پاک فوج نے ہر کڑے وقت میں ملک کی حفاظت کے لیے ہر ممکن
اقدام کیا ہے ۔گذشتہ چند دنوں سے جاری دہشت گردی کی نئی لہر نے ملک بھر میں
پھر سے غم و غصے کو جنم دیا ہے ۔ اس دفعہ دہشت گردوں نے سہون شریف میں حضرت
بابا لعل شہباز قلندر کے مزار کو نشانہ بنایا ہے ۔بابا لعل شہباز قلندر کے
مزار پر لوگ اپنی منتیں اور مرادیں لے آتے ہیں اور جھولیا ں بھر کر لے جاتے
ہیں ۔ اس جمعرات کو خالی جھولیاں لے کے آنے والے زائریں اپنی زندگیوں کو
بھی گنوا کر گئے ۔ خود کش بم دھماکے میں کم و بیش سو افراد لقمہ اجل بن گئے
۔اس دھماکے کی ذمہ داری داعش نامی دہشت گرد تنظیم نے لے لی ۔ یہ وہ تنظیم
ہے جس نے شام اور عراق میں بھی صحابہ کرام ؓ اور صوفیاکرام کے مزاروں پر بم
دھماکے کئے ہیں ۔ اسلام دشمن یہ دہشت گرد مسلمان کا بہروپ بنائے مسلمانوں
ہی کا قتل عام کر رہے ہیں ۔واضع رہے کہ یہ بم دھماکے کرنے والے صرف عبادت
گاہوں ، درگاہوں ، مزارات ، جلسوں ، سکولوں پر حملے کرتے ہیں کوئی جوا خانہ
، شراب خانہ ان دھماکوں کی زد میں نہیں آیا۔
اس دھماکے کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں یکے بعد دیگرے بم دھماکے ہوئے ۔ایک
ہی ہفتے میں اٹھ سے زائد دھماکے ہوئے ۔ ارض ِوطن میں گذشتہ ایک دہائی سے
جاری اس دشت گردی کی جنگ میں ان گنت افراد نے اپنی جانیں گنوائی اور نہ
جانے کتنے ہی زخمی ہو ئے۔دہشت گردی کے اس آفریت نے نہ جانے کتنے ہی گھرانوں
کو اپنی لپیٹ میں لیا ، املاک تباہ ہوئیں ۔ ان گنت فوجی ، پولیس اور
سیکیورٹی کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ اب نہ تو مساجد
محفوظ ہیں اور نہ ہی درگاہیں، نہ سکول محفوظ ہیں اور نہ ہی کوئی عمارت ۔ ان
حالات کی ذمہ دار کبھی تو سیکیورٹی ایجنسیا ں قرار دی جاتی ہیں اور کبھی
حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ان تمام باتوں سے قطع نظر اگر حالات پر
نظر دوڑائی جائے تو جو ادارہ سب سے زیادہ کام کرتا نظر آتا ہے وہ ہے پاک
فوج ۔ دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کے لیے پاک فوج کا کردار قابل ستائش ہے
۔پاک فوج کے جوانوں اور افسران نے دہشت گردی کی اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے
اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کئی کامیاب آپریشن کئے ۔ پاک فوج نے ملک
کے مختلف علاقوں خصوصا آپریشن ضرب ِ عصب اور آپریشن راہ ِ نجات جیسے کامیاب
آپریشنز نے ملک میں دہشت گردی کا زور توڑ ا ۔ ملک کے مختلف علاقوں کو ان
دہشت گردوں سے پاک کر کے ان علاقوں میں امن وا مان قائم کیا گیا ۔
دہشت گردوں کے خاتمے کی رسم کو جاری رکھتے ہوئے انٹیلی جنس کی نشاندہی پر
پاک فوج نے حال ہی میں افغانستان میں سرجیکل سٹر ائیک کرتے ہوئے افغانستان
کے سرحدی علاقے میں قائم جماعت احرار کے چار کیمپوں پر بمباری کی اور ان
کیمپوں کو تباہ کر دیا ۔ یہ کاروائی خیبر ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے باکل
مدِ مقابل افغانستان کے علاقے میں کی گئی ۔ اس کاروائی میں جماعت احرار کے
ڈپٹی چیف عادل باچا اور دس دہشت گرد مارے گئے ۔ ذرائع کے مطابق یہ کیمپ
پاکستان میں افراتفری پھیلانے اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے
افرادکا گڑ تھے ۔ حضرت بابا لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کے لیے منصوبہ
بندی بھی انھی کیمپوں میں کی گئی ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ
نے امریکی افواج کے سربراہ کو بذریعہ فون کال اس آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ
کیا ۔
دفتر کارجہ کے ترجمان محمد نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے
کو بھارت کے مسئلے سے نہیں جوڑا جا سکتا اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی موازنہ
کیا جاسکتا ہے کیونکہ افغانستان میں گذشتہ چالیس سال سے خانہ جنگی اور
انارکی کی سی صورت حال ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں دہشت گرد تنظیموں نے اپنے قدم
جما لیے ہیں ۔
پاکستان اور افغانستان دونوں ہی مسلمان ممالک ہیں دونوں ممالک میں صوفیا ء
اور قلندروں کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ان صوفیا ء اور قلندروں کے مزاروں پر
حملہ کرنے کے لیے آنے والوں کا قلع قمع افغانستان کی بھی اتنی ہی ذمہ داری
ہے جتنی کہ پاکستان کی ۔یہ گمراہ لوگ نہ صرف اٖفغانستان اور پاکستان کے
دشمن ہیں بلکہ یہ اسلام کے بھی دشمن ہیں ۔ ان مزاروں پر کم و بیش تمام
زائرین مسلمان اور ان صوفیائے کرام کے متعقدین ہوتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں
مسلمانوں کو جان سے مارنے والے ان درگاہوں کی بے حرمتی کرنے والے پاکستا ن
اور افغانستان کے عوام کے رشتوں کو کبھی ختم نہیں کر سکتے ۔ پاکستان اور
افغانستان دونوں ممالک بھائیوں کی مانند ہیں۔ کسی ایک ملک کی سرزمین کو
دوسرے اسلامی ملک میں انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دینا چاہیے ۔ اگر
قلندروں کے مزاروں پرخود کش حملے کرنے والوں کو ایک نہیں روکے گا تو دوسرے
کو روکنا پڑے گا ۔ چاہے کوئی کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے کسی کو مسلمانوں کے
خون کی ہولی نہیں کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی خصوصا اس وقت جب ان
اسلام دشمنوں کی سرکوبی کرنا ممکن بھی ہو ۔ افغانستا ن کو بھی کسی کو اپنی
سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دینا چاہیے ۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی
ڈھال بننا چاہیے کیونکہ اگر مسلمان ملک ہی ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں
گے تو دوسری اقوام انھیں مزید کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کریں گی ۔پاک
فوج کے اس اقدام کو وسیع صورت حال میں دیکھنا چاہیے ۔یہ افغانستان یا
پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ مسئلہ مسلمانوں اور اسلام کا ہے ۔ اس دھماکے کا
مقصد دونوں ممالک کے مابین ایک تناؤ قائم کرنا بھی تھا ۔ پاک فوج کی جانب
سے اس آپریشن کا مقصد افغانستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی یا افغانستان کے
خلاف کاروائی نہیں تھا بلکہ اس آپریشن کا بنیادی مقصد اس ناسور کا خاتمہ
تھا جس کی وجہ سے اس قابل ِ احترام مزار پر موجود مسلمانوں کو نشانہ بنایا
گیا ۔اگر یہ آپریشن نہ کیا جاتا تو نہ جانے کتنے ہی ایسے مسلمان جو ان
مزاروں پر منتوں اور مرادوں کی تکمیل کے لیے آتے ہیں اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھتے ۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے بلا روک ٹوک مہاجرین کی صورت میں داخلے کو مکمل
روکنے کے لیے پاک افغان بارڈر(چمن اور تورخم ) کو سیل کر دیا گیا ۔پاکستان
نے افغانستا ن کو دہشت گردوں کی لسٹ فراہم کر دی ہے ۔ان دہشت گردوں کے خلاف
افغانستان کو بھی کاروائی کرنا چاہیے کیونکہ یہ صرف پاکستان کے ہی نہیں خود
افغانستان کے بھی دشمن ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو دہشت
گردی کی اس جنگ کے بارے میں مذاکرات کرکے انٹیلی جنس شئیرنگ کرنی چاہیے
کیونکہ یہ دہشت گردی کا ناسور دونوں ہی کا مشترکہ دشمن ہے ۔
پاک فوج کی بروقت کاروائی کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ عنقریب ملک سے
دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ممکن ہو جائے گا ۔ پاک فوج کی جانب سے کیا جانے
والا کامیاب سرجیکل سڑائیک اس بات کی یقین دہانی ہے کہ پاکستان کسی بھی ملک
کی زمین کو اپنے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور کسی بھی صورت
میں اس سرزمین کی حفاظت کی جائے گی ۔
|