیر سے محروم رہے گا۔العیاذباﷲ العظیم۔ضرورت ہے کہ ہم حسن
اخلاق سے متصف ہوجائیں، اس کے لیے بزرگوں سے صحیح تعلق قائم کریں، اور اس
طرح اپنے اخلاق کی اصلاح کرکے اپنے دل کو روشن کر لیں، ایک بزرگ نے فرمایا
:روشن دل وہ ہے جس میں خَلْق( مخلوق کی محبت)نہ ہو،اور سیاہ دل وہ ہے جس
میں خُلُق (اخلاق)نہ ہو۔
غرض خوش اخلاقی دینداری ہے تو بداخلاقی بے دینی ہے ، جو نیکی کو اس طرح
خراب کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو،اور اچھے اخلاق بدی کو اس طرح پگھلا دیتے
ہیں جیسے پانی نمک کو،لہٰذا بد اخلاقی سے اجتناب کرنا اور حسنِ اخلاق کو
اختیار کرنا عقل و نقل اور دین و دانش کا تقاضا ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں حسنِ
اخلاق سے متصف فرمائے (آمین )
|