یہ بات لوگوں میں یقین کی حدتک مشہور ہوگئی ہے کہ اللہ
تعالی اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ جب ہم اس بات کو
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں تلاش کرتے ہیں تو کہیں بھی نہیں ملتی
البتہ اتنی بات ضرور ملتی ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر ایک ماں کی رحم
دلی سے زیادہ مہربان و رحمدل ہے چنانچہ بخاری ومسلم میں عمربن خطاب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے :
قدِمَ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سَبيٌ، فإذا امرأةٌ من السبيِ
قد تحلُبُ ثَديَها تَسقي، إذا وجدَتْ صبيًّا في السبيِ أخذَتْه، فألصقَتْه
ببَطنِها وأرضعَتْه، فقال لنا النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أترَونَ
هذه طارحَةً ولدَها في النارِ ) . قُلنا : لا، وهي تقدِرُ على أن لا
تطرَحَه، فقال : ( لَلّهُ أرحَمُ بعبادِه من هذه بولَدِها ) .(صحيح
البخاري:5999، صحيح مسلم:2754)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک
عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں
ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو
دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم
خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا
کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے
بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے ۔
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی ماں کی رحمدلی سے زیادہ اپنے بندوں
پرمہربان ہے مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ تعالی سترماؤں سے زیادہ اپنے
بندوں سے محبت کرتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس
کی دلیل نہ ہوتعین کرکے وہ بات کہنا صحیح نہیں ہےگوکہ اللہ تعالی سترنہیں
اس سے بھی زیادہ ماؤں کی رحم دلی سے بھی زیادہ رحمدل ہے مگر عدد مخصوص کرنا
صحیح نہیں ہے ۔
ایک شبہ اور اس کا رد
اس سے متعلق لوگوں میں ایک شبہ پایا جاتا ہے یہاں اس کی بھی حقیقت جان لیتے
ہیں کہ جب اللہ سترماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے تو زمین پر کافروں کی تعداد
کیوں زیادہ ہے ؟ یا اللہ کافروں کو عذاب کیوں دے گا اور ہمیشہ ہمیش جہنم
میں کیوں ڈالے گا؟
اس کے بہت سے جوابات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) یہ بات ہی غلط ہے کہ اللہ سترماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے
، جب یہ بات ہی غلط ہے تو یہ مفروضہ قائم کرنا ہی صحیح نہیں ہوا۔
(2) اللہ سارے لوگوں پر رحم دل ہےخواہ کافر ہو یا مسلم کیونکہ اس کی ایک
صفت رحیم بھی ہے یعنی وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے ۔ اسی سبب ہم دیکھتے ہیں
کہ اللہ تعالی دنیا میں کافروں کو بھی روزی روٹی اور دنیاوی سہولت میسر
فرمایاہے ۔ اور یہ اللہ کے رحم کا صرف ایک ہی حصہ ہے ۔
ن
بی ﷺ کا فرمان ہے :
جعلَ اللَّهُ الرَّحمةَ فى مائةِ جُزءٍ ، فأمسَك عندَه تِسعَةً وتسعينَ
جُزءًا ، وأنزلَ فى الأرضِ جُزءًا واحِدًا ، فمِنْ ذلِك الجزءِ يتراحَمُ
الخلقُ حتَّى تَرفعَ الفرسُ حافِرَها عن ولدِها ، خَشيةَ أن تصيبَهُ(صحيح
البخاري: 6000)
ترجمہ: اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان مےںسے ننانوے حصے
رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق
ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں
لگنے دیتی بلکہ سموں کواٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے اس بچہ کو تکلیف نہ
پہنچے ۔
یعنی اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے مگر وہ اپنے ہربندے سے محبت نہیں کرتا ۔
محبت اور رحم میں فرق ہے ۔ اللہ ایمان والوں سے ، حق پرستوں سے ، صادقین سے
، مطیع وفرمانبرداروں سے ، محسنین سے محبت کرتا ہے مگر ظالموں اور کافروں
سے محبت نہیں کرتا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ
لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران:32)
ترجمہ: اے نبی آپ کہہ دیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں ، اگر وہ
اعراض کرے تو یقینا اللہ کافروں کو پسند نہیں فرماتا۔
اس آیت کو مطلب یہ ہواکہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور ان
کی اطاعت کرتے ہیں اللہ انہیں سے محبت کرتا ہے اور جو ایمان واطاعت قبول
نہیں کرتے اللہ ان سے محبت نہیں کرتا ۔
(3) اللہ تعالی مکمل عدل کرنے والا ہے اور وہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم
نہیں کرتا جیساکہ اللہ کا فرمان ہے ۔
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا
رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (فصلت:46(
ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس
کا وبال بھی اسی پر ہے اور آپ کا رب بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم کرنے والا
نہیں ۔
یہ آیت صاف صاف بتلاتی ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرنے والا ہے ، اگر کوئی
جہنم میں جائے گا تو یہ اس کے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے ۔ ایک مثال سے اس بات
کو واضح کرتا ہوں ۔
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور کائنات میں لاکھوں نعمتیں اس کے لئے
بنائی ، انسان پیدائش سے لیکر موت تک اللہ کی گوناگوں نعمتوں سے فائدہ
اٹھاتا ہے ۔ صرف جسم میں ہزاروں نعمتوں ہیں جن سے ایک بار نہیں چوبیس گھنٹے
فائدہ اٹھارہاہے مثلا آنکھیں ،ان سے چوبیس گھنٹے دیکھنے کا کام لے رہاہے ۔
کان، ان سے چوبیس گھنٹے سننے کا کام لے رہا ہے ۔ دماغ ، اس سے چوبیس گھنٹے
فائدہ اٹھا رہاہے ۔اسی طرح دوسری نعمتوں کا بھی تصور کریں ۔ کیا اللہ کی ان
نعمتوں کا شکریہ نہیں بنتا؟ یقینا شکریہ بنتا ہے ۔ اللہ کا شکریہ یہ ہے کہ
اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی عبادت وبندگی کی جائے جو اللہ کی بندگی
کرے گا اس کے لئے جنت اور جو نہیں کرے گا اس کے لئے جہنم ہے ۔
(4) تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ اللہ سترماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے
محبت کرتا ہے تو جب ایک ماں اپنے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تو اللہ
اس سے زیادہ محبت کرنے کے باوجود بندوں کو عذاب کیسے دیگا؟
اس بات پر ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کیا کوئی ماں پسند کرے گی کہ اس کی اولاد
اسے گالی دے، اس کو ستائے ، اس کو مارے پیٹے یا اس کے شوہر کے ساتھ براسلوک
کرے؟ آپ کہیں گے نہیں ۔
مثال کے طور پر ایک بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کردیا کیا اس کی ماں خاموش رہے
گی یا انصاف کرنا پسند کرے گی ؟ اگر واقعی اچھی ماں ہوگی ، شوہر سے محبت
کرنے والی ہوگی تو عدالت سے سزا طلب کرے گی یا خود اسے سزادےگی ۔ اسی لئے
ہم دیکھتے ہیں کہ ماں اپنے ہربچے سے یکساں پیار نہیں کرتی ہے ، جو
فرمانبردار ہو اس سے زیادہ اور جو نافرمان ہو اس سے کم پیار کرتی ہے ۔
بعینہ یہی انصاف اللہ بھی کرتا ہے ، جو ظالم ہے اسے ظلم کی سزا دیتا ہے اور
جو محسن ہے اس کو اچھا بدلہ دیتا ہے ۔ دنیا کا بھی یہی دستور ہے۔اگرآپ کے
والد یا والدہ یا گھر کے کسی فرد کو کسی ظالم نے قتل کردیا ہو کیا آپ اس کو
ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں یا انصاف طلب کرتے ہیں؟ ۔ بسااوقات دنیا کی عدالت
میں قاتلوں کو سزا نہیں ملتی بلکہ یہ کہہ لیں اکثر قاتلوں اور ظالموں کو
دنیا کی عدالت میں سزا نہیں ملتی کیونکہ دنیا میں ناانصافی ہے۔ فرض کریں اس
قاتل یا ظالم کے شکار آپ بنے ہوں جس کو دنیاوی عدالت نےکوئی سزا نہیں دی تو
کیا آپ رب سے اس کی سزا کے طلب نہیں ہوں گے؟ ۔ انسان جب دنیا کی عدالت سے
انصاف نہیں حاصل کرپاتا تو آخر میں معاملہ آسمان والے کے سپرد کردیتا ہے ۔
دنیا میں کافروں کی تعداد اسی سبب زیادہ ہے کہ اللہ نے دنیا کو امتحان گاہ
بنایا ہے بدلے کا دن تو آخرت میں ہے ۔ دنیا میں عمل کی چھوٹ ہونے کے سبب
کفر پسند لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا کیونکہ اس میں نفس کو آزادی اور
طبیعت کی من مانی ہے جبکہ اسلام میں نفس کو شریعت کے تابع بنانا پڑتا ہے ۔
اللہ کسی کے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر وشرک کرے ، اس نے شروع دن سے
انبیاء ورسل بھیج کر لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا ، جنہوں نے عبادت قبول
کی اس پہ کامیابی کی بشارت سنائی اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے جہنم
کےرسواکن عذاب سے آگاہ کیا ۔ جتنے بھی پیغمبر آئے سبھوں نے اپنی امت کو
اللہ کا پیغام سنا یاکہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک
نہ ٹھہراؤ۔ حق واضح ہونے کے بعد بھی جن لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا تو خالق
ومالک کو حق ہے کہ وہ منکرین وکافرین کو جہنم میں ڈال دے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
يَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ، وَمَا حَقُّ
العِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟»، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:
«فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلاَ يُشْرِكُوا
بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يُعَذِّبَ مَنْ
لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ
أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ؟ قَالَ: «لاَ تُبَشِّرْهُمْ، فَيَتَّكِلُوا(صحیح
البخاری : 2856)
ترجمہ: اے معاذ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے بندوں پر
کیا ہے ؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور
اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا
حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ
ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ
کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ
! کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کربیٹھیں گے ۔
ہم جہنم اور اس کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ۔ |