’بدلا ہے رنگ میخانے کا‘

ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویشناک اور تکلیف دہ ہے ،چند دنوں قبل بھوپال جیل سے فرار کچھ قیدیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ،انکا انکاونٹر پہیلی ثابت ہوا ،جو آج تک سلجھ نہیں پایا ،لکڑی کی چابی سے تالا کھول کر سارے ملزم فرار ہوئے ،سب کے پاس ہتھیار نکلے ،مرنے والے فوجی کے سینہ سے کوئی اور گولی نکلی ،اور ریوالور سے کوئی اور گولی نکلی ،سب کے جوتے ، کپڑے قیدیوں سے کہیں عمدہ ونفیس تھے ۔ ان سوالات سے ابھی تک پردہ بھی نہیں اٹھا تھا کہ اسی درمیان چند دن بعد خالصتانی تحریک کے چند مجرم فرار ہوئے ،ہتھیار ان کے پاس سے بھی برآمد ہوئے لیکن گولیوں نے ان کے سینوںکو زخمی نہیں کیا ،ان میں سے کسی کا بھی انکاونٹر نہیں ہوا ،سب زندہ سلامت پکڑ لئے گئے ،اور معاملہ دبا دیا گیا۔ نہ ہی کوئی نیوز بنی نہ ہی کوئی اینکر چلا اور نہ اس کے تار جوڑے گئے۔ گزشتہ دنوں لکھنو میں اسی طرح کا معاملہ سامنے آیا ہے ،سیف اللہ نامی ایک طالب علم کو پولیس نے مار گرایا ،ایک نوجوان سے پولیس کے ساتھ بارہ گھنٹے تک لڑتے رہا ،اور اس پر قابو نہ پا سکے ،یہ ایسا سوال ہے ،جو ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں اٹھنا لازمی ہے ،تنہا سیف اللہ نے پولیس پر 12 گھنٹے گولیاں کیسے برسائیں پولیس کی مانیں تو سیف اللہ سیف اللہ کے چھ پستول اگر یہ سارے گولیوں سے بھرے ہوئے تھے ،اور سب لوڈیڈ تھے ،پھر بھی ایک شخص بغیر کسی فطری حاجت کے مسلسل فائر کرتا رہا ،اور اس نے اتنا موقع ہی میسر نہیں آنے دیا کہ اسے زندہ گرفتار کیا جاسکے ،اور حقائق کی ٹوہ میں لگا جاسکے ،6پسٹلس 72گولیاں ہوسکتی ہیں ،جنہیں چھوڑنے کے لئے طاقت ہمت اور ایک خاص ٹرینگ کی ضرورت ہوتی ہے ،یقینی طور سے یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے ،پولیس نے اپنی کہانی میں اس کی کہیں وضاحت نہیں کی ،اور نہ یہ ثابت کیا کیسے وہ ایک شخص سے اتنے خوف زدہ ہوئے ،کہ اسکا زندہ گرفتار ہونا ناممکن سمجھ بیٹھے ،پولیس کی یہ کہانی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے جس کے جوابات خدا جانے کب میسر ہوں گے،مگر ایک ماں نے اپنا لال اور ایک باپ نے اپنے بڑھاپے کاسہارا کھودیا ہے ،حالانکہ اس کے باپ نے سچے ہندوستانی ہونے کا فریضہ انجام دیا ہے ،اور اسے اپنا ماننے اس کی آخری رسومات ادا کرنے سے بھی انکار کردیا ہے جو خود میں ایک بہت بڑی قربانی ہے ،اور ہندوستان کو صحیح سوچ و فکر عطا کرنے کی نایاب کوشش ہے ،مگر سیف اللہ دہشت گرد تھا یا نہیں ،یہ انکاونٹر حقیقی ہے یا فرضی اس سلسلے میں اعلی تحقیقاتی اداروں کی مدد لی جانی چاہئے اور حقیقت کھوج کرید کر باہر لانا چاہئے ،اگر یہی ہوتا رہا تو ہندوستان میں مسلمانوںکاقیام انتہائی مشکل ہوگا ،اور کبھی عبدالقیوم کبھی منہاج،کبھی خالد مجاہد کبھی طارق اس طرح سے مسلمانوں کی زندگیوں کو جہنم بنایا جاتا رہیگا ،اور خاموش تماشائی بنے رہیں گے ،خود بھی انہیں مجرم تسلیم کرتے رہیں گے ،اور ملک و ملت کے لئے بڑے خسارے کا باعث ہونگے ۔

سلطان ٹیپو ،ابوالکلام آزاد ، علی برادران ، مہاتما گاندھی ، بھگت سنگھ جیسے متوالوں نے ہندوستان میں پھیلے ہوئے غلامی کے بھیانک اندھیرے کو شکست دی تھی ،اور عوام کو آزادی کی روشن وخوبصورت فضاعطا کی تھی ،آزاد ملک کی بنیادیں بھائی چارہ ،محبت و اخوت ، ہمدردی ، پیار ومحبت قرار پائی تھیں ،نہ وہاں فرقہ بندی اور نہ ہی فرقہ پرستی کا گزر تھا ،مگر وقت گذرتا رہا ،اور نفرت کی تاریک گھٹائیں ہندوستان پرچھاتی رہیں، نفرت وتعصب ، بغض و عناد ملک میں بسنے والے کچھ فرقہ پرست عوام کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنے لگا ۔ آئے دن ایسے ہولناک اور بھیانک واقعات رونما ہونے لگے ،جنہوں نے انسانوں کو حیوان اور نفرت کا پجاری بنا دیا ،چشتی اجمیری ،رام لکشمن کا ملک اب آسارام ،سادھوی ،جیسے لوگوں کے خیالات کا غلام ہوگیا ،سیاست میں آدتیہ ناتھ ، ساکشی جیسے متعصب اور نفرت کے سوداگروں کی زبانیں دراز ہوئیں اور یہ سلسلہ یہیںپر نہیں رکا ،بلکہ ہندوستان کے حفاظتی اور انتظامی دستوں میں بھی اس مرض کے جراثیم گھر کر گئے اور آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہونے لگےجس نے ہندوستان کی سیکولر ازم کا قلعی کھولنے کا سبب فراہم کیا۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں ،انہیں غلاظتیں کھانے پر مجبور کیا گیا ،نازک اعضاء کو اذیتوں کا نشانہ بنایاگیا،ان کے ساتھ حیوانوں اور درندوں سا سلوک کیا گیا ،اور انہیں دہشت گرد ، ملک دشمن قرار دیا گیا ،مگر جب عدالت نے ان لوگوں کو سالہاسال کی مدت گذرنے کے بعد بری کیا ،تو وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت چکے تھے ،جس کا تصور بھی روح فرسا اور قلب شکن ہے ،اگر ان کی حیات کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو پڑھا جائے ،تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ،لیکن یہ سلسلہ اب یہیںپر تھمانہیں بلکہ اب چند دنوں سے تو موقعہ واردات پر ہی مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دینے کا چلن عام کیاجارہا ہے،اور عدلیہ ،تحقیق و تفتیش جرائم کی نوعیت ملک کا مفاد سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا جارہاہے ۔نہ یہ فکر کہ مرنے والا اپنے سینہ میں کیا کیا راز دفن کئے ہوئےہے ،اور نہ مجرم و ملزم ہونے کا فرق ،اور نہ جمہوریت کے مندر کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت ۔

ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویشناک اور تکلیف دہ ہے ،چند دنوں قبل بھوپال جیل سے فرار کچھ قیدیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ،انکا انکاونٹر پہیلی ثابت ہوا ،جو آج تک سلجھ نہیں پایا ،لکڑی کی چابی سے تالا کھول کر سارے ملزم فرار ہوئے ،سب کے پاس ہتھیار نکلے ،مرنے والے فوجی کے سینہ سے کوئی اور گولی نکلی ،اور ریوالور سے کوئی اور گولی نکلی ،سب کے جوتے ، کپڑے قیدیوں سے کہیں عمدہ ونفیس تھے ۔ ان سوالات سے ابھی تک پردہ بھی نہیں اٹھا تھا کہ اسی درمیان چند دن بعد خالصتانی تحریک کے چند مجرم فرار ہوئے ،ہتھیار ان کے پاس سے بھی برآمد ہوئے لیکن گولیوں نے ان کے سینوںکو زخمی نہیں کیا ،ان میں سے کسی کا بھی انکاونٹر نہیں ہوا ،سب زندہ سلامت پکڑ لئے گئے ،اور معاملہ دبا دیا گیا۔ نہ ہی کوئی نیوز بنی نہ ہی کوئی اینکر چلا اور نہ اس کے تار جوڑے گئے۔ گزشتہ دنوں لکھنو میں اسی طرح کا معاملہ سامنے آیا ہے ،سیف اللہ نامی ایک طالب علم کو پولیس نے مار گرایا ،ایک نوجوان سے پولیس کے ساتھ بارہ گھنٹے تک لڑتے رہا ،اور اس پر قابو نہ پا سکے ،یہ ایسا سوال ہے ،جو ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں اٹھنا لازمی ہے ،تنہا سیف اللہ نے پولیس پر 12 گھنٹے گولیاں کیسے برسائیں پولیس کی مانیں تو سیف اللہ سیف اللہ کے چھ پستول اگر یہ سارے گولیوں سے بھرے ہوئے تھے ،اور سب لوڈیڈ تھے ،پھر بھی ایک شخص بغیر کسی فطری حاجت کے مسلسل فائر کرتا رہا ،اور اس نے اتنا موقع ہی میسر نہیں آنے دیا کہ اسے زندہ گرفتار کیا جاسکے ،اور حقائق کی ٹوہ میں لگا جاسکے ،6پسٹلس 72گولیاں ہوسکتی ہیں ،جنہیں چھوڑنے کے لئے طاقت ہمت اور ایک خاص ٹرینگ کی ضرورت ہوتی ہے ،یقینی طور سے یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے ،پولیس نے اپنی کہانی میں اس کی کہیں وضاحت نہیں کی ،اور نہ یہ ثابت کیا کیسے وہ ایک شخص سے اتنے خوف زدہ ہوئے ،کہ اسکا زندہ گرفتار ہونا ناممکن سمجھ بیٹھے ،پولیس کی یہ کہانی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے جس کے جوابات خدا جانے کب میسر ہوں گے،مگر ایک ماں نے اپنا لال اور ایک باپ نے اپنے بڑھاپے کاسہارا کھودیا ہے ،حالانکہ اس کے باپ نے سچے ہندوستانی ہونے کا فریضہ انجام دیا ہے ،اور اسے اپنا ماننے اس کی آخری رسومات ادا کرنے سے بھی انکار کردیا ہے جو خود میں ایک بہت بڑی قربانی ہے ،اور ہندوستان کو صحیح سوچ و فکر عطا کرنے کی نایاب کوشش ہے ،مگر سیف اللہ دہشت گرد تھا یا نہیں ،یہ انکاونٹر حقیقی ہے یا فرضی اس سلسلے میں اعلی تحقیقاتی اداروں کی مدد لی جانی چاہئے اور حقیقت کھوج کرید کر باہر لانا چاہئے ،اگر یہی ہوتا رہا تو ہندوستان میں مسلمانوںکاقیام انتہائی مشکل ہوگا ،اور کبھی عبدالقیوم کبھی منہاج،کبھی خالد مجاہد کبھی طارق اس طرح سے مسلمانوں کی زندگیوں کو جہنم بنایا جاتا رہیگا ،اور خاموش تماشائی بنے رہیں گے ،خود بھی انہیں مجرم تسلیم کرتے رہیں گے ،اور ملک و ملت کے لئے بڑے خسارے کا باعث ہونگے ۔

منکول نے قومی رہنمائوں اور ملی قائدین سے کیا ہی سوال پوچھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ٹھوس ثبوت ومعتبر گواہوں کی گواہی کے باوجود اسیما نند جیسے اقبالیہ مجرم رہا ہوجاتے ہیں؟ کیا کبھی سوچا آپ نے؟ نہیں!!! وہ اس لیے کہ انکی تنظیمیں، ان کے افراد متحد ہیں اس لئے وہ گنہگار ہوتے ہوئے بھی رہائی پالیتے ہیں۔۔۔لیکن وہیں ہمارے نوجوان بے قصور ہوتے ہوئے بھی ناکردہ گناہوں کی سزا برسوں تک جیلوں میں بھگتنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ہمارے درمیان اتحاد نہیں ۔۔۔اور سب سے بڑی وجہ ہم خود ان پکڑے گئے؛ سازشوں کے شکار مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد مانتے ہیں تو ان کی رہائی کےلئے خاک کوشش کریں گے؟ وہیں ان اقبالیہ مجرمین کی تنظیمیں ان کے دہشت گرد ہونے کے باوجود انہیں بے قصور گردانتے ہیں اسی لیے وہ انہیں رہا کرانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔! خیر اب ہمارے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں رہنا پڑے گا کیوں کہ میڈیا ، ملک کی پولس اور بے ضمیر سیاست داں اپنی سیاست چمکانے کے لئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ ہوگیاہے اس لئے اب ان پکڑے گئے نوجوانوں کوجیل کی سلاخوں سے بھی دور کردیا گیا اور موقع ملتے ہی ان کا انکائوٹر ہوجاتا ہے اور تمام مسلم تنظیمیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہتی ہیں کہ یہ افتاد ہم پر تو نہیں پڑی وہ دہشت گرد تھا انکائونٹر ان کا نصیب ۔ ہمیں اس سےکیا مطلب؟

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68929 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.