وائسرائےہند۔ بروس الیگزینڈر نے پٹیالہ گھرانے کے
۔موجدین۔ خان صاحب۔ فتح علی خان اور علی بخش خان کا سنگیت۔ پہلی بار سنا تو
۔پریشان ہو کر اُن کی جامع تلاشی کا حکم دے دیا ۔کپڑے جھاڑے گئے۔اور ۔ منہ
کھلوا۔ کرگلا چیک کیا گیا کہ کوئی مشین تو فٹ نہیں کر رکھی۔چوبدار جب مشین
ڈھونڈنے میں ناکام رہے تو وائسرائے نے کسبِ کمال کے اعتراف میں علی بخش خان
کو جرنیل اور فتح علی خان کو کرنیل کا خطاب دیا۔۔حالانکہ ان کی فنی ٹریننگ
کسی توپ اور بندوق سے نہیں ۔ بلکہ ہارمونیم اور ستار بجانے سے ہوئی تھے۔
فوجی خطاب ۔ ملنے پرابتدا میں تو جگ ہنسائی ہوئی ۔پھرآہستہ آہستہ۔سارا جگ
معترف ہو گیا۔جرنیل اور کرنیل۔دونوں ۔کبھی رنگروٹ بھی بھرتی نہ ہوئے تھے
لیکن کلیدی عہدوں پر پہنچ گئے۔۔ان کے علاوہ بھی۔ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا۔تب
۔۔جنرل یحییٰ ۔۔ ایک خاتون کے ساتھ تعلق جوڑ چکے تھے ۔جو بعد میں جنرل رانی
کے لقب سے مشہورہوئی۔ جنرل رانی۔ جنرل یحیی ۔۔ کوآغا جانی کہتی تھی۔اور
ایک دن جانی نے رانی پروطن بھی ’’نثار‘‘کر دیا۔ جنرل ایوب ۔ نے میڈم نور
جہاں کی گائیکی سے متاثر ہوکر انہیں ملکہ ترنم کا خطاب دیا۔جنرل مشرف ۔جب
سارے اڈے نیٹو کو دے کر مطمئن ہو گئے تب ۔ استاد حامد علی خان کے ساتھ
کلاسیکل گانے ’’سیاں نظر تو سے لاگی‘‘۔پر جُگل بندی کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ
خان صاحبان نے فوج میں کبھی براہ راست کمیشن نہیں لیا۔
میراثی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اور جنگ لڑنے چلا گیا۔ ایک گولی اس کے ہیلمٹ
پر لگی اور وہ بھاگ نکلا۔
کپتان : کہاں جا رہے ہو۔؟
میراثی:عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
میراثی۔سچ میں عقل مند قوم ہیں۔ میراث ( ترکے) کوشجرہ نسب سمیت ۔۔۔ کوئی بے
وقوف یاد نہیں رکھ سکتا۔ اِن کا تو روزگار بھی میراث کو یاد رکھنا ہی تھا۔۔
میراثیوں کی ہارڈ ۔ڈسک میں ۔۔ہزاروں۔ٹیرا بائیٹ۔ ڈیٹا ۔ محفوظ ہوتا ہے ۔وہ
گفتگو کو۔ انتر ے اور استھائی ۔میں قید کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔راگ کی ہر
بندش کا انہیں علم ہوتا ہے۔ میر عالم ۔میراثی ۔اور۔ڈوم ڈھاڑی ایک ہی قبیلے
کے نام ہیں۔گاؤں میں چوہدری کے بیتے کا میوزک البم بھی ریلیز ہو جائے تو
چوہدری ہی رہتا ہے اور میرعالم افسر بن کر بھی ۔میراثی ہی رہتا ہے۔میرا
دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ ’’ہمارے ہاں ۔ ویلے چوہدری ہیں۔۔۔ محنت کرنے والے
کمی ہیں اور حس لطافت رکھنے والے میراثی‘‘۔شہر والےجُگت بازی کرنے والوں کو
میراثی کہتے ہیں۔چموٹا میراثی کا لباس ہوتا ہے۔اور چموٹے کے بغیر میراثی
ننگا ننگا لگتا ہے ۔ وہ میلہ میلہ گھومتے ہیں ۔اپنا میلہ لگا لیتے ہیں۔اور
بھرا میلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ میراثی گاؤں کا ہو یا شہر ۔اس کا تکیہ کلام ہوتا
ہے۔ ’’مولا خوش رکھے۔‘‘۔یہ نازک لوگ ہوتے ہیں۔جن کے گھروں کے گیٹ پر
ماشااللہ کے بجائے ’’نازک نگر‘‘کی تختی لگی ہوتی ہے۔جوسِینری میں برف دیکھ
رضائی نکال لیتے ہیں۔جن کے گھروں کی کنڈیاں۔سردیوں میں۔ ٹھنڈی ہونے کی وجہ
سےاکثر۔ بند رہتی ہیں۔ مہمان بھی دیواریں پھلانگ کرآتے ۔ جاتے ہیں۔ جنہیں
کھانے میں آدھ بھنا قیمہ پسند ہے ۔۔ جن کے دل کی دھڑکن دانتوں تلے آنے
والے ادرک کی کِرچ سے بڑھ جاتی ہے۔جو۔ داد۔ دینے کے لئے منہ پر آٹھا بناتے
ہیں۔اور۔ طبلے کی تان جہاں ٹوٹتی ہے۔وہاں ٹھیکا بھی لگاتے ہیں۔
میراثی کا بچہ سکول میں داخل ہو گیا۔
ٹیچر:دو کا پہاڑا سناؤ
بچہ شرما کر: مس جی تُسی فیر نکی نکی ڈھولکی بجاؤ۔
موسیقی، ناٹک اوربذلہ سنجی ۔۔ فن لطیفہ کے سارے اسلوب میراثی کو میراث میں
ملتے ہیں۔وہ سُر بکھیر کر داد سمیٹتے ہیں اور جگت مار کر نوٹ ۔انہیں گُڑھتی
میں سُر اور تال کا میل ملتا ہے۔دُونی کا پہاڑا ۔ بھی ڈھولکی کے بغیر نہیں
پڑھ سکتے۔ مرید کہتا ہے کہ ’’ہر سیاسی کارکن اپنے لیڈر کامیراثی ہوتا
ہے۔۔اور ہر انسان کے اندر چھوٹا موٹا میراثی ضرور ہوتا ہے۔وہ گانا ضرور
گاتا ہے خواہ آواز یوسف رضا گیلانی جیسی ہو اور جگت بھی مارتا ہے۔خواہ حسِ
مزاح وفاقی وزیر خواجہ آصف جیسی ہو‘‘۔۔
چوہدری ( میراثی سے): اوئے۔تو بڑا چالاک بنتا ہے۔یہ تو ۔بتا۔ میری کون سی
آنکھ پتھر کی ہے۔؟
میراثی: چوہدری صاب۔سجی آکھ ۔
چوہدری: واہ ۔ تمہیں کیسے پتہ چلا ۔؟
میراثی :کیونکہ اس آنکھ میں تھوڑی سی شرم نظر آتی ہے۔
میراثی کسی زمانے میں اتنے ہی پاپولر تھے۔ جتنا آج کل نصر ت فتح علی خان
کا ۔رشک قمر ۔پاپولر ہے۔کہتے ہیں کہ ۔ ’’میراثی کے وجود سے انکار اپنی قدیم
تاریخ اور شناخت سے انکار ہے۔پاکستان میں بسنے والی تہذیبوں کا اپنی تاریخ
سے رشتہ میراثیوں کے ذریعے ہی استوار تھا‘‘۔ روایت ہے کہ’’ لاہور کے 13
دروازے ہوتے تھے اور ہر دروازے کے باہر ایک تکیہ ہوتا تھا۔ جہاں کنواں، غسل
خانہ، کمرے، مسجداور اکھاڑا وغیرہ ہوتے تھے۔ قصور۔ سے بزنس مین ۔ لاہور
آتے۔د ن بھر کام کرتے ۔اور رات تکئیے میں گذارتے۔ان میں کچھ لوگ موسیقی
سےوابستہ بھی تھے۔ جنہیں برا سمجھا جاتا تھا۔ تب موسیقی کے شوقینوں نے موچی
دروازے کے سامنے ۔ چیمبرلین روڈ۔کے قریب زمین خرید۔ کراپنا تکیہ بنا لیا۔
جو آج بھی’’ تکیہ میراثیاں‘‘ کے نام سے مشہور ہے‘‘۔ بحوالہ روزنامہ دنیا۔
تکیہ سالوں پہلے جہیز کی بنیادی آئیٹم ہوتا تھا۔نوجوان لڑکیاں ۔چار سوتی
اور ۔ دو سوتی ٹانکے میں غلاف پرپھولکاری شروع کرتیں توشریکے میں پتہ چل جا
تا کہ یہ دلہن بننے والی ہے۔شادی کے بعد ۔ جہیز دکھائی کی رسم ہوتی
تو۔خواتین ۔غلاف کی کڑھائی دیکھ کر اندازہ لگا لیتیں کہ دلہن کتنی سُگھڑ ہے
۔خواتین تب۔اتنی شرمیلی ہوتی تھیں کہ جذبات کا اظہار بھی کڑھائی سے کیا
جاتا۔ کبھی۔غلاف پر خوش آمدید۔کڑھائی کر لیا۔اور۔کبھی بیڈ شیٹ پر گلاب کا
پھول۔یا پھر چونچ لڑاتے پرندے ۔
تکیہ دو طرح کا ہوتا ہے۔کلام والا ۔اور نیند۔والا۔۔لیکن مشہوروہی تکیہ
ہے۔’’جن پہ تکیہ تھا‘‘۔نیند والا تکیہ گھریلو بھی ہوتا ہے ۔اور ہر شوہر کا
انتخابی نشان بھی ۔سارے شوہر گھر آکر ۔باہر جانے تک اپنے انتخابی نشان
کےساتھ رہتے ہیں۔ کبھی سر کے نیچے، کبھی پہلو میں اورکبھی پیروں کے
نیچے۔ایک لوفر تکیہ بھی ہوتا ہے۔جسے ہم محفل مجرا میں دیکھتے ہیں۔ لوفر
تکیہ کوٹھی میں ہو یا کوٹھے پر اس سے ٹیک لگانے کا سٹائل ایک سا ہی ہوتا
ہے۔شرفا اسے گاؤتیکہ کہتے ہیں۔سالوں پہلےمہمان گھر آتے تو احترا ماً۔
رنگیلے پائیوں والی منجھی بچھائی جاتی۔ عزت بڑھانی ہوتی تو ادوائن پر چادر
بھی بچھائی جاتی اور اگر ۔وہ مہمان خصوصی ہوتا تو گاؤ تکیہ بھی دیا جاتا۔
مہمان کے جاتے ہی گاؤ تکیہ فری ہوجاتا۔ تو گھروالے۔تکئیے سے فری ہو جاتے۔کم
بخت اتنے بھاری ہوتے کہ کئی بارکمر اور ٹانگوں پر رکھ کر مساج بھی کر لیا
جاتا ۔
مرید کہتا ہے کہ’’ اگر کوئی شخص کہے میں نے کئی سال سے گاؤ تکیہ نہیں دیکھا
تو سمجھ جائیں کہ اس نے مجرا دیکھنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔کلاسیکل موسیقی کا تو
ویسے ہی گلا بیٹھ چکا ہے ۔معاشرتی گھٹن میں فنون لطیفہ کی سانسیں اکھڑ رہی
ہیں۔۔۔ وائسرائے برصغیر سے جا چکا ہے۔ جو مشینیں وہ ۔ جرنیل اور کرنیل کے
گلے میں ڈھونڈ رہا تھا ۔ آج کل سارے ’’رنگروٹ‘‘ فٹ کروا چکے ہیں۔کیونکہ
کلاسیکل موسیقی کا ’’جنم استھان‘‘تکیہ میراثیاں بند ہو چکا ہے۔۔ |