پنجاب میں پختونوں کے قتل عام کا خدشَہ

یوں تو پورے ملک میں خونی دھماکے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور قبائل سے لے کر کراچی تک ایک ہی قوم کو نشانہ ء تضحیک و انتقام بنایا جا رہا ہے اور وہ ہے ــ’’غریب قوم‘‘ بالخصوص اگر وہ پختون ، بلوچی یا بانیانِ پاکستان کی اولاد ہو جن کو اپنے ہی بنائے ہوئے ملک مملکت ِ خُداداد وطن عزیز پاکستان میں ’’مہاجرین ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ مہاجرین ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اپنے گھر بار کو چھوڑ کر بے سرو سامان خونی بٹوارے کے بعد کراچی سے فیصل آباد تک خیموں میں آ کر بس گئے تھے ۔ پنجاب نے پہلے مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) جو موجودہ پاکستان سے کئی لحاظ سے ترقی میں اب آگے ہیں اور جہاں پاکستان کے لیے مرنے والوں کو آئے دین پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر پنجابی اسٹبلشمنٹ کے جاگیر دار و کار خانہ دار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مشرقی پاکستان کے حالات اور آج کے پاکستان میں چنداں فرق نہیں ہے ۔ ایک مخصوص طبقہ مشرقی پاکستان سے جان چھڑانا چاہتا تھا ۔ بنگلہ زبان کے لیے فسادات تو ایک بہانہ یا چھوٹا سا محرک تھا۔ اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ پنجاب کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستانی کی آبادی اور اکثریت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ جمہوریت میں اکثریت کا سکّہ چلتا ہے ۔ پنجابی اسٹبلشمنٹ نے یہ پتہ اس ہوشیاری سے کھیلا کہ الزام ایک سندھی راہنما کے سر تھوپ دیا جائے اور جان بھی چھوٹ جائے ۔ مشرقی پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے چاروں صوبوں کی ایک زنجیر ون یونٹ (One Unit) کی شکل میں بنائی گئی اور سب مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان مشرقی پاکستان کی اکثریت کے لیے یک جان دو قالب ہو گئے ۔ پشتون اور بلوچ رہنما بھی اس جھانسے میں آ گئے ۔ لیکن جب مشرقی پاکستان میں نوے ہزارافواج کو ذلت اُٹھانی پڑی تو سندھی راہنما (زیڈاے بھٹو) کو اس گند کو صاف کرنے کے لیے چُنا گیا اور بالآخر اُسے فوج سے لڑا کر اقتدار واپس پنجابی حکمرانوں کے پاس آ گیا ۔

1971؁ء کے عظیم قومی سانحے جو پانامہ لیکس اور ڈان لیکس سے کروڑوں درجہ بد ترین سانحہ تھا پر آج تک کسی کی باز پر س نہ کی گئی ۔ جو اب نہ سوال ۔ کمیشن بھی چند مگر مچھ کے آنسو اور وہ بھی الماریوں میں بند۔ ون یونٹ کی ضرورت نہیں اور ’’مساوات کے اصول ‘‘ (Prinicple of Parity) جس پر دونوں بازؤں کو مساوی حقوق و فرائض ون یونٹ کی شکل میں حاصل تھے کی قطعی ضرورت نہ رہی اور ون یونٹ 1971؁ء کے المناک قومی زوال کے بعد توڑ دی گئی ۔ اب پنجاب کی اکثریت ہے اور باقی صوبوں کو کسی ’’مساوات کے اصول‘‘ (پرنسپل آف پیرٹی ) کی ضرورت محسوس نہیں ہے ۔ اﷲ اﷲ خیر سلاّ ۔ وطن ِ
عزیز ایک بار پھر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے جس میں فائدہ صرف پنجابی حکمرانوں کا ہے کہ ان کی ہر شے میں اکثریت ہے ۔

اس بنیادی نکتے کی وضاحت کے بعد آئیے اور دیکھیئے کہ پورے ملک میں دھماکے ہوتے رہے ہیں اور یہ 9/11 کے بعد سے امریکہ اوراس کے غاصب دوستوں کے ہاتھوں نام نہاد’’ وار آن ٹیرر‘‘ کی بدولت خون اور لاشوں کے تحفے ہیں جو اس ملک اور قوم کو روزانہ ملتے ہیں۔ مرنے والا جو بھی ہو اس کے لیے ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھ نم ناک ہوتی ہے ۔ دہشت گرد خواہ مذہبی لباس اوڑھے یا روائیتی ڈاڑھی رکھ کر قبائلی عمامہ اورپگڑی چادر پہنے ، وہ ہر صورت میں فساد اور تباہی پھیلاتا ہے اور اسے کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جب لاہور اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دھماکہ ہوتا ہے تو پورے ملک میں کوئی نہ کوئی آپریشن یا ایکشن پلان جیسے منصوبے بنتے ہیں ۔ ٹھیک ہے کہ حکومت کو کوئی نہ کوئی ایکشن لینا چاہیے اور ضرورکوئی نہ کوئی پالیسی بنانی چاہیے مگر یہ کیسی پالیسی ہے جو 2001؁ء سے لے کر آج تک سولہ سال میں نہ بن سکی نہ اس کے نتائج مفید برآمد ہوئے ؟ آخر کس سے پوچھا جائے یا کسی کا احتساب کیا جائے ؟

لاہور میں واقعی ایک خطر ناک خود کش حملہ ہوا۔ اس حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل آزردہ ہے ۔ لیکن اس دھماکے کے نتیجے میں اب پنجاب پولیس نے جو روّیہ اپنایا ہے اور پختون قوم پر جو زندگی تنگ کر کے رکھی ہے وہ تو اس دھماکے کے اثرات سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ گلی گلی کوچے کوچے اور بازاروں میں غریب پختون عوام ، دیہاڑی اور مزدوری کرنے والے بے آسرا پختون قوم کے ساتھ افغان مہاجرین کا سا سلوک شروع ہو گیا ۔ پختون اقوام کو اپنے ہی ملک میں تھانے اور انجمن تاجران کو اپنا شناختی کار ڈ دکھا کر اپنی ’’پاکستانیت ’’ کا ثبوت دینا پڑ رہا ہے۔ کیا اس کے بعد ہمیں نئے امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے کا کوئی حق ہے ؟ کیا نواز شریف پنجاب پولیس کے کہنے پر ٹرمپ کے راستے پر چل پڑے ہیں یا وہ شیخ مجیب الرحمان کا کردار ادا کر رہے ہیں ؟ اگر آج ہندوستان یا اسرائیل یا کسی بھی دوسرے پاکستان مخالف عنصر نے پنجاب میں دو تین جگہ پختون عوام کو قتل یا اغواء کرنا شروع کیا تو کیا کراچی اور کوئٹہ جیسی بدامنی سے پنجاب اور پھر پختونخواہ میں تعینات پنجاب کے افسرا ن یا کاروبار کے لیے آنے والے غریب پنجاب کے باشندوں کے تحفظ کی کوئی ضمانت دی جا سکے گی ؟ افسوس تو یہ ہے کہ اب خود پنجاب کے ہاتھوں ملک میں ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کی ساز ش ہورہی ہے ۔ کیا پنجاب اس بات پر خوش ہے کہ اس کو چین کی سی پیک کے راستے اور منصوبے سے کروڑوں ڈالر ملیں گے اور اس طرح اس کو کسی اور صوبے کی ضرورت نہیں رہے گی ؟ نواز شریف اور شہباز شریف جیسے لوگوں کو پنجاب پولیس کے مشوروں سے نکل کر عقل کے ناخن لینا چاہیے ۔ پنجاب میں جگہ جگہ پختون مزدوروں اور کاروباری لوگوں کے خلاف اشتہاربازی کو فی الفور روک کر پنجاب پولیس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ۔ یہی وہ سازشی لوگ ہیں جن کے مشوروں سے یہ ملک دولخت ہوا تھا۔ اگر ایسا نہ ہو ا تو پنجاب کے حکمران صرف پنجاب تک محدود رہ جائیں گے اور نواز شریف کو پختونوں کا قاتل کہا جائے گا ۔ واضح رہے کہ پنجاب پولیس سربراہ مشتاق سکھیرا کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ سخت متعصب اور پختون قوم کا شدید مخالف ہے ۔ دیکھا جائے تو اس وقت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں کسی جگہ کوئی پختون آئی جی یا پختون چیف سیکریٹری نہیں ہے ۔ یہ سب اس قسم کے متعصب اور تنگ نظر نادان دوستوں کی دوستی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے خود قانون کی پاسدار ی کا دعویٰ کرنے والے ہوا دے رہے ہیں ۔

اس کے برعکس عمران خان اور پاکستانیت کا دعویٰ کرنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق جو اس وقت پختون قوم کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں اس مسئلے پر مکمل خاموش ہیں ۔ ان کو پنجاب پولیس اور بعض متعصب پنجابی کاروباری حلقوں کی اس مذموم کوشش کی کھلی مخالفت اور مذمت کرنی چاہیے ۔ افواج پاکستان کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے ۔ لگتا ہے عمران خان ٹھیک کہتا تھا کہ پنجاب پولیس ’’ گلو بٹ‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ کسی اور کے لیے ہو نہ ہو غریب پختون عوام کے لیے تو پنجاب پولیس واقعی ’’گلو بٹ‘‘ بن چکی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان ، اسفند یار ولی خا ن اور محمود خان اچکزئی اگرچہ سیاستدان ہیں اور سیاستدان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے مگر اس میں ایک اور طرح کی ’’گریٹ گیم ‘‘کا آغاز کر دیا گیا ۔ افغان عوام کو بھی الگ تھلگ کر کے افغانستان کو اپنے ہاتھوں سے ہم نے بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ہے ۔ افغان طالبان کے کئی سرکردہ رہنما قطر میں بیٹھے پاکستان کو صلواتیں دے رہے ہیں ۔ آخر ہماری کونسی پالیسی ہے جو قومی وحدت ، اتحاد اور یکجہتی (نیشنل اینٹیگریشن ) کی آئینہ دار ہے ؟ عمران خان اور پختونخوا ہ کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جو ایک غیرت مند پختون بھی ہیں اور تجربہ کار سیاستدان بھی ضرو ر اس مسئلے پر آواز اٹھائیں گے ۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ جیسے سنجیدہ سیاستدان کو تو پنجاب پولیس اور پنجابی شاؤ نزم کے ان جھوٹے اور کھوکھلے دعویداروں کی فوری خبر لینی چاہیے ۔ اگر ایک بار یہ مسئلہ چل نکلا تو پنجاب کی اسٹبلشمنٹ نے پہلے کراچی میں سندھی مہاجر اور پھر مہاجر پختون کا کھیل کھیلااور اس بار وہ پنجابی پختون کا کھیل کھیلیں گے اور بلوچستان کے مقیم و بیرون فسادات کے بعد یہ ایک بد ترین فساد ہو گا۔

آپریشن رد الفساد والوں کو پنجابی پگ اور پنجاب پولیس کا یہ فساد رد کرنا چاہیے ۔ یہ تو جماعت الدعوۃ سے بھی زیادہ ضروری کام ہے ۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 79990 views i am a humble person... View More