اسلام ایک آفاقی اور ہمہ جہت مذہب ہے جو کوئی
موروثی مذہب نہیں جو صرف مسلمانوں کے لیے ہو ،بلکہ کرۂ ارض پر بسنے والی
تمام انسانیت کے لیے ہے۔ یہ ایک اعتدال پسند مذہب اور افراط و تفریط سے
یکسر خالی ہے، جو اپنے پیروکاروں کو بھی اعتدال پسندی ، باہمی رواداری اور
امن و آشتی کی دعوت دیتا ہے۔یہ قتل و غارت گیری ،فساد و خون ریزی ،تشدد و
دہشت گردی،اور تعصب و عدم رواداری جیسے کاموں سے بچنے کی ،رکنے کی اور سختی
کے ساتھ اس کے انسداد کی تعلیم و تاکید کرتا ہے۔
یہ بات بھی ہر ذی شعورشخص جانتا ہے کہ اسلام پوری دنیا بلکہ خاص طور پر
یورپی ممالک میں انتہائی سرعت و تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے ۔ اس کی تعلیمات
عام سے عام تر ہوتی جارہی ہے،اس کے اسرار وحقائق پورے طور پر ظاہر و عیاں
ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔قرآنی تعلیمات اور اس کی ہدایات سیکڑوں قلوب پر
اثر انداز ہورہی ہے۔چودہ سو سالوں سے مسلسل جاری اسلام کی تبلیغ و اشاعت،
ہدایات و تعلیمات اوراس کے پیغام اخوت ومحبت کے اثرات و نتائج آج عملی طور
پر ظاہر ہورہے ہیں ،اکابر و اسلاف کی دین کی خاطر دی گئی بے لوث
قربانیاں،سرفروشیاں اور جاں فشانیاں آج پورے طریقے سے اپنا اثر دیکھا رہی
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سو پرچم اسلام سرخرووبلند نظر آرہاہے اورلوگ جوق در
جوق اس کے دامن رحم و کرم میں آکر پناہ لے رہے ہیں۔ چودہ سو سالوں پر محیط
اس کے تاریخی واقعات و مشاہدات کوسامنے رکھ کر یہ پورے اعتماد و وثوق کے
ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ اسلام نے ہمیشہ امن و آشتی اخوت و محبت اور عدل و
انصاف کی تشہیر وترسیل کا فریضہ انجام دیاہے،جس نے دنیا سے ظلم و جور ،قتل
وخون اورجبرو بربریت جیسے ہولناک جرائم ومعاصی کوختم کرنے میں ایک بنیادی
اور کلیدی کردار ادا کیا ہے،جو اس کی تعلیمات سے جگ ظاہر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ متلاشیانِ حق کی تعداد میں روزافزواضافہ ہورہاہے،جسے دیکھ
کرپوری دنیاورطۂ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لگتا ہے مخالفینِ اسلام کو اس کی
بڑھتی ہوئی یہ تیزی ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے اسی لئے اس کی تبلیغ و اشاعت
پر قدغن لگانے کے لئے طرح طرح کے منصو با تی حربے استعمال کررہے ہیں،بے جا
الزامات و اتہامات لگاکر اس کی تعلیمات سے لوگوں کومتنفر کررہے ہیں ،تاکہ
کسی نہ کسی طرح اس کے بڑھتے ہوئے ان قدموں کوروکا جائے ورنہ تو آنے والے
چند سالوں میں ہر طرف اسلام ہی کاتسلط وغلبہ نظر آئے گا۔باالفاظ دیگر یوں
کہہ لیا جائے کہ اسلام کے چہار دانگ عالم میں بڑھتے ہوئے قدموں نے اسلام
مخالف طاقتوں کی راتوں کی نیند اڑادی ہیں اورانہیں انتہائی فکرمند بنادیا
ہے۔اسی لیے انہوں نے اسلام کو پے درپے بدنام کرنے کے لیے کئی ایک منصوبے
بنارکھے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا حملہ اسلام کو دہشت گرد اورانتہا پسند ثابت کرنا ہے جس کے
لئے وہ انتہائی مستعد و سرگرم عمل ہیں ۔مزید اس کے لیے وہ قرآن عظیم کی
آیات وسور اور احادیث نبوی ﷺ کی غلط تشریح و تعبیر کرکے پوری نیا کے سامنے
اس کے وقار و تقدس کو پامال کرکے دنیاکو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام
سراسر دہشت گردی،عدم رواداری اور ناحق خون ریزی کی ہدایت وتعلیم دیتا ہے۔اس
طرح کے نت نئے پروپیگنڈے بناکر ہر آئے دن اسلام کو بدنام کرنے اور اس کے
تابناک چہرے کو داغدار کرنے کی گہری سازش و کوشش میں جٹے ہوئے ہیں ۔
یہ بات بھی کسی پر مخفی نہیں ہے کہ آج کے موجودہ حالات بد سے بدتر ہوچکے
ہیں ،ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی ہے،کشت و خون ریزی ،قتل و غارت گیری اور
دہشت گردی کا دور دورہ ہے،دہشت گردی،انتہا پسندی اور عدم رواداری جیسے
واقعات ہر روزوقوع پذیر ہورہے ہیں ۔
صبح اخبار اٹھاؤ تو جلی سرخیوں میں قتل و خون کی وارداتوں کی ہولناک
تفصیلات ملتی ہیں۔کس قدر سنگین صورت حال پیدا ہوچکی ہے، جس نے
ملی،سیاسی،اقتصادی،معاشرتی اور تعلیمی زندگی کو انتہائی مفلوج و متأثر کرکے
رکھ دیا ہے۔جگہ جگہ لوگ ہر آئے دن بموں،رائفلوں اور گولیوں کا نشانہ بنا ئے
جارہے ہیں۔اور اس کے پس پردہ اسلام کو پیش کرکے اسے موردِ الزام ٹھرایا جا
رہا ہے ،اس کی مقدس تعلیمات سے صرفِ نظر کرکے مسلمانوں کودہشت گردانہ جرائم
ومعاصی کا مرتکب ٹھرایا جارہاہے۔
اسی طرح اگرموجودہ حالات پر ایک طائرانہ نظرڈالی جائے تو کچھ بنام مسلمان
تنظیمیں اپنے دہشت ناک چہروں پر سیاہ نقاب ڈالے ہوئے نمودارہوتے دیکھائی
دیتی ہیں جنہوں نے قرآن و حدیث کی غلط تشریحات و تعبیرات کرکے اسلام
کومسلسل بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا،جنہیں اسلام مخالف
حکومتوں کی درپردہ پشت و پناہی ،حمایت و سرپرستی اور مکمل مالی و عسکری
تعاون حاصل ہے۔
اس تناظر میں اگر بات کی جائے ان دہشت گرد عناصر کی جنہوں نے اسلام کو کئی
ایک مسائل سے دوچار کر رکھاہے تو ان میں داعش( الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق
والشام) ،القاعدہ،بوکوحرام ،الشباب اورطالبان جیسی انتہا پسند ،انسانیت
دشمن اور دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں ،جن کابنیادی مقصد ایک طرف اسلام کے
چہرے کو مسخ کرنا ہے تو دوسری اور عالم اسلام میں مذہبی،مسلکی اور فرقہ
وارانہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا ہے ۔یہ انتہا پسند تنظیمیں ،تحریکیں اور آؤٹ
فٹس منصوبہ بند طریقے سے اسلام کے نام پربے قصور و بے گناہ لوگوں کو کشت و
خوں کے گھاٹ اتارکر اور جابجا بمباری کرکے اس کے تقدس کو پامال کرناچاہتے
ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری مسٹر بانکی
مون،ہندوستان کی وزیر خارجہ سوشما سوراج ،وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ساتھ
ساتھ مسٹر مودی کے اس سلسلے میں کئی ایک بیانات آچکے ہیں جو صریح طور پر یہ
بتاتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔لہذا کسی بھی مذہب کو
دہشت گردی سے جوڑناغیر مناسب وناموزوں ہے۔لیکن باوجود اس کے ہم دیکھ رہے
ہیں کہ ملک کی بدنامِ زمانہ پریس اور الیکٹرانک میڈیا حقائق سے صرفِ نظر
کرتے ہوئے اسلام ومسلمین کو اس سے جوڑنے کی نارواں سعی وکوشش کررہی ہے۔اس
کا صاف مطلب یہی ہے کہ اسلام کو عالمی سطح پر اتنا بدنام کردیا جائے کہ
کوئی بھی اس کے قریب جانے کی جسارت نہ کرے اور اس کے اندر اسلام کی عداوت
ونفرت گھرکر جائے۔
جہاں تک اسلام کی دہشت گردی سے تعلق کی بات ہے تو اس کا دہشت گردی سے دور
کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اگر اس کی تعلیمات کا بالاستیعاب نہیں تو چیدہ چیدہ
ہی مطالعہ کیا جائے تویہ حقیقت روز روشن کی طرح خوب واضح ہوجائے گی کہ
اسلام میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ذرہ برابر بھی تصور نہیں ہے۔قرآن و
حدیث میں تو اس طرح ناحق کسی کا خون بہانے ،زمین میں فساد مچانے والے کو
فاسد،قاتل ،جہنمی اور لعنتی قراردیا گیا ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں مختلف
مقامات پر مذکور ہے: جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فسادکے
(ناحق) قتل کردیا تو گویا اس نے (معاشرے کے ) تمام لوگوں کو قتل
کرڈالا۔(ـــالمائدۃ ،۳۲)
’’وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں
وہ ہمیشہ رہے گا۔اس پر اﷲ کا غضب اور لعنت ہے اور اﷲ نے اس کے لئے سخت عذاب
مہیا کر رکھاہے‘‘۔(سورۃ النساء،آیت۹۳)
اسی طرح اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں کسی کو
گالی دینے کو فسق سے اور قتل کرنے کو کفر سے تشبیہ دیا؛مسلمان کو گالی دینا
فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے‘‘۔(مسلم جلد اول ص58)
جب دو مسلمان آپس میں تلواریں لے کر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو تو وہ دونوں
جہنم میں جائیں گے ،صحابہ نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! ایک تو قاتل
ہے(اس لئے جہنم میں جائے گا)لیکن مقتول کا کیا قصور ؟ فرمایا اس لئے کہ اس
نے اپنے( مسلمان) بھائی کے قتل کا ارادہ کیا تھا‘‘۔(بخاری شریف،کتاب الفتن
، باب نمبر1115حدیث نمبر1962)
متذکرہ بالاآیات و احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ اسلام امن و شانتی
اوراعتدال و وسطیت کا مذہب ہے ،جس میں قتل و خون ،ظلم و تشدد اورانتہا
پسندی کی کچھ بھی گنجائش نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کا سراپا پر امن مذہب ہے جس
کو دنیا آج سے نہیں بلکہ چودہ صدیوں سے ہم آہنگی اور بھائی چارگی کابے مثال
مذہب تسلیم کرتے آرہی ہے۔لہذا تمام مسلمانوں کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ
اسلام کے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کامثبت جواب اسلام کی تعلیمات وہدایات پر
عمل کرکے دیں۔آپس میں بھائی چارگی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد ویکجہتی
پیدا کرکے دیں ۔یہی وہ چیزیں ہیں جو مخالفین اسلام کواسلام کی معنویت
وحقیقت سمجھنے پر مجبور کردے گی ۔ اور مزید یہ کہ آپس میں باہمی رواداری کو
زیادہ سے زیادہ فروغ دیں ،جو دہشت گردی اورانتہا پسندی کے انسداد خاتمے میں
معاون ثابت ہوسکے ۔ اسی طرح دہشت گردی اوردہشت گرد عناصر پرپورے طور پر
قابو پایا جاسکتا ہے ۔
(مضمون نگار عربی وانگریزی کے مترجم اوراردو کے کالم نگارہیں) |