شیخی خورہ٬ دنبے کی چربی اور سچ

حضرت امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک شیخی خورہ ہر روز ہونٹوں اور مونچھوں کو دنبے کی چربی سے چکنا کر کے گھر سے نکلتا اور دوستوں میں شیخی بگھارتا کہ اس نے ایسے ایسے کھانے کھائے ہیں اور مرغن غذائیں تناول کی ہیں-

یہ باتیں کرتے کرتے ہوئے وہ اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا اور کہتا کہ میری مونچھیں دیکھو کہ مرغن غذاﺅں کے کھانے سے چکنی ہورہی ہیں ،میرے ہونٹ اور مونچھیں گواہ ہیں کہ میں نے چکنی اور لذیذ غذائیں کھائی ہیں اُس کا پیٹ بلاآواز جواب دیتا کہ اللہ تیرا مکر برباد کرے ،تیری شیخی نے پیٹ کی انتڑیوں کو انگاروں پر رکھ دیا ،خدا کرے کہ تیری مونچھیں اکھڑ جائیں ،اے بھکاری اگر تو شیخی نہ مارتا تو کوئی سخی ہم پر رحم کرتا ۔اگر تو عیب ظاہر کردیتا اور ظلم نہ کرتا تو کسی آشنا کی جانب سے کوئی مہمانی ہوجاتی ۔

ادھر اس شیخی خورے کے گھر میں ایک بلی آئی اور وہ دنبے کی چربی لے اڑی شیخی خورے کا بچہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن بلی اس کے ہاتھ نہ آئی اس کا بچہ خوف کی حالت میں مجمع میں آیا جہاں شیخی خورہ شیخیاں بگھار رہا تھا بچے نے بلی کا قصہ سنایا کہ بلی وہ چربی لے گئی جس سے آپ ہونٹ اور مونچھیں چکنی کرتے تھے-

یہ سن کر شیخی خورہ شرمندگی سے بے ہوش ہوگیا حاضرین کو رحم آیا اور انہوں نے اس کی دعوت کی اور اسے لذیذ کھانے کھلائے شیخی خورے نے شریفوں میں سچائی کا ذوق دیکھا تو سچائی کا غلام بن گیا ۔امام رومی ؒ اس حکایت کے سبق کے طور پر کہتے ہیں کہ اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر نہ کرنا حکمت ہے مگر اس کے باوجود اترانا اور شیخی بگھارنا حماقت ہے ۔سچ کو ہمیشہ اپنانا چاہیے بالآخر سچ ہی کا بول بالا ہوتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: