رفیق سندیلوی اردو کی جدید نظم کے نئے اسلوب بیان‘ حسن
شعر اور شعری لوازمات کے استعمال اور فکر کے حوالہ سے اہم شاعر ہیں۔
انہوں نے انسان اورانسانی زندگی کے معاملات کو اوروں سے الگ تر دیکھا
پرکھا جانا اور پھر اسے اوروں سے الگ تر بیان کیا ہے۔ اس ذیل میں جملہ
شعری لوازمات کا بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے وہ مصوری کر رہے ہوں۔ حقائق و معاملات کی تصویریں بناتے چلے
جاتے ہیں۔ ان کی تصویروں کی گیلری میں کھو کر قاری خود بھی حیرت کی تصویر
بن جاتا ہے۔ اپنے قاری کی فکر اور توجہ پر گرفت کر لینے والا شاعر ہی
کامیاب اور زندگی کا شاعر کہلا سکتا ہے۔
ان کی نظم کا قاری پہلی اور سرسری قرآت میں حقیقی مفاہیم تک رسائی حاصل
نہیں کر پاتا بل کہ اسے لفظوٰں میں جذب ہونا پڑتا ہے۔ بہت سے عام استعمال
کے لفظ مفاہیم کے حوالہ سے عام نہیں ہوتے۔ ان میں پوشیدہ مفاہیم مستعمل
مفاہیم سے قطعی ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان کی یہ علامتی اور استعاراتی حرف کاری
قاری کے سوچ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ لفظوں کی نئی اور ممکنہ جہتوں سے
روشناس کراتی ہے۔ اپنی اصل میں یہ ہی خوبی کسی زبان کے اظہاری قوت کو واضح
کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
غالب اس وقت میں بھی اردو زبان کے کیوں بڑے شاعر ہیں‘ اس لیے کہ انہوں نے
بہت سے مستعمل اور گلی کے الفاظ کو مفاہیم کے حوالہ سے مستعمل اور گلی کا
نہیں رہنے دیا۔ گویا وہ عام سے خآص کی طرف بڑھ گئے ہیں یعنی عام کو تفہیم
کے حوالہ سے خاص کر دیا ہے۔ ان کی یہ علامتی اور استعاراتی حرف کاری قاری
کے سوچ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ لفظوں کی نئی اور ممکنہ جہتوں سے روشناس
کراتی ہے۔
مہاجر الفاظ کو بھی اس انداز سے نظم کیا ہے کہ اب وہ مہاجر نہیں رہے۔ مقامی
زبانوں کے الفاظ کو بھی اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیا۔ اردو میں نظم ہو کر
وہ اردو کے الفاظ ہو گئے ہیں۔ آتا کل ان کے لفظوں کی تہ میں پہنچ کر آج کے
انسان اس کے معاملات اور آج کے حالات کو باخوبی جان اور پہچان سکے گا۔
ہر وہ شاعر آتے وقتوں میں زندہ رہتا ہے جو اپنے عہد کی درست سے عکاسی کر
پاتا ہے۔ جہاں اس کی شاعری میں ہر قماش اور ہر طبقہ کے لوگوں کا وجود ضروری
ہے وہاں اس شخص کی زندگی کے مختلف پہلوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔
میر صاحب کے متعلق عموما کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی دکھ کے شاعر ہیں۔ اس
مقولے کی صحت پر بلامطالعہ یقین کرنا درست نہیں بل کہ اسے کھلی حماقت کا
نام دیا جا سکتا ہے۔ میر صاحب دکھ کے ساتھ ساتھ سکھ حسن و جمال اور اس عہد
کے شخص کے معاملات سے الگ تر نہیں ہیں۔ ان کے ہاں اس عہد کی تاریخ بھی ملتی
ہے۔ مثلا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
نے طاقت ہے نے یارا ہے
صید حرم کو کس کتے نے پھاڑا ہے
اس طور کے سیکڑوں شعر ان کے ہاں مل جائیں گے جو ان کی فکر کے ساتھ ساتھ اس
عہد کے شخص اور اس کے معاملات کو واضح کر رہے ہوں گے۔
رفیق سندیلوی کے ہاں بھی ہی صورتیں ملتی ہیں۔ ہاں البتہ مفاہیم تک رسائی کے
لیے سوچ میں وسعت اور گہرائی ہونی چاہیے۔ یہ بھی کہ سرسری مطالعہ سے کچھ
ہاتھ لگنے کا نہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظم نگاری پر اس عہد کے کئی اہل نقد نے خامہ فرسائی کی ہے
اور انہوں نے ان کی شاعری کے فنی خصائص کے ساتھ ساتھ ان کی فکر پر بھی قلم
اٹھایا ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظم کے مطالعہ کے ذیل میں ان اہل نقد حضرات کی
یہ آراء کسی حد تک سہی مفاہیم تک رسائی اور مطالعہ کے حظ میں ہرچند معاون
ثابت ہو سکتی ہیں۔
ستیہ پال آنند کا شمار جدید اردو نظم کے اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ
فراخ دل‘ فراخ فکر‘ فراخ نظر اور فراخ علم وفضل کے مالک ہیں۔ انہوں نے رفیق
سندیلوی کی نظم پر فکر و فن کے حوالہ سے کھل کر اور بلا تکلف بات کی ہے۔
موصوف کی بےلاگ رائے کی مدد سے رفیق سندیلوی کی فکر اور زبان کو سمجھنے کی
ذیل میں آسانی کا رستہ کشادہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے ہیت‘ زبان اور رفیق
سندیلوی کی نظم کے زمان و مکان پر جچی تلی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے
رفیق سندیلوی کی لگ بھگ ساری نظمیں موضوع‘ معنی و مفہوم اور اسلوب کی سطحوں
پر فن کارانہ تازہ کاری کی خوب صورت ًمثالیں ہیں۔ ص ١٩٨
حال اور ماضی‘ طبعی اور غیرطبعی‘ محسوساتی اور طلسماتی ایک دریا کے دو بہنے
والے دھاروں کو جوڑنے والا یہ پل صراظ رفیق سندیلوی کے ہاں ایک خاص طریق
کار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اکثر نظموں میں وہ سامنے کے الفاظ سے حاضر‘
حالیہ اور محسوساتی الفاظ سے بنائے گئے منظر نامے کی تشکیل پس منظر کے طور
پر نہیں‘ پیش منظر کے طور پر کرتا ہے۔ ص ١٩٩
رفیق سندیلوی کی نظمیں بہت تازہ دم ہیں۔ شاعر کو نظم کے آخر تک اپنے جذبوں
کو جیسے ہتھیلی پر کانچ کی گڑیا کی طرح رکھ کر سنبھالنے کا ہنر آتا ہے۔ اسے
زبان کی تخلیقی رو پر قدغن لگانے کا بھی ہنر آتا ہے جو بہت سے شاعروں کا کم
زور پہلو ہے۔ ص ٢٢٤
۔۔۔ بیٹھا شخص
ڈاکٹر شفیق انجم کو ایچ ای سی پاکستان نے بیسٹ ٹیچر ہونے کے ایوارڈ سے
نوازا۔ وہ ناصرف اچھے استاد ہیں بالغ نذر نقاد بھی ہیں۔ انہیں رفیق سندیلوی
کی نظم میں ہیتی فکری اور لسانیاتی حوالہ سے بہ طور خاص یہ دس امور نظر آئے
ہیں۔
حسی و وجدانی ادراک
نئے ترتیبی سانچے
اتصالی رنگ اور امتزاجی ذائقہ
اُسلوبیاتی جدت
وہ چھوٹے چھوٹے مصرعے
لفظوں کا انتخاب
تخلیقی عمل
مفتوح و مضموم آوازوں
اسلوب میں بلند آہنگی
فارسی اور عربی الفاظ
یہ دس امور رفیق سندیلوٰی کی فکر کو سمجھنے مٰیں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔
ان کہنا ہے
رفیق سندیلوی کی نظموں میں موجود مظاہر کا حسی و وجدانی ادراک بہت اہم ہے۔
اسی دائرے سے وہ اپنے موضوعات چنتے اور اِنھیں ایک نئے ترتیبی سانچے میں
ڈھالتے ہیں۔
......
اُن کے ہاں حال کی اشکال کبھی اپنے موجود مظاہر کے ساتھ وارد ہوتی ہیں کبھی
اِس تجریدی صورت میں جو تخیل کا زور اُنھیں سُجھاتا ہے۔
......
اُن کی نظموں میں وہ اتصالی رنگ اور امتزاجی ذائقہ در آیا ہے جس میں موجود
کا کھردرا، کٹیلا پن بھی ہے اور نا موجود کی ملائم پُراسراریت بھی۔ رفیق
سندیلوی نے یہ جوڑ اِس خوبی سے لگایا ہے کہ کسی ایک عنصر کو دوسرے سے جدا
کر کے سمجھا جانا ممکن نہیں رہا
......
رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں اُسلوبیاتی جدت سے خاصا کام لیا ہے۔
وہ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں تند بہاؤ کو روک کر ملائم اُبھاروں کے ساتھ رواں
رہتے ہیں اور یہ روانی عمودی ہوتی ہے، افقی نہیں۔
......
غنا کے تسلسُل کے ساتھ مختصر،بھر پور اور مٹھی بند مصرعے سندیلوی صاحب کی
خاص پہچان ہیں۔ اِن کی تشکیل میں اُنھوں نے لفظوں کا انتخاب بڑی عمدگی سے
کیا ہے۔
عموماً تشدید اور جزم والے الفاظ یا ایسی ترکیبیں جن میں چٹخ کی سی آواز
اُبھرے یا وہ مرکبات جو دھمک آمیز ارتعاش پیدا کریں، اُن کے تخلیقی عمل میں
خصوصیت کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔
......
وہ مفتوح و مضموم آوازوں کے شیدائی ہیں، مکسور کے نہیں۔ اِس رویے کی بدولت
اُن کے اسلوب میں بلند آہنگی بھی پیدا ہوئی ہے اور لہجے میں وہ مدوّر پن
بھی ظاہر ہوا ہے جو جاذبیت کی لے کو تیز تر کرے۔
......
فارسی اور عربی الفاظ سے استفادے نے بھی اِس سلسلے میں راہ ہموار کی ہے اور
یوں اُن کی نظموں میں اسلوب و آہنگ کا وہ روپ تشکیل پایا ہے جو اعلی سطح کے
فلسفیانہ افکار اور پیچیدہ وجدانی تجربوں کو سمیٹتا اور تمام تر رنگوں کے
ساتھ نقش کرتا ہے۔
https://samt.bazmeurdu.net/article/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D9%85-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%B4%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%A7%D9%86%D8%AC%D9%85/
دانیال طریرؔ جنہیں ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے ۔۔۔۔ اردو تنقید و تحقیق اور
تخلیق شعر و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی ۔۔۔۔
دانیال طریر : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=64827
ڈاکٹر یسین آفاقی نے رفیق سندیلوی کی نظم نگاری کے چار نمایاں پہلووں کی
نشاندہی کی ہے اور یہ چاروں پہلو مختلف امرجہ پر مختلف زاویوں سے سامنے آتے
ہیں۔ ان کے تحت کئی ایک زندگی سے وابستہ معاملات کی پوشیدہ اور کھلے طور پر
گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
یہ چار امور ملاحظہ ہوں:
رفیق سندیلوی کی نظموں میں جسم کے مختلف ایمجز کا ایک جال بچھا ہوا ہے،
رات کی تمثالوں کا ذکر بھی ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوا ہے۔
ان کی نظموں میں جسم کے ساتھ بھی رات کے مختلف پیکروں کا تذکرہ ہوا ہے
رفیق سندیلوی قدیم اور جدید زندگی کو تمثیلی طرز احساس سے دیکھتے ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظمیہ شاعری از ڈاکٹر یٰسین آفاقی
https://samt.bazmeurdu.net/article/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D9%85-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%B4%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%A7%D9%86%D8%AC%D9%85/
قرار دیا‘ جدید نذم کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بےدار مغز نقاد بھی ہیں۔
دانیل طرر نے رفیق سندیلوی کی نظم پر آٹھ امور کی نشان دہی کی ہے۔ ان میں
سے چار فکر اور چار ان کی نظم کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں.
رفیق سندیوی کی نظم کے فکری فنی اور ان کی شعری زبان پر دسترس ہونے کے
حوالہ سے یہ آٹھ امور ملاحظہ ہوں:
رفیق سندیلوی کا نظم میںَ:
ایک بدلی ہوئی فضا دکھائی دیتی ہے۔
ہر نظم ایک الگ اکائی ہونے کے باوجود ایک کُل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا یہ تاثر ریاضت اور اپنی تخلیقی ذات کی
مکمل آ گہی کے بغیر پید ا نہیں ہوتا۔
رفیق سندیلوی اپنے مرکز سے دور جا کر بھی اِس سے لاتعلق نہیں رہتا۔
.........
رفیق سندیلوی نے اپنی نظم کو مصرعوں کی طوالت، آغاز، اُٹھان اور اختتام ہر
حوالے سے معمول کی نظم سے الگ اور مختلف بنانے کی کوشش کی ہے
..........
رفیق سندیلوی کا لفظی ذخیرہ بھی دوسرے نظم نگاروں کے مقابلے میں زیادہ کثیر
ہے۔
معمول کے برخلاف لفظیات کے استعمال نے اُس کی نظم کو صوری و معنوی حوالوں
سے مختلف بنانے کے ساتھ ساتھ روانی اور غنائیت ایسی خوبیوں سے متصف کر دیا
ہے۔
…. میٹر کے تسلسل میں میانہ رفتار کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے۔
…….
رفیق سندیلوی کا شعری وجدان ۔۔ دانیال طریرؔ
https://samt.bazmeurdu.net/article/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%D9%88%D8%AC%D8%AF%D8%A7%D9%86-%DB%94%DB%94-%D8%AF%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%A7%D9%84-%D8%B7%D8%B1/
عصر جدید کے فیکشن میں اے خیام کی کارگزاری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ فیکشن
نگاری اور فیکش پرکھی میں وہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑی
دیانت داری اور بڑا قریب ہو کر رفیق سندیلوی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے اور
تیرہ بڑے اہم اور حساس امور کی نشان دہی کی ہے۔
ان کا کہنا ہے:
یہ نظمیں روا روی سے پڑھنے کی چیز نہیں ہیں۔
………
نظموں میں بھی ایک لفظ کی کمی یا بیشی نظر نہیں آئی۔ ہر لفظ موضوع کے معنی
اور مفہوم کی طرف اشارہ کرتا نظر آیا
………
نظموں نے ایک آغاز، ٹریٹمنٹ اور پھر انجام سے دوچار کیا۔ اِسی طرح رفیق
سندیلوی کی نظموں کے موضوعات بھی اپنا اسلوب خود متعین کرتے ہیں،
………
رفیق سندیلوی کو کسی بھی دوسرے شاعر یا شاعروں کے ساتھ بریکٹ نہیں کر سکتا۔
………
ہر نظم ایک پُر اسرار ا ورطلسماتی سی کیفیت رکھتی ہے
………
قاری ذرا سا بھی ٹھٹکے بغیر حیرت زدہ سا آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے
………
ہمہ وقت ایک خوشگوار تاثر سے دوچار رہتا ہے۔
………
رفیق سندیلوی نے اپنا مطمحِ نظر واضح کرنے کے لیے اساطیر اور اسطوری
کرداروں سے بھی مدد لی ہے۔
………
لوک کہانیاں، لوک گا تھائیں اور جاتکیں بھی اُس کے اُسلوب میں سما گئی ہیں۔
………
زندگی اور زندہ رہنے کی خواہش، اُمید، مجبوریاں، ولولہ، جستجو، استحصال،
ماضی، حال، جدو جہد، معاشرہ، فرد
………
اُس کی نظموں کے موضوع بنے ہیں،
………
ہر لائن کا لفظ ایک مخصوص مفہوم دے رہا ہوتا ہے
………
تمام نظمیں اپنے اندر اتنی توانائی رکھتی ہیں کہ وہ بہت کچھ لکھوا سکتی ہیں
لیکن یہ ذمہ داری شاعری کے نقادوں کی ہے۔
رفیق سندیلوی کی نظمیں‘ اے خیام
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
ڈاکٹر طارق ہاشمی نے رفیق سندیلوی کی نظم کو فکری ساخت کے اعتبار سے تین
حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان کے نزدیک ہر حصے کی ابتدا یکساں نوعیّت کے
مصرعوں سے ہوتی ہے۔
اس کی صورت ان کی زبان میں کچھ یوں ہے:
١- ہمیشہ سے وہی مخدوش حالت
٢- ہمیشہ سے وہی دوزخ کی بھاری رات
٣- ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہوں
رفیق سندیلوی کی نظم : ’’وُہی مخدوش حالت‘‘ از ڈاکٹر طارق ہاشمی
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
ڈاکٹر وزیر آغا اردو شعر و نثر میں اپنا الگ سے مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے
رفیق سندیلوی کی غزل پر لکھتے ہوئے دو بڑی اہم باتیں کی ہیں اور یہ دونوں
باتیں ان کی نظم نگاری پر بھی فٹ آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے:۔۔
رفیق سندیلوی کسی ایک دیار کا مستقل باسی نہیں ہے۔
اُس کی ذات کے اندر سے ساری جہات اور سارے فاصلے برآمد ہو کر شش جہات میں
پھیل جاتے ہیں۔
رفیق سندیلوی کی غزل‘ ڈاکٹر وزیر آغا
*یکم اپریل۱۹۹۴ء کا محررہ،وزیر آغا کا غیر مطبوعہ مضمون جو رفیق سندیلوی کی
کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ مطبوعہ منیب پبلی کیشنز، اسلام آباد۔ ۱۹۸۸ء کی
تقریبِ تفہیم میں پڑھا گیا۔
* *یہ مضمون’’ اوراق‘‘، لاہور۔ شمارہ ۱۱، ۱۲۔ سالنامہ۱۹۹۳ء اور سہ ماہی’’
تمثال‘‘ کراچی۔ شمارہ اپریل تا ستمبر۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ بعدازاں یہی مضمون
وزیر آغا کی کتاب’’ معنی اور تناظر‘‘، مکتبہ نردبان، سرگودھا۔ ۱۹۹۸ء میں
شامل ہوا۔
رفیق سندیلوٰی کی نظم نگاری کے ضمن میں وہ بڑی خون صورت اور خوشگوار رائے
رکھتے ہیں۔ انہؤں نے رفیق سندیلوی کی نظموں کو مقام سے خلق ہوتی اور لا
مقام کو مَس کرتی نظمیں کہا ہے۔
جب کہ جناب شاہد شیدائی کے نزدیک مجید امجد اور وزیر آغا کے بعد اُبھرنے
والی۔۔۔ جدید نظم کی۔۔۔۔ کہکشاں میں رفیق سندیلوی ایک درخشاں ستارے کے
مانند ہیں۔
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
عابد خورشید نے رفیق سندیلوی کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے باطور خاص
چھے امور کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے یہ بات بڑی واضح انداز میں کہی ہے کہ
رفیق سندیلوی کی نظمیں اپنے اندر مکانی و لامکانی اور سماجی و کائناتی
عناصر لیے ہوئے ہیں۔ گویا رفیق سندیلوی صرف اکائی سے وابستہ نہیں بل کہ وہ
پورے سماج سے جڑا ہوا شاعر ہے۔ بات ہیاں تک محدود نہیں اس کے فکر کا
دائرہءپرواز پوری کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ وہ صرف شخس ہی کا شاعر نہیں کائنات
کی دوسری مخلوقات اور اشیاء کے امور و معاملات سے اس کی شاعری تہی نہیں ہے۔
عابد خورشید کا کہنا ہے:
رفیق سندیلوی مقامی اور لامقامی دنیاؤں سے فن کارانہ سطح پر جُڑا ہوا ہے۔
اُس کی نظموں میں سماجیاتی اور کائناتی تصورات مل کر ایک دائرہ بناتے ہیں۔
وہ باہر کے مناظر کو اپنے اندر جذب کرنے کے باوجود اُنھیں تشکیک کی نظروں
سے دیکھتا ہے
عابد خورشید نے رفیق سندیلوی کی نظموں کے عنوانات کے متعلق کہا ہے کہ وہ
موتیوں کی لڑی کی طرح ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ ان کے عنوانات میں لفظوں کی
نشت وبرخواست اس طور کی ہے کہ غنائیت کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ گویا وہ
غنائیت کے حوالہ سے محاکات ترکیب و تشکیل دیتے چلے جاتے ہیں۔
خورشید عابد کا کہنا ہے:
اُس کی نظموں کے عنوانات بھی ایک لڑی میں موتیوں کی طرح پروئے ہوئے دکھائی
دیتے ہیں۔
………
رفیق سندیلوی کی تمام نظموں کے عنوانات میں ردھم ہے۔
………
غنا سے امیجری، امیجری سے اُسلوب اوراُسلوب سے مفہوم تک، خوبیاں کا یہ
تنوّع ایک ایسے شاعر ہی میں ہو سکتا ہے جوبہ یک وقت اپنے کلچر اور اپنی
شخصیت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور اپنے عہد کا درّاک بھی ہو اور مُدرّک
بھی۔
………
عابد خورشید نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ رفیق سندیلوی کی نظموں کا مطالعہ کھلی
آنکھوں سے کرنا پڑتا ہے۔ گویا دیدہءبینا ہی اس کی نظموں کی حقیقی تفہیم تک
رسائی حاصل کر پاتی ہے۔
لکھتے ہیں:
رفیق سندیلوی کی نظموں پر قلم کے بجائے آنکھوں سے لکھنا پڑتا ہے۔ گویا نظر
کی روشنائی سے کام لینا پڑتا ہے۔ اُس کی نظمیں جہانِ دیگر سے جہانِ رنگ و
بو میں اِس طرح منتقل ہوتی ہیں کہ کھردراہٹ سے نرماہٹ تک کا فاصلہ ریزہ
ریزہ ہو کر پاؤں میں بچھنے لگتا ہے۔
غار میں بیٹھا شخص ۔۔۔۔ رفیق سندیلوی از عابد خورشید
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
خاور اعجاز کا رفیق سندیلوی کی نظموں کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ جز سے کل
کی طرف مراجعت کرتی ہیں یعنی اکائی کا دائرہ کئی زمانوں پر محیط ہو جاتا
ہے۔
لکھتے ہیں:
نظم کا کینوس ایک شخص یا ایک لمحہ کے گرد گھومتے ہوئے بھی کئی زمانوں پر
محیط ہو گیا
رفیق سندیلوی کی نظموں کی نشت و برخواست کے بارے میں ان کا کہنا ہے:
رفیق سندیلوی کی نظموں میں جہاں اسلوب کے اور بہت سے محاسن ہیں وہاں خارجی
زندگی کو داخل کے جھروکے سے دیکھنے کا عمل ایک خاص شاعرانہ مہارت کے ساتھ
واقع ہوا ہے۔
رفیق سندیلوی کی نظم ’’ غار میں بیٹھا شخص‘‘ کا تجزیہ‘ خاور اعجاز
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
حنیف سرمد نے رفیق سندیلوی کے ہاں دو امور کا کھوج لگایا ہے۔ یعنی
اؤل- رفیق سندیلوی نے پیراسائیکالوجی کے عملی مظاہر یعنی مراقبہ، حبسِ دَم،
شمع بینی اور نفسِ مستاویہ وغیرہ کی ریاضتوں سے استفادہ کیا ہے
دوئم اُن کے فکر و فن میں مابعد الطبعیاتی فکر کا گہرا اثر ہے۔ تخیل کی
پرواز اور وجدان کی رفعت سے وہ خاطرخواہ کام لیتے ہیں۔
’’یہ سجیلی مورتی ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ‘ حنیف سرمد
https://lib.bazmeurdu.net/%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%82-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA/
رشید نثار کے نزدیک رفیق سندیلوی نے اپنی شاعری میں ماضی کے طلسماتی اطوار
سے رشتہ استوار کرکے حال کے لیے باکل الگ سے رومانی فضا مہیا کی ہے۔ ممکن
ہے اس حوالہ سے یہ طور کسی ناکسی سطح پر نئی رومانی تحریک کا سبب بن جائے۔
رشید نثار کا یہ بھی موقف ہے کہ رفیق سندیلوی نے عصر حاضر کے روحانی افلاس
کو بھی نمایاں کیا ہے اور اس کی دوری کے لیے تجرباتی فضا پیدا کرنے کی سعی
کی ہے۔
اس کا یہ کہنا ہے کہ رفیق سندیلوی کو اظہار پر پابندی خوش نہیں آتی۔ اس کی
تین سطعیں ہوتی ہیں
سوچنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
سوچیں جنم لیں لیکن غلط کو غلط کہنے کی صورت میں مصیبت و وبال ٹوٹ پڑیں۔
فکری قحط
ا- سوچ محدود ہوجائے۔
٢- مخصوص دائرے میں رہ کر سوچا جائے۔
٣- شخص ذات تک محدود ہو جائے۔
٤- سوچا ہی مخصوص مقصد کے لیے جائے۔
٥- لاپروائی کی صورت پیدا ہو جائے
رشید نثار کے نزدیک رفیق سندیلوی نے سوچ کے نئے افق پیدا کیے ہیں اور اس
ضمن میں کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے اس ذیل میں اسالیب کے
پرانے اطوار مسترد کر دیئے ہیں۔ رشید نثار نے ایک بڑا اہم اور انسانی ترقی
کے ضمن میں رفیق سندیلوی کی شاعری میں نقطہ تلاشا ہے۔ خواہشات کا دائرہ
محدود نہیں ہوتا۔ خواہش کی پرواز زمین سے اسمانوں کی وسعتوں تک پرواز کرتی
ہے۔ یہ خواہش ہی کچھ یا کچھ سے زیادہ یا بہت زیادہ کر لینے کا سبب بنتی ہے
رشید نثار کا کہنا ہے۔
رفیق سندیلوی نے عہدِ عتیق کے طلسمات اور اساطیری روایات سے منسلک ہو کر
ایک نئی اور تازہ رومانی تحریک کو پیدا کرنے کی سعی کی ہے
.........
اور عہدِ موجود کے روحانی افلاس کا مُداوا وجدانی تجربات کی روشنی میں تلاش
کیا ہے۔
.........
رفیق سندیلوی اظہار میں آزادی کی کمی کو پسند نہیں کرتا۔
.........
وہ فکری انتشار کے عہد میں افسردہ اور اُداس بھی نہیں۔
........
رفیق سندیلوی نے ذہنی تحفّظ کے احساس کی روشنی میں وجوہات کو بُنیاد فراہم
کی ہے اور اپنی ذات سے متفق ہو کر ایک پُر عزم کائنات پیدا کر دی ہے۔
........
رفیق سندیلوی اپنے عہد کے مقبول اسالیب اور موضوعات کو مسترد کر کے نئی سوچ
کی بُنیاد ڈال کر اپنے آپ کو ادبی سفر میں زندہ رکھنا چاہتا ہے۔
........
انسانی خواہش زمیں کی کوکھ سے لے کر آسمانی وسعتوں تک ناممکن کو ممکن بنانے
میں کامیاب ہوتی ہے۔ اِس کامیابی اور اِس تحریک کا سہرا رفیق سندیلوی کے سر
سجتا ہے۔ واقعی شاعری کی سطح پر فلکیات اور ارضیات کی سائنس میں ایک نئی
دستک اور ایک نئی دھمک کا احساس منصۂ شہود پر آیا ہے۔
........
رفیق سندیلوی اور ان کی شاعری‘ رشید نثار
ابوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧
|