علم و عرفان، اخلاق و تصوف اور سائنس و فلسفہ کے لحاظ
سے امام محمد غزالی (۴۵۰ھ- ۵۰۵ھ) کی ذات منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔
چوتھی صدی ھجری کے وسط میں جب کہ آپ دنیاے آب و گل میں تشریف لائے فلسفۂ
یونان کا بڑا شہرہ اور غلغلہ تھا۔ مسلم سلاطین نے علمی و تعلیمی خدمات کے
سلسلے میں فلسفہ کو توجۂ خاص سے نوازا۔ فلسفۂ یونان جو کبھی کا مردہ ہو چکا
تھااسے جب عربی پیرھن زیب کیا گیا تو اس کے افکار کے لا دینی پہلو بھی رفتہ
رفتہ مسلم فلاسفہ کے ذہنوں کو بانجھ بنانے لگے اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ
مذہب سے بے زاری اور روحانی زوال نے معاشرے کو اپنی آماج گاہ بنالیا۔
امام غزالی نے الحاد و بے دینی کے خلاف کام یاب علمی و قلمی جہاد کیا اور
فلاسفہ کے نظریات باطلہ کی تردید میں دلایل و براھین سے کام لے کر فکر و
نظر کی درستی و اصلاح کا کام کیا، اس طرح وہ فکر جو روح کو داغ دار بنا چکی
تھی اپنی موت آپ مر گئی اور اسلامی علوم کا سویرا ہوا۔صدیوں کے دوش پر حیات
انسانی کا کارواں آگے بڑھتا گیا۔ ایجادات و اختراعات نے فلسفہ کا نیا تصور
قایم کیا جس میں خیر کم اور شر زیادہ ہے، اس لیے فکرِ غزالی کی آج بھی اتنی
ہی ضرورت ہے جتنی کہ عہدِ غزالی میں تھی لیکن بہ قول اقبالؔ
رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
سلفِ صالحین کے مواعظ و ارشادات اور ملفوظات و نصایح قوم کی فکری و اعتقادی
نیز عملی تربیت میں نشانِ منزل ہوتے ہیں۔ صوفیا کے دعوتی مشن کا جائزہ لے
لیجیے۔ ان کی حیات کی ورق گردانی کر لیجیے۔ مواعظ و ارشادات کے دوش پر ہی
انھوں نے حق کا پیغام دیا اور دلوں کی ویراں دنیا میں حق کی رونق دوڑا دی۔
امام محمد غزالی نے جہاں فکر و عمل کو بے دار کیا وہیں اپنی تحریروں کے
ذریعے شریعت اسلامیہ پر عمل کی ترغیب و تحریک پیدا کی اور ایسی راہوں سے
بچنے کی تلقین کی جو گم راہ کر دے، حق سے رُو گرداں کر دے، دین سے دور لے
جائے۔ تصوف کے باب میں آپ کا لفظ لفظ خوش بو اور حرف حرف مشک بو ہے…… اس
مضمون میں ہم امام غزالی کی کمیت میں مختصر اور کیفیت میں جامع تصنیف ’’ایھاالولد‘‘
سے چند اصلاحی گوشے پیش کریں گے۔ یہ تصنیف علم و عمل اور اخلاق و صوفیانہ
تربیت کا مرقع ہے اور ایسی پاکیزہ و ستھری فکر کی حامل کہ مطالعہ سے نگاہیں
خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور دل نور نور ہوئے جاتے ہیں۔ امام غزالی نے ناصحانہ
اسلوب میں جو گراں مایہ اقوال سلکِ تحریر میں پروے انھیں اختصار کے ساتھ
درج کیا جاتا ہے۔ جن میں خود احتسابی کی دعوت ہے، اصلاحِ فکر وعمل ہے،
کردار سازی کی تلقین ہے، ایمان کی درستی کی تعلیم ہے:
ایمان کی تعریف: ایمان کی تعریف یہ ہے کہ زبان سے تسلیم کرنا، دل سے تصدیق
کرنا اور ارکان اسلام پر سرگرم عمل ہونا۔
اطاعت و عبادت: جان لے کہ رسولِ خدا اشرفِ انبیا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کے اوامر و نواہی کی پیروی کا نام اطاعت و عبادت ہے۔ خواہ اس کا تعلق گفتار
سے ہو یا کردار سے۔
شریعت: تیرا قول اور عمل شریعت کے مطابق ہونا چاہیے کیوں کہ علم اور عمل
شریعت کی مطابعت کے بغیر گم راہی ہے۔
شانِ عبودیت کے اجزاے ترکیبی: (۱) احکام شریعت کی پابندی کرنا۔ (۲) قضا و
قدر کے آگے سرِ تسلیم خم کر کے تقسیم الٰہی پر راضی ہونا۔ (۳) اﷲ تعالیٰ کی
رضا کے لیے اپنی ہر خوشی ترک کر دینا۔
رضاے الٰہی: اخلاص کے معنی یہ ہے کہ تیرے اعمال و اطوار کا قبلہ رضاے الٰہی
ہو، نہ تو تیرا دل لوگوں کی تعریف و توصیف کا خواہاں ہواور نہ ہی ان کی
ملامت سے ترساں۔
حسد: حاسد اپنے قول و عمل سے خرمنِ علم کو نذرِ آتش کر دیتا ہے، فرمانِ
سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہے: ’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا
ہے جیسے آگ لکڑی کو۔‘‘
استاذ کی ضرورت: راہ نوردِ شوق کے لیے کسی ایسے مرد راہ شناس کا وجود ضروری
ہے جو اس کی رہ بری بھی کرے ، تربیت بھی دے اور اسے بد اخلاقی کی پستیوں سے
اُٹھا کر اعلیٰ اخلاق کی بلندیوں پر فایز کر دے۔
علم: کیفیاتِ قلب سے آگاہی فرض عین ہے اور علوم سے شناسائی فرض کفایہ، باقی
علوم تو اسی قدر جاننے چاہئیں جن سے اﷲ تعالیٰ کے فرایض و احکام بہ طریق
خوبی انجام دیے جا سکیں، اﷲ تعالیٰ تجھے علم حقیقی حاصل کرنے کی توفیق
مرحمت فرمائے۔
بے عملی: شعور و آگہی کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں کو اتنا بھی پتا نہیں
کہ جب وہ حصولِ علم کے بعد اس پر عمل نہیں کریں گے تو یہ بے عملی ہی ان کے
خلاف واضح دلیل بن جائے گی۔
عمل: تُو حصولِ علم پر سو سال بھی صرف کر دے اور ہزارہا کتابیں جمع کر لے
پھر بھی جب تک اس پر عمل نہیں کرے گا، انعام خداوندی و رحمتِ الٰہی کا
سزاوار نہیں ہو سکتا۔
سلوک کی منازل: تجھے نام نہاد صوفیا کی فریب کاری و شعبدہ بازی سے دھوکا
نہیں کھانا چاہیے کیوں کہ سلوک کی منزلیں تو مجاہدہ کی چکی سے خواہشاتِ
نفسانی کو، اور ریاضت کی شمشیر بے نیام سے ہوا و ہوس کو نیست و نابود کرنے
سے طے ہوتی ہیں، نہ کہ کشف و کرامات سے اور نہ غیر مفید حرکات و سکنات سے۔
وعظ کا مقصد: پند و وعظ کا مقصد اولیں تو یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کو دنیا
سے آخرت، سرکشی سے بندگی، بخل سے سخاوت اور غرور سے تقویٰ کی طرف دعوت دی
جائے۔ اور دنیا کی نسبت آخرت سامعین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو جائے۔
جاہل واعظ: ایسا واعظ اپنی تقریر کی فریب کاری سے لوگوں کو تباہی و بربادی
کی طرف لے جانے والا ہے اس سے دوری بہتر ہے کیوں کہ دین کو نقصان جتنا ایسے
واعظ پہنچاتے ہیں اتنا شیطان نہیں پہنچا سکتا۔
(غزالیِ عصر امام احمد رضا محدث بریلوی نے اسی فکر کی ترجمانی چودھویں صدی
ھجری میں کی اور جاہل واعظین کو وعظ کہنا شریعت کی رُو سے حرام قرار دیا……
ہوتا یہ ہے کہ ناواقف واعظ سے جب کوئی شرعی مسئلہ پوچھتا ہے تو وہ اپنی
بنانے کے لیے کچھ کا کچھ بتا دیتا ہے۔ اور علم سے عاری ہونے کے سبب فتنہ کا
باعث بنتا ہے۔)
صوفی: تصوف کے دو سپہر ہیں، استقامت اور خلق سے دُوری۔ جس نے استقامت کی
راہ اختیار کی اور مخلوق سے برد باری و حسن سلوک سے پیش آیا تو وہ ’’صوفی‘‘
ہے۔
جزا یا سزا: تیرا مقصدِ حیات جتنا بھی دراز ہو بالآخر تجھے دامنِ خاک میں
جذب ہونا ہے، جسے چاہے فرش دیدہ و دل پر بسا لے اور سجا لے آخر اس سے
بچھڑنا ہے اور جو بھی چاہے عمل کر اس کی جزا یا سزا پانا ہے۔
پیغام: روح کو بال و پر دے، نفس کو شکست دے اور جسم کے انگ انگ میں موت کو
موجود گمان کر کیوں کہ قبر تیری منزل ہے، شہرِ خموشاں کے باسی ہر آن تیرے
منتظر ہیں، آگاہ رہنا، کہیں تہی کیسہ عازمِ سفر نہ ہونا۔
ان نکات میں امام محمد غزالی علیہ الرحمہ نے وہ اسرار و رموز بیان کیے ہیں
کہ جن پر عمل کر لیا جائے اور انھیں طاقِ حیات پر سجا لیا جائے تو’’من‘‘ کی
دنیا میں روشنی پھیل جائے گی اور گلشنِ حیات کی فضا معطر ہو اُٹھے گی۔ |