زید سے ہماری سلام دعا یا گپ شپ فیس
بک کے ذریعے ہوئی، گپ شپ بھی بذریعہ میسج ہوتی رہی ، دوران گپ شپ پتہ چلا
کہ یہ صاحب کسی مذہبی جماعت کے کارکن اور ایک بہت بڑے مذہبی رہنما کے ماننے
والے ہیں ایک دن انہوں نے ہمیں فیس بک کے ان باکس میں میسج کیا کہ ''ثقلین
بھائی! میری وال پر فلاں صاحب نے میرے قائد کے بارے میں عجیب وغریب جملے
لکھ رکھے ہیں،پلیز آپ اسے جواب دیں'' ان کی بات نے حیران کردیا ، ہم نے عرض
کی ''حضور! دیکھیں ہوسکتاہے کہ آپ کے قائد کے حوالے سے ہمارے بھی تحفظات
ہوں اس لئے آپ براہ کرم ہمیں معاف رکھیں،''' زید نے کہا کہ '' آپ ایسا کریں
میری وال پرآکر ایک دفعہ دیکھ لیں کہ اس نے کیا بکواس کررکھی ہے، اس کے بعد
آپ مجھے اس کا جواب لکھ کران باکس کریں''تجویز خاصی معقول تھی اس لئے ہم نے
حامی بھرلی ، اتفاق دیکھئے کہ ان کی وال پر عجیب وغریب تبصرے کرنیوالے صاحب
(انہیں آپ بکر سمجھ لیں) بھی ہمارے فیس بکی دوست تھے، بکر کے تبصرہ کو غور
سے پڑھا اور پھر اس کااردو فانٹ میں جواب لکھ کر زید کو ان باکس کردیا، دو
تین مرتبہ یہ کام کرنے کے بعد اچانک بکر کی طرف سے ان باکس میں میسج ملا ''ثقلین
بھائی! یہ لڑکا زید جو ہے ،اس کی وال پر میری بحث چل رہی ہے اچانک اس نے
اتنے دلائل کے ساتھ جواب دینا شروع کردیا کہ میں حیران ہوں، آپ پلیز میری
حمایت میں لکھ دیں کیونکہ آپ نے بھی ایک سے زائد مرتبہ اس کے قائد کے حوالے
سے کچھ ایسی ویسی باتیں لکھی تھیں'' ہم نے عرض کی ''حضور! وہ باتیں اس وقت
کے حساب سے تھی ہمارا ان کے قائد سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں اس لئے آپ ہمیں
معاف رکھیں''' بکر نے منت کے انداز میں کہا کہ ''اچھا ایسا کریں آپ جواب
لکھ کرمجھے ان باکس کردیں میں خود پوسٹ کردونگا ''
اس کے بعد یقینا بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہمارا ایک ڈیڑھ گھنٹہ اسی بحث
مباحثہ کے چکر میں گزرگیا، گو کہ ابتدا میں یہ کام بڑا ہی دلچسپ تھا لیکن
بعد میں بوریت ہونے لگی تو ہم نے فیس بک سے جان چھڑا مناسب سمجھی۔خیر اگلے
دن زید نے آن لائن ہوتے ہی پھر کہا کہ ''واہ ثقلین بھائی مزہ آگیا آ پ نے
بکر کو خوب مزہ چکھادیا'' ابھی ہم ان کے تعریفی جملوں کالطف اٹھارہے تھے کہ
بکر صاحب نے آن لائن ہوتے ہی تقریباً ایسے ہی ملتے جلتے میسج کئے ، ہم نے
دونوں کی تعریفیں دونوں ہاتھوں سے سمیٹیں اورگلے سے لگالیں۔
صاحبو! سوشل میڈیا پر محض یہ دو ہی ایسے کردار نہیں بلکہ روزانہ ایسے کردار
سے واسطہ پڑتاہے، جن کی فرمائشیں بھی عجیب ہوتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے
کہ ان کے لکھے پر واہ وا ہ کرنے کے علاوہ چند ایک جملے بھی لکھے جائیں تاکہ
ان کی پوسٹ کی گئی''تخلیق نما شئے'' کی اہمیت وافادیت بڑھ جائے ۔اچھا ان
باتوں کو چھوڑئیے یہ دیکھئے کہ واہ واہ کی خواہش کسے نہیں ہوتی لیکن سوشل
میڈیا خاص طورپر فیس بک کے حوالے سے عجب طرز کی کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں
اس دنیا کے دانشور جس قدر سچے اور پکے ہیں اسی قدر واہ واہ کرنیوالوں کی
حالت بھی ویسی ہی ہے۔پانامہ کیس سے لیکر پی ایس ایل تک ، اگر فیس بکی
دانشوروں کے تبصرے پڑھے جائیں تو بندہ خود سوچنے پرمجبورہوجاتاہے کہ اگر
اتنی ہی دانش ان افراد میں ہوتی تو قوم کی یہ حالت نہ ہوتی۔ گویا دانش
بیچاری بھی دانشوروں کی عقل پر ماتم کرتی نظرآتی ہے۔ 2013کے انتخابات کے
دوران بھی عالم کچھ ایسا ہی تھا ، طرح طرح کے تبصروںسے ہم نے نتیجہ اخذ کیا
کہ اب کی بار نہ تو پیپلزپارٹی جیت پائے گی اورنہ ہی مسلم لیگ کے سر
کامیابی کا سہرا سجے گا ، عمران خان بھی بس ففٹی ففٹی کامیابی حاصل کرینگے
؟ لیکن اصل کامیابی ہوگی کس کی؟ یہ سوال الیکشن کے نتائج تک ادھورا ہی رہا
لیکن جونہی انتخابات ہوئے تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ ن واضح اکثریت کے ساتھ
حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ سوا ل وہی کہ اگر فیس بک کے دانشوروںکے
اٹھائے گئے چاند سورج کے بارے قیاس کیاجائے تو یہی لگتا ہے کہ ابھی دن کو
رات اور رات کو دن بنادیںگے۔
ایک ایسے ہی فیس بکی دانشور سے بات چیت ہورہی تھی فرمانے لگے '' پی ایس ایل
کی ٹیموں کاجائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ کراچی کنگز
،لاہور قلندر جیسی ٹیموں پر خود انہیں بھی اعتبار نہیں، پشاور زلمی ،کوئٹہ
گلیڈی ایٹر کے جیتنے کے بھی امکانات کم ہیں،اسلام آباد یونائیٹڈ بھی گذشتہ
برس جیسی مضبوط ٹیم نہیں ہے''' اس تبصرہ نگار سے ہم نے پوچھا'' پھر کون
جیتے گا '' یہ سوال پڑھتے ہی انہوں نے فرمایا ''اوہ ہ ہو و و،یہ تو مجھے
یاد ہی نہیں رہا ''
یہی صورتحال پانامہ لیکس کے حوالے سے بھی درپیش ہے ، طرح طرح کے تبصرے
پڑھنے کے بعد بندہ خواہ مخواہ ہی خود کو جج سمجھ بیٹھتا ہے اوران تبصروں کی
روشنی میں فوراً فیصلہ صادر کردیتاہے کہ نوازشریف کو عہدہ سے ہٹانے کے
علاوہ عمر بھر کیلئے نااہل قرار دیاجاتاہے ۔ ان میں سے بعض تبصرے تو بڑی ہی
دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگرعدالت عظمیٰ کی جیوری وہ پڑھ
لے تو ان کی فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی ، یقینا کریں کہ قانون، آئین کی
تشریحات جس قدر دلچسپ اندازمیں فیس بک پر نظرآتی ہیں اس کا عشر عشیرکوئی
حقیقی ماہرقانون وآئین نہیں ہوسکتا۔
ایک تبصرہ نگار سے اچھی خاصی سلام دعا ہے، انکے ہر ادبی ،سیاسی تبصرہ پر
واہ واہ کرنیوالوں کی تعداد ہمیشہ سینکڑوں میں ہوتی تھی، ایک دن ہم نے
مشورہ دیا کہ ' آپ اچھا لکھتے ہیں آپ کی تحریروں، تبصروں میں جامعیت ہوتی
ہے لہٰذا کسی قومی روزنامہ کاقصد کرلیں'' انہوں نے بڑے ہی فخریہ انداز میں
جواب دیا ''انشا اللہ آپ آئندہ چند دنوں میں کسی بڑے قومی اخبار میں میری
تحریر پڑھ سکیں گے'' کچھ دن انتظار میںگزر گئے پھر پتہ چلا کہ ایک قومی
اخبار انچارج ادبی صفحہ نے ان کے تبصرہ پر عجیب سا تبصرہ کیا '' کچھ حصہ تو
ڈاکٹریونس بٹ کی تخلیقات سے متاثرہ نظرآتا ہے، کچھ جملوں کی کانٹ چھانٹ
فلاں فلاں رائٹر کے زیر اثر ہے، بعض پیروں پر فلاں فلاں ادبی لکھاری نے
پہلے سے ہی قبضہ جمایا ہوا ہے اورجملوں کی کاٹ حسن نثار سے مستعار لی گئی
ہے'' اس تبصرہ نگار کے تبصرہ پر اتنابھرپور تبصرہ یقینا بہت ہی دلچسپ تھا
کہ ا س کے بعد مزید کسی تبصرے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی |