یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے زیر
کنٹرول جموں کشمیرکے لوگ اجتماعی طور پر دوحصوں میں تقسیم ہے ایک وہ جو
سٹیٹس قیو ،جبکہ دوسرے مکمل آزادی کے حامی ہیں ۔اس پار اسلام آبادحکومت نوے
کی دہائی سے ہرسال ۵فروری کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے جس
روز پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے مختلف شہروں کے
علاوہ آزادکشمیر میں حکومتی سرپرستی میں کالجزیونیورسٹی کے علاوہ تمام
سکولز کے بچوں ،تمام لوکل اداروں کے ملازمین سے جلوس نکلوائے جاتے ہیں جن
سے حکومتی وزراء اور سرکاری آفیسرز خطاب کرتے ہیں ۔اس یکجہتی کی ایک اہم
بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جب کوئی ملک فلسطین ،مشرقی
تیمور،عراق،افغانستان یا شام کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے تو وہ
عوام ان متاثرہ ممالک کے پرچم لیکر سڑکوں پر نکلتے ہیں جب کہ اس یکجہتی میں
کشمیرکے بجائے پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور حق خودارادیت کے بجائے
کشمیربنیگا پاکستان کے نعرے گونجتے ہیں ۔اوائل نوے سے ہی اس یوم یکجہتی سے
لوگوں کو تحفظات تھے لیکن اب اس میں کافی شدت آچکی ہے جو اس بات کی دلالت
کرتا ہے کہ اس پار کے لوگوں نے گزشتہ دہایؤں میں کافی کچھ سیکھا سمجھا ہے ۔اور
لائن آف کنٹرول کے اطراف میں بسنے والے ریاستی عوام اسلام آباد کیجانب سے ۵
فروری یوم یکجہتی کشمیرکے بابت مختلف آراء رکھتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی
ہیکہ تیس کلو میٹر اورتین سو تیس سوکلومیٹر کی دوری سے اسلام آباد کی تصویر
مختلف نظر آتی ہے ۔یوں تو ۵ فروری ریاستی تاریخ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا
البتہ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق 1931میں سنٹرل جیل سرینگر میں ہونیوالے
المناک واقعے کے ایک سال بعد لاہور میں موجودچند کشمیریوں جنمیں زیادہ
تعداد طلبہ کی تھی نے ایک کشمیر کمیٹی قائم کی تھی غالب امکان ہے کہ اسمیں
علامہ محمد اقبال بھی شامل تھے ۔یہ کمیٹی وقتا فوقتا اجلاس اور ریلیاں
نکالتی رہی اوراس کمیٹی کے ممبرمولائنا مسعودی نے ریاست میں ڈوگرہ مظالم کے
خلاف احتجاج کی کال دی اور خود خانقاء معلی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا
جبکہ اس روز ہندوستان کے شہر لکھنؤ اور لاہور میں بھی مظائرے ہوئے تھے بیشک
یہ فروری 1932تھا جبکہ تاریخ کے بارے میں کنفرم نہیں ہے ۔
دختران ملت کشمیر کی سربراہ آسیہ اندرابی کے مطابق 5فروری کوئی تاریخی دن
نہیں ہے ہاں یہ پہلی بار تب بنایا گیا جب 1994میں مجھے اپنے بچوں سمیت جیل
میں ایک سال مکمل ہوا تو پاکستان نے اس دن کو یوم اطفال کے طور پر بنایا
تھا ۔محترم شبیر شاہ کہتے ہیں اس دن کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے پاکستان
حکومت نے جماعت اسلامی پاکستان کے قاضی حسین احمد کی ایما پر پہلی بار
1990میں منایا تھا ۔مسلم کانفرنس کے صدر عبدلغنی بھٹ اور مشہور کالم نگار
زید اے غلام احمد کے مطابق 1975میں’’ اندرا عبداﷲ ایکارڈ‘‘پر دستخط ہونے پر
پاکستان کے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو نے 5فروری 1975کو ہڑتال کی کال دی
تھی جو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں بہت کامیاب ہوئی اور اس روز
پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی کشمیر یوں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا
جب کہ پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد یوم یکجہتی نہیں منایا گیا ۔
چیئرمین لبریشن فرنٹ یاسین ملک کہتے ہیں کہ 1988میں لبریشن فرنٹ نے مسلح
جدوجہد شروع کی جسے اقوام عالم میں پذیرائی ملی اور بھارت نے ریاست میں آٹھ
لاکھ فوج تعینات کر دی اس دوران1990میں جب ریاست بھر میں کریک ڈاون کا آغاز
ہوا اور گلی محلوں میں قتل عام شروع کر دیا گیا تو رات دن ریاستی عوام
سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے تب پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کشمیریوں سے
یکجہتی منانے کا علان کیاتھا اورمیں تاریخ کے اس نازک دوراہے پر کسی تنازعہ
کو نہیں چھیڑنا چاہتا تب سے آج تک اہل پاکستان یہ دن مناتے ہیں ہم ان کا
شکریہ ادا کرتے ہیں ۔جب کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار لبریشن فرنٹ کے سپریم
ہیڈ قائد تحریک امان اﷲ خان (مرحوم) اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت کا ماننا
ہے کہ شملہ معائدہ میں اسلام آباد مسئلہ کشمیر سے مکمل طور پر دستبردار ہو
گیا اور اس کے بعد دوران اسیری شیخ عبداﷲ نے ایک وفد اسلام آباد بھیجا جسے
زیڈ اے بھٹو نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم شملہ معائدہ کی بدولت کشمیر کاز
کو سپورٹ نہیں کر سکتے اس لئے آپ کو بھارت سے جو مراعات ملتی ہیں وہ لے لیں
۔یوں اس وفد کی واپسی کے فوراً بعد’’اندراعبداﷲ ایکارڈ‘‘ ہوگیا جس کے فوراً
بعد شیخ عبداﷲ جیل سے ہی چیف منسٹر بن کر باہر نکلے۔ دوسری جانب شملہ
معائدے میں کشمیر سے دستبرادری کی شرمندگی کو عوام سے چھپانے کی خاطر زیڈاے
بھٹو نے کشمیر کی خاطر ہزار سال جنگ لڑنے کی بھڑک مار تے ہوئے 5فروری1975
کو یوم یکجہتی کشمیر کا علان کرتے ہوئے ہڑتال کی کال دی جو کامیاب ہوئی اور
پھر مارشل لا کے سبب یہ دن نہیں منایا گیا۔اس کے بعد مقبول بٹ کی شہادت
اورریاستی الیکشن میں مسلم متحدہ محاز کو دھاندلی سے ہرانے پر عوام میں غم
وغصہ کی لہر تھی کہ88 میں لبریشن فرنٹ نے بھارتی حکمرانی کے خلاف بندوق کا
سہارا لیا تو اس تحریک آزادی نے راتورات بین الاقوامی مقبولیت حاصل کر لی
تو اسلام آباد نے حسب روائت اپنا اصل روپ دکھایا اور تحریک پر اپنا کنٹرول
حاصل کرنے کی خاطر جہادی گروپس وادی میں داخل کرنا شروع کردیے اور ایک وقت
ایسا بھی آیا کہ لبریشن فرنٹ کو انڈین آرمی کیساتھ ساتھ جہادی گروپس کے
ساتھ بھی لڑنا پڑھتا یہی وہ وقت تھا جب قاضی حسین احمد اسلام آباد کی آنکھ
کا تارہ بنے اور ان کے کہنے پر 11فروری یوم مقبول سے پانچ روز پہلے سرکاری
طور پر یوم یکجہتی کا علان کیا ۔قاضی حسین احمد کے علان پر پہلے وزیراعلیٰ
پنجاب نواز شریف نے حمائت کی بعد ازاں بینظیر نے نوازشریف کی ضد میں وفاق
کو بھی اسمیں شامل کرلیا اور یوں ہماری قومی جدوجہد آزادی کو پاکستانی غلاف
میں لپیٹنا شروع کر دیا گیا جس کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اورہم کشمیریوں کی
قومی جدوجہد آزادی کو بڑی آسانی کے ساتھ اقوام عالم کے سامنے پاکستانی
مداخلت ثابت کر دیا اورکہا کہ یہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نہیں بلکہ
پاکستان بھارت میں دہشت گردی کو پروموٹ کررہا ہے اور اس طرح ہمارے لاکھوں
انسانوں کی شہادتوں قربانیوں پر اسلام آباد کی متعصبانہ اور توسیع پسندانہ
عزائم نے پانی پھیر دیا ہمیں ہماری منزل سے دور کر دیا اورہماری تین نسلیں
جس تنازعہ کشمیر کا ایندھن بن چکی ہیں اسے ہمارے لئے ہماری نسلوں کے لئے
مذید کٹھن وپیچیدہ بنا دیا ہے ۔ |