دنیا کی سزا : والدین کے نافرمان کے لئے

اسلام میں ماں باپ کا بہت بلند مقام ہے ، انہیں ڈانٹنے، جھڑکنے بلکہ اف بھی کہنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اولاد پر والدین کے بے پناہ احسانات ہوتے ہیں ۔ مادررحم سے لیکر وفات تک شفقت مادری اور نصرت پدری ملتی ہے۔ ان کے احسانات کی کوئی گنتی وشمار ہے ، نہ ہی کوئی ان کا بدلہ چکا سکتا ہے ۔ قرآن نے ماں کے فقط اس احسان کو جو پیٹ میں رکھ کر کرتی ہے "وہن علی وہن" یعنی مصیبت پر مصیبت کہا ہے ۔ فرمان الہی دیکھیں ۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (لقمان:14)
ترجمہ: ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھاکر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تومیری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔

اسی لئے اللہ نے والدین کے ساتھ احسان وسلوک کرنے کا حکم دیا تو یہ اولاد کے لئے فرائض میں شامل ہے ، اس میں کوتاہی کرنے والا والدین کا نافرمان اور گناہ کبیرہ کا مرتکب شمار ہوگا ۔ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے جو اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کے بعد اہم ترین فریضہ والدین کی اطاعت ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (الاسراء:23(
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔
اس آیت کریمہ پہ غور کریں کہ اللہ نے کس طرح اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ؟ اس آیت سے والدین کے بلندترین مقام ہونے کا پتہ چلتا ہے جن کی نافرمانی تو دور کی بات انہیں اف بھی کہنے سے منع کیا گیا ہے ، ان کے لئے سراپا موم بن جانے کا حکم ہے ۔
والدین کے بلند مقام ومرتبہ کے سبب ان کی نافرمانی کرنے والوں کواللہ تعالی نے دنیا میں ہی سزا دینے کا دستور بنا دیا ہے تاکہ اولاد حقوق والدین کی رعایت کرے اور ان میں حق تلفی یا کوتاہی سے اللہ کی سزا کا خوف کھائے ۔
متعدد احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ گناہ اس قدرشدید ہیں جن کی شدت کے باعت اللہ عزوجل نے ان کی سزا دنیا میں بھی رکھ دی ہے ، ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی ہے ۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کے چند فرامین ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كلُّ ذنوبٍ يؤخِرُ اللهُ منها ما شاءَ إلى يومِ القيامةِ إلَّا البَغيَ وعقوقَ الوالدَينِ ، أو قطيعةَ الرَّحمِ ، يُعجِلُ لصاحبِها في الدُّنيا قبلَ المَوتِ (صحيح الأدب المفرد:459)
ترجمہ: ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ مؤخر کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے قیامت کے دن تک سوائے ظلم اور والدین کی نافرمانی کے یا رشتہ توڑنے کے کیونکہ اس کی سزا اللہ تعالیٰ موت سے پہلے گناہگار کی زندگی میں ہی دے دیتا ہے۔

(2) نبی ﷺ کا فرمان ہے :
اثنانِ يُعجِّلُهما اللهُ في الدنيا : البغيُ ، و عقوقُ الوالدَينِ(مستدرک حاکم)
ترجمہ: دو ایسے گناہ ہیں جن کی سزا دنیا ہی میں دی جاتی ہے ، وہ ظلم اور والدین کی نافرمانی ہے ۔
٭ شیخ البانی نے اس کی سند کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ( السلسلۃ الصحیحۃ: 1120)

(3) نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما من ذنبٌ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدنيا مع ما يدَّخِرُ له في الآخرةِ من البغيِ وقطيعةِ الرحمِ(صحيح ابن ماجه:3413)
ترجمہ: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔

مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی نافرمانی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے ، ایسے گناہگار کو اللہ دنیا میں سخت سزا دیتا ہے تاکہ ماں باپ بھی نافرمان اولاد کی سزا دیکھ لے جنہوں نے اس کی پرورش کے لئے رحم وکرم کا بازو بچھا دیا تھا اور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ، خود کمانے کھانے لگا تو اب ماں باپ کے سارے احسانا ت بھلاکر نافرمانی اور انہیں تکلیف دینے پر اتر آیا۔

نافرمان اولاد کی دنیاوی سزا میں جہاں اولاد کے لئے عبرت کا سامان ہے وہیں اس میں دنیا والوں کے بھی درس ونصیحت ہے تاکہ کوئی اولاد ماں باپ کا حق غصب نہ کرے ، ان کی خدمت سے منہ نہ پھیرے ، ان کےکھلانے پلانے اور دیکھ ریکھ میں کوتا ہی نہ کرے ، خاص طور سے جب دونوں بوڑھے ہوجائیں ،چلنے پھرنے ، کام کاج کرنے اور کمانے سے معذور ہوجائیں تو ایسے وقت میں اولاد ان کی مکمل نگہداشت کرے ۔ وقت پر کھانے کا انتظام کرے ، جوخود کھائے وہ انہیں بھی کھلائے ، بدن ، کپڑا ، جگہ کی صفائی کا خیال کرے، پیشاب وپاخانے اور ضروریات زندگی پہ مدد کرے مگرعام طور سے بوڑھے ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی دیکھنے کو ملتی ہے ، خود بھی والدین کی خدمت سے جی چراتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی کسی کام پر ان کی مدد کرنے سے منع کرتے ہیں اورآج کل کی بیوی توخوب سمجھتی ہی ہے کہ ساس وسسر کی خدمت ان کی ذمہ داری نہیں ، احسان کا درجہ تو بعد کا ہے ۔ واقعی یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

یہ احادیث ہمیں یہ بھی بتلاتی ہیں کہ والدین کے ساتھ نافرمانی کرنے والا جہاں دنیاوی سزاکا مستحق ہے وہیں آخرت میں بھی اسے دوبارہ سزا ملے گی جیساکہ تین نمبر میں ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ یہ ایسا گنہگار ہے جس کی سزا آخرت میں باقی تو ہے ہی ، اس لائق ہے کہ دنیاوی زندگی میں بھی وہ سخت سے سخت سزا پائے ۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ والدین کی نافرمانی کی سزا اس قدر سنگین ہے کہ دنیا میں بھی ایسے گنہگاروں کو ملول کیا جاتا ہے جبکہ اور بھی سنگین گناہ ہیں مگر ان کے متعلق ایسی بات نہیں ملتی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے ،گناہ کبیرہ میں بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا دنیا سے ہی شروع ہوجاتی ہے جو آخرت تک چلتی رہے گی ۔ یہ بات والدین کی نافرمانی سے متعلق احادیث پر نظر کرنے سے معلوم ہوتی ہے ۔ قرآن میں اللہ نےاپنی عبادت کے ساتھ والدین کی اطاعت کا حکم دیا یعنی حقوق اللہ کے بعد حقوق الوالدین کا درجہ ہے ۔ حدیث میں نبی ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو شرک کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ألا أخبرُكُم بأَكْبرِ الكبائرِ . قالوا : بلَى يا رسولَ اللَّهِ ، قالَ الإشراكُ باللَّهِ ، وعقوقُ الوالدَينِ(صحيح البخاري:6273(
ترجمہ: کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں، لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔

اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت کے بعداطاعت والدین کا درجہ ہے اور گناہ میں شرک کے بعد والدین کی نافرمانی کا درجہ ہے یہی وجہ ہے کہ والدین کے ساتھ نافرمانی کی مختلف قسم کی شدید سے شدید سزائیں وارد ہیں ۔
اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف قیامت میں دیکھے گا بھی نہیں اور نہ ہی اسے جنت میں داخل کرے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ثلاثةٌ لا ينظرُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ إليهم يومَ القيامةِ ؛ العاقُّ لوالِدَيهِ ، والمرأةُ المترجِّلةُ ، والدَّيُّوثُ ، وثلاثةٌ لا يدخُلونَ الجنَّةَ: العاقُّ لوالِدَيهِ ، والمدمِنُ على الخمرِ ، والمنَّانُ بما أعطى(صحيح النسائي:2561)
ترجمہ: تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نافرنان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور دیوث(بے غیرت خاوند)، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔
ایسے شخص اللہ کی لعنت کا بھی مستحق ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ملعونٌ من عقَّ والدَيه(صحيح الترغيب:2420(
ترجمہ: جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے وہ ملعون ہے ۔
ایسے شخص کا کوئی بھی عمل اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہے ، نہ تو فریضہ اور نہ ہی نوافل ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ثلاثةٌ لا يقبلُ اللهُ عزَّ وجلَّ منهم صرفًا ولا عدلًا : عاقٌّ ، ومنَّانٌ ، ومُكذِّبٌ بقدَرٍ(صحيح الترغيب:2513)
ترجمہ: تین آدمیوں کا صرف وعدل (عمل) قبول نہیں کیا جائے گا ۔ والدین کے نافرمان، احسان جتلانے والا اور تقدیر کے انکار کرنے والا کا ۔
ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور، ہلاکت وبربادی کے قریب ہیں ۔ جب آپ ﷺ پہ منبر پر تو جبریل علیہ السلام نے کہا :
بَعُدَ من أدرك أبوَيه الكبرُ عندَه أو أحدَهما فلم يُدخِلاه الجنَّةَ(صحيح الترغيب:1677( یعنی دوری اور ہلاکت ہو اس کے لئے جنہوں نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں نہ داخل ہوسکا۔ تو نبی ﷺ نے اس پہ آمین کہی ۔

ان کے علاوہ بھی سزائیں ہیں ، ان سزاؤں کا مطلب ہے کہ والدین کا نافرمان اللہ کی نظر میں بہت ہی برا آدمی ہے اس لئے اس کی سزا بھی دنیا وآخرت میں بہت بری ہے اور والدین کا خدمت گزار اللہ کی نظر میں بہت اچھا آدمی ہے اس لئے وہ دنیا میں بھی اللہ کے خاص فضل واحسان کا مستحق ہے اور آخرت میں بھی بہتر سے بہتر بدلہ ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کی توفیق بخشے اور ان کی نافرمانی سے بچائے ۔ آمین

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 320 Articles with 350441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.