دنیا کے تمام معاشرے وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوتے
ہیں۔پاکستان بننے کے بعد جاگیر داروں کا بڑا اثرورسوخ تھا۔مڈل کلاس جو کسی
معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔شروع میں اس کی تعداد بہت ہی کم تھی۔اب آکر
ایک بڑی مڈل کلاس ابھر چکی ہے۔یہ کلاس سندھ،پنجاب،خیبر پختونخوا اور شمالی
علاقہ جات سے لیکر کراچی اور مکران کے ساحلوں تک ایک نمایاں حیثیت سے وجود
میں آچکی ہے۔اسکی سب سے بڑی نشانی پائیدار صرفی اشیاء کی خریداری کی طرف
بڑھتا ہوا رجحان ہے۔بڑے بڑے شہروں میں ہی یہ رجحان پیدا نہیں ہوا۔بلکہ
چھوٹے ٹاؤنز میں بھی یہ تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔Consumer Durables بہت بڑی
مقدار میں خریدے جارہے ہیں۔مواصلات کی جدید ترین سہولیات سے فائدہ اٹھایا
جارہا ہے۔رسل ورسائل کے ذرائع نے نہ صرف پوری پاکستانی سوسائٹی کو ہم آہنگ
کردیا ہے۔بلکہ غیر ممالک میں بیٹھے ہوئے اپنے عزیزوں سے ہروقت رابطہ بہت
آسان ہوگیا ہے۔کیا غریب کیا امیر اس سے تمام طبقات مستفید ہورہے
ہیں۔پاکستانی مڈل کلاس زیادہ تر Jobکرتی ہے۔کچھ عرصہ پیشتر اس مڈل کلاس کا
اندازہ 7۔کروڑ لگایا گیا تھا۔اور تب پاکستان کی%40 آبادی کو اس میں شامل
کیاگیا تھا۔اندازہ لگانے والوں میں ایشیائی ترقیاتی بنک جیسے معروف ادارے
شامل تھے۔بنک کے اندازے کے مطابق بھارت کے صرف%25لوگ مڈل کلاس میں شامل
تھے۔گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان میں آنے والی یہ بڑی تبدیلی تھی۔یہ بڑی
تبدیلی اس حقیقت کے باوجود آئی کہ ریاست پاکستان اپنے باشندوں کو کئی بڑی
سماجی خدمات فراہم کرنے سے قاصر تھی۔مڈل کلاس نے ایسی سماجی خدمات کے لئے
خود ہی آگے بڑھ کر انتظامات کئے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ شعبہ تعلیم میں بڑے
بڑے ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں۔انہی اداروں کی وجہ سے پاکستانی تعلیم کا
معیار بھی کافی بہتر ہوا ہے۔یہی صور ت حال صحت کی بھی ہے۔سستے اور مہنگے
ہسپتالوں کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔دونوں شعبوں میں پبلک اور
پرائیویٹ اداروں کی وجہ سے ملک میںFair Competitionکا ماحول پیداہو چکا
ہے۔ریاست کی ایک اہم ذمہ داری جان ومال کا تحفظ ہوتا ہے۔اس ذمہ داری سے بھی
ریاست پہلوتہی کرتی رہی۔لوگوں نے خود ہی سیکیورٹی ایجنسیوں کا سسٹم بنا لیا
ہے۔پبلک اداروں کے ساتھ ساتھ یہ پرائیویٹ ایجنسیاں بھی بڑی خدمت سرانجام دے
رہی ہیں۔پرائیویٹ پولیس کے تصورکو لوگ بہت عرصہ پہلے ماننے کے لئے تیار
نہیں تھے۔اب ہم اپنے چاروں اطراف صبح سے شام تک ایسے ادارے معاشرے کی خدمت
کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔مڈل کلاس نے ابھرکر اپنے آپ کو منوایا ہے۔کیا اس طرح
کی کلاس کے ابھرنے سے انہیں سیاسی قیادت بھی ملنے کا امکان ہے؟۔ابھی تک
ایسی صورت حال نہ ہے۔اگرووٹروں پر سرمایہ داروں،جاگیر داروں،بیوروکریٹس اور
برادری ازم کے اثرات نہ ہوں تو لوگ آزادانہ ووٹ دے سکتے ہیں۔پنجاب میں تو
دیکھا جاتا ہے کہ پڑھی لکھی خواتین اکثر اوقات اپنے مردوں سے آزاد ہو کر
ووٹ کا استعمال کرتی ہیں۔جب ووٹرز طاقتور اور ماثر گروہوں سے آزاد ہونگے تو
ملک میں جمہوری سسٹم میں بھی بہتری آئیگی۔ہماری مڈل کلاس میں اب چھوٹے
سرمایہ دار بھی پیداہوچکے ہیں۔جو عوام کے لئے ذریعہ روزگار بن رہے ہیں۔ہم
مڈل کلاس کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ہماری مڈل کلاس Matureنہیں ہوئی۔اس
لئے جمہوریت میں بھی استحکام نہیں آیا۔مڈل کلاس کے ابھرنے کو ہم ایک بڑی
ساختی تبدیلی کہیں گے۔پاکستانی معاشرے میں دوسری بڑی تبدیلی دیہاتیوں کا
شہری بن جانا ہے۔دیہاتوں نے اب اپنی پرانی شکل تبدیل کرلی ہے۔شہروں اور
دیہاتوں میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔اب ہر ضلع میں بڑے شہر،چھوٹے
ٹاؤنز اور حسیں بستیاں بن چکی ہیں۔شہروں اور دیہاتوں میں رہتے والے اب کئی
طرح کے رشتوں میں بندھ چکے ہیں۔سیاسی،معاشی اور ثقافتی روابط میں اب اضافہ
ہوا ہے۔محقق محمد قدیر کے مطابق اب56.5فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں شہری
ہے۔سیالکوٹ سے ملتان تک شہرہی شہر ہیں۔ایسے ہی گجرات سے لاہور اور گجرات سے
ملتان پورا علاقہ شہرہی لگتا ہے۔چھوٹے ٹاؤنز اور دیہاتوں میں بھی شہری کلچر
کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔اگر کسی دیہات میںWI-FIلگا ہوا ہے تو وہاں شہری
کلچر تو آگیا۔پشاور کے ارد گرد بھی چھوٹے چھوٹے شہر ہی ہیں۔حتیٰ کہ پشاور
سے سوات تک رہائشوں کو ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ایسے ہی سندھ میں کراچی
سے حیدر آباد تک کا ماحول شہری ہی نظر آتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب دیہاتی
اقلیت میں ہیں۔اب ملک پاکستان کے لئے دیہاتی کا لفظ استعمال کرنا درست نہ
ہے۔بعض T.Vپر بیٹھے ہوئے لوگ اب بھی پاکستان کو%70 دیہی کہتے رہتے ہیں۔یہ
باتیں مشاہدہ اور مطالعہ نہ کرنے والے لوگوں کی ہیں۔لوگوں نے50سال پہلے
اپنے سکولوں میں جو باتیں پڑھی تھیں۔ان کے ذہنوں میں ابھی تک وہی ہیں۔حقیقت
یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ70سالوں میں دیہی اور شہری کی تقسیم میں ساختی
تبدیلی آچکی ہے۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ رقبہ کے لہاظ سے سب سے بڑے صوبے
میں ابھی بھی دوردراز دیہات بہت زیادہ ہیں۔اور دیہی آبادی بھی کافی ہے لیکن
تبدیلی کا رجحان تو وہاں بھی موجود ہے۔چھوٹے سرمایہ دار اور تاجروں کے
اثرات بھی دیہاتی علاقوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔مڈل مین کی ایک طاقتور کلاس
بھی دیہاتوں میں ابھر چکی ہے۔پاکستان کو ہم اب ایسا ملک کہہ سکتے ہیں جہاں
شہری لوگوں کا غلبہ ہے۔دیہی پاکستان کم ہورہا ہے۔فیوڈلزم کی اہمیت اور
اثرات اب وہ نہیں ہیں۔جیسے70کی دہائی کے شروع میں تھے۔سندھ کے کچھ اضلاع
میں البتہ اب بھی جاگیر داروں کے اثرات شدت سے محسوس ہوتے ہیں۔اندرون سندھ
کے عوام اپنے آپ کو شاید تبدیل کرنے کے لئے مناسب جدوجہد نہیں کررہے۔ہر
تبدیلی میں مڈل کلاس کا رول نتیجہ خیز ہوتا ہے۔اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ
پاکستان پر شہری مڈل کلاس کا غلبہ ہے۔یہاں معاشی،سیاسی،معاشرتی اور ثقافتی
رجحان شہری ہے۔شہروں میں جدیدیت محسوس ہورہی ہے۔ان دونوں بڑی تبدیلیوں کے
باوجود پاکستانی معاشرہ کوترقی پسند نہیں کہاجاسکتا۔ابھی بھی بڑی آبادی
ایسی ہے جو اپنے مسائل کے حل کے لئے عقل وفکر کا استعمال بہت کم کرتی
ہے۔رسم وروایات،ٹونے ٹوٹکے،جھوٹے پیروں اور عاملوں کے شکنجے ابھی بھی بہت
مضبوط ہیں۔پاکستانی معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی دوسرے ممالک میں مقیم
پاکستانیوں کی وجہ سے ہے۔گزشتہ50اور 60کی دہائیوں میں بھی لوگ کافی برطانیہ
اور امریکہ گئے۔لیکن اس شعبہ میںBoom ۔70۔کی دہائی کے وسط سے آیا۔ ذوالفقار
علی بھٹو نے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے پاکستانی کارکنوں کے لئے معاہدے
کئے۔تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ لاکھوں لوگ باہر گئے۔دنیا بھرمیں
پھیلے ہوئے ان لاکھوں پاکستانیوں نے پاکستان کو بہت کچھ دیا۔اب یہی
پاکستانی سالانہ20۔ارب ڈالر ترسیلات زر کے ذریعے ارسال کرتے ہیں۔اب جبکہ
پاکستان کی برآمدات 25۔ارب ڈالرسے کم ہوکر 19۔ارب ڈالر تک آگئی ہیں۔ترسیلات
زر خسارہ پوراکررہی ہیں۔دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے زر مبادلہ کے
ذخائر میں ایک بڑا رول اداکیا ہے۔آپ تصور کریں اگریہ لوگ رقومات ارسال نہ
کریں تو پاکستانی معیشت مکمل طورپر خسارے کا سودا بن جاتی۔تارکین وطن کی
وجہ سے پاکستانی معاشرے میں تبدیلی ہرطرف دیکھی جاسکتی ہے۔آخری اعدادوشمار
کے مطابق85۔لاکھ پاکستانی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔U.N.Oکے مطابق کسی
ایک ملک کے لہاظ سے یہ چھٹی بڑی تعداد ہے۔سعودی عرب،متحدہ عرب
امارات،برطانیہ اور متحدہ امریکہ میں سب سے زیادہ پاکستانی محنت کرکے
پاکستان کو زرمبادلہ روانہ کررہے ہیں۔صرف اکیلے سعودی عرب میں22۔لاکھ
پاکستانی ہیں۔تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ دونوں طرح کے پاکستانیوں نے
دنیا میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔2008ء میں ان کے مسائل کو دیکھنے کے لئے
مرکز میں علیحدہ وزارت قائم کردی گئی تھی۔دوسرے ممالک میں کام کرنے والے
پاکستانیوں کے لئے فاؤنڈیشن بھی بن گئی ہے۔اور یہ24سکولز چلارہی ہے۔اتنی
بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے باہر جانے سے پاکستانی معاشرہ میں بڑی ساختی
تبدیلی آئی ہے۔اسکی وجہ سے غربت بہت کم ہوئی ہے۔روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔ان
پاکستانیوں نے اپنے اپنے گاؤں اور ٹاؤنز خوبصورت گھر اور بستیاں بنائی
ہیں۔انکے بچوں نے اچھے معیاری سکولوں سے تعلیم حاصل کرکے شرح خواندگی میں
اضافہ کیا ہے۔اگر یہ85۔لاکھ پاکستانی باہر نہ جاتے تووہاں پاکستانی تہذیب
یا کلچر کا تعارف بھی نہ ہوتا۔اب تو برطانیہ ،کینڈا اور امریکہ سے لیکر
آسٹریلیا تک مشاعرے اور ادبی نشستیں منعقد ہوتی ہیں۔ہمارے لئے یہ تمام لوگ
معاشی اور ثقافتی لہاظ سے اثاثہ ہیں۔ابھرتی ہوئی مڈل کلاس،ابھرتی ہوئی شہری
آبادی اور ابھرتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی تارکین وطن کی تعداد نے پاکستانی
معاشرے میں ساختی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ |