گاڑی موٹروے پر اپنی حد مجاز رفتار سے حرکت
کر رہی تھی لیکن اس میں سوار ایک 23-24 سال کاجوان جس کے بال فوجیوں کی طرح
کٹے ہوئے تھے مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا ماہ رمضان شروع ہونے میں
ایک ہفتہ باقی تھا، گاڑی میں سوار مسافر ماہ رمضان کی باتیں کررہے تھے لیکن
وہ ان کی باتیں سنی ان سنی کر رہا تھا ۔سڑک کے دونوں طرف سر سبز درختوں نے
رات کی تاریکی میں کچھ اور ہی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر اضطراب تھا
،کبھی کبھی گاڑی میں سوارمسافروں کو غور سے دیکھتا اور ہاتھ میں تھامی ٹارچ
کو اور ہی مضبوطی سے تھام لیتا اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیتا
۔اس بار اس نے اپنے ہاتھوں کو داڑھی سے متصل قلموں پر رکھا جو بظاہر اس کی
داڑھی سے بڑی تھیں اور شیشے سے سر لگا کر بغور دیکھنے میں پھرسے مصروف ہو
گیا۔وہ بار بار گاڑی کی رفتار کا جائزہ لیتا تھا اس کو گاڑی کی رفتار بہت
دھیمی محسوس ہو رہی تھی۔ کلر کہار کا پہاڑی سلسلہ شروع ہو چکا تھا،ہر
چندقدم کے فاصلے پرگہرے نیلےبورڈوں پر بس یہی لکھا تھا رفتارکم کریں یہ
بورڈ اس کے غم و غصے میں اضافہ کر رہے تھےشاید وہ چاہتا تھا گاڑی تخت
سلیمان کی طرح ہوا میں پرواز کرنےلگے اورجلدی سے اسکو منزل مقصود تک پہنچا
دے ،اس پہاڑی سلسلے کوابھی آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ گاڑی نے ایک بارپھر
رفتار پکڑ لی اور تیزی سے نیچے اترنا شروع کر دیا اس نے کنڈیکٹر کو اشارے
کے انداز میں بتایا اس کوآنے والے انٹرچینج پر اترنا ہے ساتھ ہی ایک ہاتھ
میں ٹارچ اور دوسرے ہاتھ میں ایک بیگ لیے وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور دروازے
کی طرف چل پڑا وہ گاڑی کی راہ رو سے بڑی احتیاط سے گزر رہا تھا کیونکہ کے
اکثر مسافر سو رہے تھے اور وہ کسی کے لیے اذیت کاباعث نہیں بننا چاہتا
تھا۔گاڑی انٹرچینج سےباہر آگئی ،اس کو ایک تاریک و ویران سڑک پر اتار دیا
گیا ۔اس نے ٹارچ جلائی اور اپنے اردگرد کابغور جائزہ لینے لگا،لیکن کوئی
دیکھائی نہ دیا اگر موٹروے سے گزرنے والی گاڑیوں کی شوں شاں نہ ہوتی تو
شاید وہ گمان کر تاکہ اس کو کسی ایسے سیارے پر اتار دیا گیا ہے جہاں انسان
نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔سڑک کے دوسرے کنارے ایک قطار میں لکڑی کے
کچھ ڈھابے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی کسی پرانی ٹرین کے نظارے سے کم نہ تھے۔دن
میں یہی ڈھابےاور چند دوکانیں ایک میلے کاسما دیتے ،مسافروں کی پذیرائی
کرتے ہیں ،گاڑیوں بسوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے رات کر آخری بس کی آمد سے
پہلے ہی یہ میلہ اختتام پذیر ہو جاتا ہے ،پھر ہر اگلی صبح یہ میلہ دوبارہ
جمنے لگتا ہے ،زیارہ تر ڈھابے والے آس پاس کے دیہاتوں سے آتے ہیں۔آج بھی
اکثر دیہات میں کسان سورج نکلنے سے پہلے ہی اپنے کھیت کھلیان میں پہنچ جاتے
ہیں اور اپنی روزی تلاش کرتے ہیں،آج بھی وہاں فارسی کی ضرب المثل " کسی کہ
خوابہ حصّہ اش آبہ" کار فرما ہے ۔جو انسان صبح سویرے اٹھ کر اپنے رزق کے
لیے نہیں نکلتا اس کے رزق میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ایک ایرانی بوڑھے سے یہ
ضرب المثل سنی تو پتہ چلا یہ بنی اسرائیل کے زمانے سے چلی آ رہی ہے ۔صحرائے
سینا میں جب ان کے لئے من وسلوی نازل ہو تا تھا تو ہر شخص کو سویرے سویرے
بذات خود اپنا حصّہ وصول کرنا ہوتا تھا ورنہ پھر سارا دن پانی پر گزر ا
کرنا پڑ تا تھا۔
وہ ایک تاریک سڑک کے عین وسط میں چلنے لگا وہ ٹارچ کو بند کئے ہوئے دور
دیکھائی دینے والی روشنی کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا تھا۔لگ بھگ آدھا کلو
میڑ چلنے کے بعد وہ وہاں پہنچا۔وہ ٹرکوں کا ایک چھوٹا سا اڈا تھا جہاں
دوچار ٹرک انتہائی بے نظم کھڑے کئے گئے تھے۔ساتھ ہی ایک چوکیدار پرانی
چارپائی پر بیٹھا حقے کے کش پہ کش لگا رہا تھا ،بظاہر وہ چارپائی تھی لیکن
طول وعرض میں وہ ایک انگریزی بیڈ سے بھی بڑی تھی۔گویا وہ دن کو اجتماعی
دسترخوان اور رات کو اجتماعی بیڈ روم کا کام دیتی تھی جس کو جہاں جگہ ملتی
وہ وہیں پر سو رہتا۔اس کے قریب ہی دو ادھیڑ عمر آدمی برتن دھونے میں مصروف
تھے،وہ برتن کم دھوتے لیکن سیاسی گفتگو زیادہ کر تے تھے شاید وہ انکے
سارےدن میں مسافروں سے جمع کی گئی معلومات پر تبصرے کا وقت تھا۔ ان میں ایک
ٹرکوں والے ہوٹل کا مالک تھا جو بات بات پر اپنے ملازم کو ٹوک رہا تھا اور
دوسرا اسکا باورچی تھا۔ جوان سڑک سے سیدھا ان کی طرف چلنےلگا وہ کافی دیر
بعد کسی انسان کو دیکھ کر اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتےہوئے لمبی لمبی
سانسیں لینے لگا۔ سلام دعا کے بعد بوڑھے چوکیدار کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ
گیا۔ہوٹل کا مالک ساتھ والے گاؤں کا تھا وہ نیم گرم چائے کی پیالی جوان
کی بڑھاتے ہوئے بولا اس کا کام ختم ہو چکا ہے وہ اس کو ساتھ والے گاؤں تک
لے جاسکتا ہے ۔اس کے بعد چھ کلومیٹر کاسفر اس کو اکیلے ہی طے کرنا ہو گا۔اس
نے رات کے اس پہر دعوت غنیمت جانی اور خوشی سے ساری چائے ایک ہی گھونٹ میں
پی ڈالی اور جھٹ سے موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا۔کچھ دیر موٹر سائیکل پر
سفر کرنے کے باوجود اس کاپسینہ خشک نہ ہوا اس خیال نے کہ وہ اگلا سنسان سفر
کیسے طے کرے گا اس کے دل کے دھڑکنے کی رفتار بہت تیز کردی ایسے میں ہوٹل کے
مالک نے ایک خوشخبری سنا دی کہ وہ اس کو پیڑول پمپ تک پہنچا دے گا جہاں سے
اس کو ہوٹل کے جنریٹر کے لئے تیل خریدنا ہے گو یہ خوشخبری اس کے لئے ڈوبتے
کو تنکے کا سہارا کے مترادف تھی لیکن پھربھی اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ
چھوڑ گئی شاید یہ سوچ کرکہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ویسے بھی پیٹرول
پمپ تک اکادکا آبادی تھی مشکل بعد کاسفر تھا جہاں دور تک آبادی کا نشاں نہ
تھا۔جلدی ہی پیڑول پمپ بھی آ گیا،پمپ کا ملازم گہری نیند میں تھا کافی تک
ودو کے بعد اس کو بیدار کیا گیا وہ ایسے غصے میں کمرے سے باہر آیا جیسے اس
کے سب پسندیدہ خواب چکنا چور ہو گئے ہو ں بہرحال ہوٹل کے مالک کو دیکھتے ہی
اس کاسارا غصّہ رفو چکر ہو گیا اور اسنے اس کو پیڑول دے ہی دیا ۔
جوان سوچ رہا تھا کہ باقی رات وہی پمپ پر سو رہے اور الصبح وہاں سے پہلی
گاڑی پر اپنے گاؤں چلا جائے لیکن بے اختیار راہ چلنے لگا،پہلے کی طرح وہ
ٹارچ بند گئے سڑک کے در میان چلنے لگا وہ اس احتیاط سے چل رہا تھا کہ کوئی
اس کے قدموں کی آہٹ تک نہ سن پاتا۔ویسے تو اس روڈ پر اکثر ٹرکوں کا آنا
جانا لگا رہتا تھا کیونکہ وہاں سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر کھیوڑہ شہر واقع
ہے جس کے گردو نواح میں بہت ساری چھوٹی بڑی کوئلے کی کانیں اور معروف و
مشہور نمک کی کان ہے جہاں سے ٹرک کوئلہ یا نمک لاد کر اسی راستے سے آتے
جاتے ہیں لیکن اس رات اتفاق سے کوئی بھی ٹرک نظر نہیں آیا۔خداخداکرتے جیسے
تیسے وہ اپنے گاؤں کے مین سٹاپ پر پہنچ گیا۔اب گاؤں صرف دو کلومیٹر کے
فاصلے پر تھا،اب راستہ کچھ آشنا سا لگ رہا تھا وہ راستہ اس نے دن کی روشنی
میں بارھا عبور کیا تھا اسے اس کے نشیب وفراز ازبر تھے۔وہ ماں کو نسل در
نسل ورثے میں ملے اس فارمولے کی خوب پاسداری کر رہا تھا کہ رات کو اکیلے
چلتے پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے اگر کوئی آواز بھی دے تو رستہ چلتے رہتے
ہیں،یہ وہ فارمولا ہے جو تقریبا تمام ماؤں سے تعلق رکھتا ہے ،اب وہ گاؤں کے
بلکل قریب پہنچ گیا تھا۔لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اکثر حادثات منزل مقصود
کے دروازے پر پیش آتے ہیں ۔گاؤں کے قریب ایک پرانا ریلوے اسٹیشن ہے جہاں پر
کوئی ٹرین نہیں آتی اب اس کا شمار گاؤں کے آثار قدیمہ میں سے ہوتا ہے ۔ایسے
کتنے ہیں آثار قدیمہ ہیں جو ریلوے اور آثار قدیمہ دو نوں ہی محکموں کی
نظروں سے اوجھل ہیں۔ دن کو اب وہاں بوڑھے چرواہے گزرے دنوں کی یاد میں محفل
جماتے اور نوکاٹ کھیلتے ہیں نوکاٹ بھی عجیب کھیل ہے جس کو کھیلنے کے لئے
کسی چیز کی ضرورت نہیں ایک کنکری اٹھائی اور زمین پر چند منظم خط کھینچ
دئیے ایک نے نو کنکریاں اٹھا لینی تو دوسرے نے لکڑی کےنوچھوٹے چھوٹے ٹکڑے
اور کھیل شروع۔رات کو وہی اسٹیشن کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں رہی سہی کسر
دادیوں کی کہانیاں پوری کر دیتی ہیں اب وہ اسٹیشن گاؤں کی اچھی خاصی ڈراؤنی
جگہ مانا جاتا ہے ۔ سرکار نے نئی سڑک اس اسٹیشن سے تھوڑے فاصلے پر بنائی
تھی جس کی وجہ سے وہاں کے ویرانے میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہو گیا۔سڑک جہاں
سے ریل کی پٹری سے ٹکراتی ہے وہ مقام پھاٹک نما ہے اس جگہ کو بھی ریلوے کی
پراپرٹی اور اسٹیشن کے قرب میں ہونے کی وجہ سے وحشتناک سمجھا جاتا ہے ۔گاؤں
میں اس جگہ سے ڈرے کئی عینی شاہد موجود تھے۔جب تھکاماندہ جوان اس پھاٹک کے
قریب پہنچا تو اسکی وحشت میں انتہا کا اضافہ ہو گیا تھا اس کی وجہ وہ ڈر
تھا جو ماضی کی داستانیں چھوڑ گئی تھیں۔وہ جانتا تھا یہ اس کی آخری مشکل
منزل ہے اس کے چند منٹ بعد وہ گاؤں کی نئی آبادی میں داخل ہو جائے گا اس کا
یہ سفر اس کے عظیم کارنامہ کے طور پررقم ہو گا۔لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ
یہ نئی داستان گاؤں کی وحشت اور بڑھا دے گی اسے کیا معلوم تھا دادیوں سے
روایت ہونے والی داستانیں آج سچائي کا روپ کر اس کا راستہ روکے تھیں،یا
اتنے میں اس کے کانوں نے کسی کے چلنے کی آہٹ سنی۔ وہ سہم کر رک گیا ،خوف سے
دل سینے میں سما نہیں رہا تھا جیسے چھاتی کی پسلیوں کو مسلسل زور زور سے
گھٹگھٹا رہا ہو،آہٹ تھی کہ رفتہ رفتہ بڑھتی چلی گئی،اتنے میں ہلکی سی روشنی
دیکھائی دی جو اس کی طرف بڑھ رہی تھی لرزتے ہاتھوں سے ٹارچ جلانا بھی کتنا
مشکل ہو گیاتھا،ٹارچ جلی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،ایک خوبصورت
نوجوان لڑکی نئی نویلی دھن کا لباس زیب تن کئے ،ہونٹوں پر میچینگ لیپسٹک
اورگالوں پر لالی سجائے ،اونچی ہیل پہنے ، پر اعتماد و اطمئنان چہرے کے
ساتھ اسکے قریب آچکی تھیں ،وہ ایسے مٹک مٹک کر چل رہی تھی جیسے ہزاروں
کیمرے اس کی ایک ایک ادا کومحفوظ کر رہے ہوں،وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے
آکر رکی ۔وہ حواس باختہ کھٹرا تھا،خوف سے زبان تالو سے لپٹ گئی تھی،دوچار
مہمل صداؤں کے بعد منہ سے بے ساختہ پھسل گیا،تم کہاں جارہی ہو ؟
اس نے جواب دینے سے پہلے ہاتھ ملانا مناسب سمجھا اور لڑکوں کے سے انداز میں
ہاتھ ملایا ۔
اس نے بھی سوچے سمجھے بغیر ہاتھ دےدیا، اس نے سن رکھا تھا کہ ہوائی چیزوں
کے پیر الٹے ہوتے ہیں لیکن ہمت کہاں سے آتی۔
وہ بولی مجھے شہر جانا ہے ۔
کہنے لگا گاڑی نہیں ملے گی میں کئی کلومیٹر سے پیدل آرہا ہوں ۔
کہنے لگی مجھے تو جانا ہے ۔
بے رخی سے کہنے لگا جاؤ، لیکن شاید اس کو انداز اچھا نہیں لگا۔ہاتھ کو اور
ہی مضبوطی سے تھامے جارہی تھی ،جیسے ساتھ لے جانا چاہ رہی ہو۔
لڑکیوں کی طرح شرماتے ہوئے بڑی مشکل سے ہاتھ چھڑوایا تو معنی خیز انداز میں
مسکرانے لگی جیسے وہ اس کے اندر کا ڈر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ اس کے ڈر
سے کھیل رہی تھی۔
جوان نے اس سے جان چھڑانے میں ہی مصلحت سمجھی لیکن نجانے کیوں اس کو ایسے
محسوس ہو رہاتھا کہ وہ اس کے پیچھے آ رہی ہے مڑکردیکھا تو لڑکی کا کوئی نام
ونشان نہیں تھا پھر کیا تھا نئی آبادی تک زندگی کی تیز ترین دوڑ لگا دی۔شور
سن کرآبادی کے کچھ لوگ جاگ گئے کسی نے جلدی سے اس جوان کو تھام لیا ،اس کو
پانی پلایا گیا وہ ایسی تیزی سے پانی پی رہا تھا جیسے صدیوں سے پیاسہ ہو
۔جب سانس میں سانس آئی تو سب کو روداد سنا دی۔سب پر خوف طاری ہو گیا ،
کسی نے کہا وہ جگہ ہی ایسی ہے ۔
کسی نے کہا تم کو وہا ں سے اکیلے نہیں گزرنا چاہیے تھا۔
بہرحال اس کو باخیروعافیت اس کے گھر پہنچا دیاگیا۔لیکن اگلے ہی دن گاؤں میں
اس واقعہ پر تبصرہ ہو نے لگا،خوف و حراس کی ایک نئی لہر دوڑ نے لگی،ایسی ہی
داستانوں کا نامکمل قالین پھر سے بنا جانے لگا ،پرانے بنے قصّوں کی پھر سے
جانچ پڑتال ہونے لگی۔جوانوں کے رات گئے باہر نکلنے پر پھر سے پابندی ،بچوں
کو سلانے کیلئے نئی داستان اور نیا عنوان منظر عام پر آ چکا تھا،گاؤں میں
نجانے کیاکیا اقدام ہو گئے۔ایسے میں اس متاثر جوان کو پیر صاحب کے پاس لے
جایا گیا۔ فالفورصدقے کا حکم صادر ہو ا۔
رمضان کا چاند نظر آتے ہیں گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑنے لگی اور لوگو ں کا
موضوع بحث ہی بدل گیا، مسجدوں کی صفائی کا خصوصی اہتمام ہونے لگا،سال بھر
سے مسجد میں مقیم مکھڑیوں کی شامت آگئی انسانوں کے آنے سے گویا ان کی دنیا
ہی اجڑ گئی،گرد وغبار سے بھری صفوں کو جھاڑ کر مرتب و منظم کیا جانے
لگا،لاؤڈ سپیکروں کی مرمت کا کام زور وشور سے مکمل ہونے لگا،حفاظ و مبلغین
کی رہائش کیلئے بیٹھکیں سجنے لگیں،ماضی میں جو کام مسلمان سارا سال انجام
دیتے تھے ان سب کو ایک ہی مہینے میں انجام دینے کےلئے مسلمانوں نے کمر کس
لی ،گویا اسی مہینے میں سارا قرآن ختم پہ ختم کیا جائے گا اسی میں سارے سال
کی نمازیں پڑھ لی جائيں گی۔
حسب سابق اس سال بھی مولوی صاحب کی میزبانی کاشرف ہیڈماسٹر صاحب کو نصیب
ہوا جو عنقریب ریٹائر ہونے والے ہیں سادہ لباس پہننے کے ساتھ ساتھ ان کی سب
سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر جھوٹے بڑے کے ساتھ فورا گھل مل جاتے ہیں ،ماسٹر
صاحب نے مولوی صاحب کے حکم کے عین مطابق ان کی رہائش کا بندوبست گذشتہ
سالوں کی طرح پرانے بنگلے پر قرار دیا،دوچار شاگردوں کو بلایا گیا ، بستر
اور دو عدد چارپائیاں ان کو تھما دی گئیں کہ بنگلے کے بڑے کمرے میں منظم و
مرتب کر کے بچھا دی جائیں مہمانوں کے لئے دوچارکرسیاں صاف کر کے رکھ دی
جائیں،پانی کی ٹینکی بھر دی جائے ۔ 1992 ء سے یہ بنگلا ایک پرائیویٹ
پرائمری سکول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ،اس کے ہر کمرے میں ایک بڑا
بلیک بورڈ اور کئی قسم کے چاٹ جن پر مختلف تصاویر بنی ہیں آویزاں کئے گئے
ہیں جو زینت و آرائش کے ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت میں بھی مدد گار ثابت ہوتے
ہیں ۔
پورے گاؤں میں اب یہی ایک بنگلا ہے جو تقسیم ہند کی نشانی سمجھا جاتا ہے
۔بقول گاؤں والوں کے سالھاسال شب نشینوں سے خالی رہنے کے باعث یہاں جنوں و
بھوتوں کا بسیرا ہے ،بعض لوگوں کو تو باقاعدہ آوازیں سنائی دی ہيں ،ایک
مولوی صاحب ہی ہیں جو اس کو ایک مہینے کے لئے آباد کرتے ہیں ۔مولوی صاحب لگ
بھگ 30سال کے ہیں اور ایک سید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ،ملک سے باہر کسی
اسلامک یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ،گذشتہ کئی سال سے وہ ہر ماہ رمضان میں
تبلیغ کےلئے پاکستان تشریف لاتے ہیں ۔حسب عادت وہ بنگلے کے بڑے کمرے میں
بیٹھے تھے ،گاؤں کے کچھ بچے ان کے سامنے سکول کے بنچوں پر بیٹھے ان سے گپ
سپ میں مصروف تھے اتنے میں وہی جوان کمرے میں داخل ہوا جس کے ساتھ کچھ دن
پہلے وہ وحشتناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس نے پہلے تو جنوں وبھوتوں اور بد
روحوں کے متعلق کچھ سوال پوچھے پھراپنے ساتھ رونما ہونے ہوا قصّہ
سنایا۔مولوی صاحب نے بتایا کہ مسلمان ہونےکے ناطہ ہم جنوں اور روحوں کے
وجود سے انکار نہیں کر سکتے،خداوند متعالی نے قرآن کریم میں کئی آیات میں
جنوں کاذکر فرمایاہے ،جنوں کی آبادی ہم انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن
ہمارا ان سے آمناسامنا شاذو نادر ہی ہو تا ہے جنات اسے ہی انسانوں پر تجاوز
نہیں کرتے اسکی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے
عشق،انتقام،سحروجادو،حوادث و امراض کے ساتھ ساتھ ان کے خصوصی حریم میں
دخالت اہم ترین اسباب جن زدگی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جنات انسانوں سے ڈرتے ہیں
اور غالبا انسانوں کی آبادیوں سے دور صحراؤں ،بیابانوں ،جنگلوں اور فضاؤں
میں رہتے ہیں،بہرحال انھوں نے جنوں کی کئی اشکال و اقسام بیان فرمائی جن
میں سے کچھ واقعا خطرناک بھی ہوتے ہیں جن کاکا م انسانوں کو تنگ کرنا ہے ۔
اس جوان کاقصّہ سن کر وہ کافی دیر تک کسی گہری سوچ میں گم رہے پوری محفل پر
سکوت طاری تھا،مولوی صاحب نجانےکیا حساب و کتاب لگا رہے تھے،اک دم انھوں نے
ایک بچے سے کہا کہ وہ فلاں لڑکے کو بلا کر لائے،چند منٹ بعد وہ لڑکا بھی
پرانے بنگلے پر آگیا مولوی صاحب نے اس لڑکے سے پوچھا تم نے اس کا واقعہ سنا
ہے ،اس نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا کہ اس نے فقط اتنا سنا ہے کہ وہ کسی
چیز سے ڈر گیا تھا،انھوں نےجوان سے کہا کہ وہ اپنا قصّہ معہ تمام جزیات
دوبارہ سنائے ، جوان نے کہا وہ لڑکا جہاں ڈھول کی آواز سنتا ہے پہنچ جاتا
ہے ،گاؤں کی ہر محفل ہرشادی میں اس کو خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے اس کو
ہزاروں لوگ گیت یاد ہیں اگر اس کو تفصیل بتائی تو ہر محفل میں ذکر کرے گا
جو جگ ہنسائی کا باعث ہو گا لیکن مولوی صاحب کچھ اور ہی فکر گئے بیٹھے تھے
وہ شاید اس قصّے کا راز فاش کرنا چاہتے تھے ،آخر مولوی صاحب کے اسرار کے
آگے اس جوان کو سرتسلیم خم ہونا پڑا ۔سب حاضرین محفل بغورسن رہے تھے ،ادھر
قصّہ اپنے اختتام کو پہنچا ادھر اس نووارد لڑکے نےزور دار قہقے لگانا شروع
کردیئے ،خوف وحراس میں ڈوبی محفل میں وہ پاگلوں کی طرح لوٹ پھوٹ ہو رہا
تھا،کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، جب سب مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے
تو وہ بھی مسکرا رہے تھےجیسے وہ بھی واقعے کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں ،انھوں
نے اس لڑکے سے کہا اب کچھ دیر کے لئے قہقے لگانا بس کرو اور اندر کا قصّہ
سناؤ تا کہ یہ لوگ بھی قہقے لگائیں اور گاؤں سے یہ خوف و ڈر ختم ہو ۔اس نے
کہا اس رات اس لڑکی نے فلاں رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اس کا قد درمیانہ تھا
نصف رات کا وقت تھا اور اس کو شہر جانا تھا۔جوان ہر سوال کا جواب ہاں میں
دیتا چلا گیا۔لڑکے نے بتایا کہ اس رات بیرون ملک سے آئے گاؤں کے کچھ رنگین
مزاج لڑکوں نے ایک مخفی محفل کا اہتمام کیا تھا جو گاؤں سے باہر کسی ڈیرے
پر منعقد کی گئی تھی جس میں ایک طوائف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔جب محفل
اپنے عروج پر پہنچی تو لڑکوں کی طرح سے طوائف کو چھیڑنے کا ایک لامتناہی
سلسلہ شروع ہو گیا جس سے تنگ آکر اس موصوفہ نے فرار کی رہ لی جس کی ملاقات
سرراہ آپ سے ہو گئی،اگر آپ اس خوبرو بدوح سے ملنا چاہتے ہیں تو بندوبست
امکان پذیر ہے ۔
پھر کیا تھا محفل میں قہقوں کا ایک ایسا طویل سلسلہ شروع ہوا کہ کوئی بھی
اپنی جگہ پر ثابت نہ رہ سکا،ہمارے معاشروں میں ایسی بہت سی داستانیں ہیں جن
کو ہم نے ڈراؤنا بنایااگر ان کا پردہ فاش کیا جائے تو نجانے کتنے چہروں پر
مسکراہٹیں بگھر جائیں ۔اب جب بھی وہ جوان مولوي صاحب سے ملتا ہے تو بے
اختیار قہقے لگانا شروع ہو جاتا ہے مولوی صاحب بھی اس کی بدوح کا حال چال
پوچھ کر چھڑ دیتے ہیں ۔اب اس کو پرانے پھاٹک سے ڈر نہیں لگتا۔ |