کرداری اعتبار سے بلاشبہ وہ بےمثال تھی۔ اب تو وہ ادھ کھڑ
تھی لیکن جوانی میں بھی کبھی کسی نے اس کے متعلق کوئی غلط بات نہ سنی تھی۔
جوان تھی خوب صورت تھی ہر لباس اس پر جچ جاتا تھا۔ ناز نخرا ادائیں سب کچھ
تھا لیکن کسی کو اس کی جانب نظر اٹھانے کی جرآت نہ ہوتی تھی۔ برے کا اس کی
قبر تک پیچھا کرتی تھی۔ غصہ کی اس وقت بھی سور١ تھی۔ اب تو خیر تجربہ کار
تھی۔ منٹ سکنٹ میں لال پیلی ہو جاتی۔ میاں اور اس کے رشتہ دار ایک طرف ہم
سایہ کی عورتیں بھی اس کے سامنے کسکتی نہ تھی۔ میدان کی بڑی بڑی یودھا اس
کے سامنے ڈھیر ہو جاتی تھیں۔
کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی مر جائے گی۔ اس کا سامنا کرتے موت کا
فرشتہ بھی کانپ کانپ جائے گا۔ بڑی حیرت کی بات تھی کہ موت کا فرشتہ اس کی
جان لے ہی گیا۔ اچھی بھلی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ صبح ہی اس نے خاتون میدان
خالہ کرامتے کی بس بس کرا دی تھی۔ سارا دن یہ ہی موضوع زیر گفت گو رہا۔ سب
حیران تھے کہ اس نے خالہ کرامتے کو بھی میدان میں چت کر دیا۔ زہے افسوس موت
کا فرشتہ میدان مر گیا۔ یہ ایک کرشمہ تھا جو ہو گیا۔
اس کا سفر آخرت شروع ہوا۔ جنازہ میں توقع سے زیادہ لوگ شامل تھے۔ ہر کسی کے
منہ سے اس کے لیے اچھا ہی کلمہ نکل رہا۔ اس کے کردار کی ہر کسی کے منہ میں
ستائش تھی۔ جنازے کی روانگی میں حسب روایت بڑی سرعت تھی۔ اچانک ارتھی کھمبے
سے تکرائی۔ کندھا دینے والوں نے نیچے تو نہ گرنے دی لیکن ایک اچھا خاصا
جھٹکا ضرور لگا کہ میت کا انجر پنجر ہل گیا۔ میت اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سب حیرت
میں ڈوب گئے کہ موت کی تصدیق تو ڈاکٹر نے بھی کر دی تھی۔ عالم برزخ تک جاتے
دھائی کے یدھ ہوئے ہوں گے۔ وہ سب کو پچھاڑ کر واپس لوٹ آئی تھی۔ بڑے بڑے
وجیتا رہے ہوں گے لیکن اس سا وجئی شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔
اب وہ پہلے سی نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا تو زیادہ تر خاموش رہتی۔ پہلے کی طرح
مرنے مارنے پر نہ اترتی۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کی اس تبدیلی پر سب
حیران تھے۔ اس سے جب کوئی اس عارضی موت کے متعلق پوچھتا تو وہ منہ کھولنے
سے زیادہ کچھ نہ کر پاتی۔ خدائی راز ہوں گے جو کہے نہ جا سکتے ہوں گے۔
اس حادثے کے بعد وہ چار سال زندہ رہی۔ نماز روزہ کی پابند ہو گئی۔ اچھے منہ
بولتی ہاں البتہ کام کاج سے موڑ گئی۔ سارا دن بیٹھی رہتی گویا پکی پکائی کی
طالب ہو گئی۔ پہلے اس کی زبان سے گھر اور باہر کے چالو تھے۔ اب باہر کسی
خاتون کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی ہاں گھر کے لوگ اس کے نکمےپن سے اکتا اور
تھک سے گئے تھے۔ وہ ان کے لیے لایعنی سی ہو گئی تھی۔
پھر ایک دن اللہ کو پیاری ہو گئی۔ محلہ کے لوگ ان کے ہاں بڑھے چلے آئے۔ گھر
کے لوگ پہلی مرتبہ کی طرح جعلی رونا دھونا کر رہے تھے۔ آخر آخری آرام گاہ
کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اب وہ موت کے فرشتے سے جنگ
نہیں کرے گی۔ اب اس کی واپسی نہیں ہو سکے گی۔ کھبے سے کچھ ہی دور سے اس کے
خاوند نے چلانا شروع کر دیا:
پہا جی کھمبا بچا کے ۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے۔۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے
کھمبا خیر خیریت سے گزرا تو اس کی زبان منہ میں پڑی۔ یہ بات سب کے لیے حیرت
کی تھی کی اب وہ یدھا نہ رہی تھی۔ وہ پہلے کی سی تھی ہی نہیں پھر اس کا
خاوند کیوں مسلسل چلائے جا رہا تھا پہا جی کمبا بچا کے۔ شاید اسے اب بھی شک
تھا کہ مرنے والی کا اس موقع پر پرانا جوش و جذبہ بیدار نہ ہو جائے۔
اسے آسودہءخاک ہوئے آج ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن لوگ اس واقعہ کو اب تک نہیں
بھلا سکے۔ کبھی کبھار اس واقعہ کا ذکر کہیں ناکہیں ہو ہی جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١- زبردست‘ بہادر |