اسلام کا معاشی نظام اور سیرت نبوی ﷺ

 اسلام ایک ایسا آفاقی اور فطری مذہب ہے جو انسانیت کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے یہ اپنے ماننے والوں کی ـزندگی کے ہر شعبہ میں رہمنائی کرتا ہے۔اسی لئے جہاں ایک طرف وہ اپنے ماننے والوں کو عبادت وریاضت کی تعلیم دیتا ہے وہیں دوسری طرف وہ ان کو معیشت کے اصول و ضوابط سے بھی روشناس کرواتا ہے۔اسلام عبادت کو صرف مسجد تک محدود نہیں رکھتا بلکہ معیشت کو بھی بعض صورتوں میں عبادت کا جز اور بعض صورتوں میں مکمل عبادت شمار کرتا ہے۔قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام سے ہی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو معیشت کی ترقی اور نمو کی ترغیب دی ہے جیسا کہ اﷲ تعالی نے سورہ جمعہ میں فرمایا: ’’جب تم نماز (جمعہ) سے فارغ ہو جاؤتو زمین میں پھیل جاؤ اور اپنے رب کا رزق تلاش کرو‘‘۔اسی طرح نبی اکرمﷺنے معیشت کی ترقی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاجیسا کی بخاری کی روایت ہے:’’جو مسلمان بھی ایسا پودا لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے جس سے پرندے ،چوپائے اور انسان کھاتے ہیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے‘‘۔یہ چند نصوص ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ معیشت کی ترقی کے خاطر کوشش کرنا شریعت کو مطلوب ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسلام دیگر میدان کی طرح میدان معیشت کی بھی حدود متعین کرتا ہے اور انسان کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ صرف حلال روزی ہی تلاش کرے نیز جو کچھ وہ کماتا یا خوچ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے حساب لیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ مومن ہمیشہ اپنے آپ کو اﷲ کی نگرانی میں سمجھتے ہوئے معیشت کو ترقی دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔

سیرت نبویﷺکی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد مبارک میں معیشت اگرچہ محدود تھی مگربہت ہی صاف و شفاف نظام کے تحت لین دین کی جاتی تھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے مابین نبی اکرمﷺ نے الفت ومحبت اور ایمانداری و سچائی کا ایسا بیج بو دیا تھا کہ جس کی وجہ سے دھوکہ،غش،ناپ تول میں کمی اور حکومت کے اموال میں گھوٹالا وغیرہ چیزیں ان کی ڈکشنری میں موجود ہی نہ تھی۔اسی بات کی گواہی دیتے ہوئے صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں کہ؛دور نبوی میں ہم لوگ لین دین کرتے وقت کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ ہم کس سے لین دین کر رہے ہیں کیونکہ تمام لوگ صدق و صفا کے پیکر تھے۔حتی کہ مشرکین بھی عموعا لین دین میں دھوکہ وغیرہ کے عادی نہ تھے۔

اﷲ تعالی نے قرأن مجید میں اور رسول اﷲ ﷺ نے احادیث میں معیشت کے ایسے مضبوط قوانین مقرر کئے جس سے لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم سے بچایا جا سکے اور لوگوں کی تمام مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے آپسی لین دین کو آسان تر بنایا جا سکے۔اسی لئے بیع وشراء میں سود اور غرر وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا اور بیع سلم وسلف وغیرہ کو جائز قرار دیا گیااگرچہ اس میں بھی غرر یسیر موجود ہے۔شریعت کے جو بنیادی معیشت کے اصول ہیں اگر ان میں سے ہر ایک کی حکمتوں پر مستقل قلم اٹھایا جائے تو ہر اصول اپنے اندر ایک مستقل موضوع رکھتا ہے۔

نبی اکرمﷺکو جو عظیم اخلاق دیکر بھیجا گیا تھا اس نے بھی معیشت کے میدان میں بہت اچھا کردار نبھایا اس طور پر کہ اس کی وجہ سے ان کے درمیان محبت،اخوت ،اخلاص اورآپس میں ایک دوسرے کے تعاون کی ہوا چلنے لگی جس کے نتیجہ میں لوگ معاشی طور پر بھی ایک دوسرے کا تعاون کیا کرنے لگے اور بے ایمانی کے داغ سے اپنے دامن کو بچانے لگے۔گویا پورا معاشرہ ایک خاندان کے مانند ہو گیا۔اس علاوہ اسلامی تعلیمات نے زکوۃو صدقات کا جو بے مثال اصول عطا کیا اس نے بھی معاشرے کے تمام افراد کو معیشت میں برابر کا حصہ عطا کیا۔

آج کے اس سودی اور ظالمانہ نظام معیشت کا موازنہ اسلامی نظام معیشت سے کیا جائے تو ہر وہ شخص جس کے پاس معاشیات کا ادنی بھی علم ہے وہ یہ گواہی دینے پر مجبور ہو جائے گا کہ اسلامی معاشی نظام جسے محمدﷺ نے جاری کیا ایک ایسا نظام ہے گس کی بنیادیں الفت و محبت پر قائم ہیں۔اس نظام میں سماج کے ہر طبقہ کی رعایت کی جاتی ہے ۔اس کے بر خلاف آج کا ظالمانہ نظام معیشت مکمل طور پر ظلم وتعددی پر مبنی ہے ۔اس نظام میں صرف سماج کے امیر طبقہ کی رعایت کی جاتی ہے۔
 

Umar Khalid
About the Author: Umar Khalid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.