پھٹیچر کون ۔۔۔۔ ؟

5 مارچ پاکستان کی تاریخ کاایک ایسا دِن تھا جو پوری قوم کو نہ صرف متحد کر گیا بلکہ دہشت گردوں کو یہ پیغام بھی دے گیا کہ
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل
طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے

قوموں کی تاریخ میں ایسے دِن ہمیشہ یادگار ہوتے ہیں ۔ پشاور زَلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرکے درمیان اِس میچ میں ہار اور جیت کا تو سوال ہی نہیں تھا ، اصل مقابلہ تو قومی یکجہتی ، عزم و ہمت اور دہشت گردی کے مابین تھا جس میں پاکستان جیتا اور دہشت گرد ہار گئے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پی ایس ایل 2 کے فائنل کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ، اِن ابلیسیت کے علمبرداروں کو تو انشاء اﷲ ہم چُن چُن کر ماریں گے اور مارتے چلے جائیں گے جب تک کہ یہ دھرتی اُن کے ناپاک وجود سے پاک نہیں ہو جاتی۔

روشنیوں سے جگمگاتے قذافی سٹیڈیم لاہور میں یہ میچ صرف لاہور نہیں ، پورے ملک میں کھیلا جا رہا تھا ۔ شاید ہی کوئی شہر یا قصبہ ایسا ہو جہاں بڑی بڑی سکرینیں نہ سجائی گئی ہوں ۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ قذافی سٹیڈیم کے چاروں طرف سکیورٹی کا سخت حصار قائم کیا گیا ہے لیکن دیگر شہروں اور قصبوں میں تو ایسا کوئی انتظام نہیں تھا اِس کے باوجود لوگ آئے ، بھنگڑے ڈالتے آئے ، خوشیاں مناتے آئے اور دہشت گردی کے خوف سے بے نیاز ہو کر آئے ۔ یہ جذبہ ، یہ جوش ، یہ جنون یا تو ستمبر 65ء کی جنگ کے دوران دیکھنے میں آیا یا پھر 5مارچ 17ء کو ۔ دشمن تَب بھی وہی تھا ، اب بھی وہی ، فرق صرف اتنا کہ تب کھلی جنگ تھی اور اب بزدل دشمن چھپ کر وار کر رہا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کو اسلحہ اور پیسہ کون دے رہا ہے ، اُن کی ٹریننگ کون کر رہا ہے اور دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے کِس کا ہاتھ کارفرما ہے؟ ۔ حیرت تو اُن ’’اپنوں‘‘ پر ہے جو دشمن کی بولی بولتے ہوئے گھر آئے مہمانوں کی توہین کے مرتکب ہوئے ۔

پے دَر پے خود کُش حملوں کے بعد ہر کسی کو یقین ہو چلا تھا کہ اب شاید لاہور میں
پی ایس ایل 2 کا انعقاد ممکن نہ ہو کیونکہ’’ رونقِ محفل‘‘ غیرملکی کھلاڑی بظاہر بَد دِل نظر آتے تھے ۔ اُدھر کپتان صاحب نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ بیان داغ دیا کی پاکستان میں پی ایس ایل 2 کا فائنل کروانا پاگل پن ہے جس سے غیرملکی کھلاڑیوں میں مزیدبَددلی پھیلی ۔ بھارتی میڈیا نے کپتان صاحب کے اِس بیان کو خوب اچھالا ۔ مقصد اُن کاصرف یہ تھا کہ پاکستان میں اِس فائنل کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے اور بھارت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے ۔ کیون پیٹرسن کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ تو پاکستان جا کر کھیلنے کو تیار تھے لیکن جب اُن کے بیوی بچوں نے کپتان صاحب کا بیان سُنا تو اُنہوں نے پاکستان آنے سے منع کر دیا۔ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل نے بھی پاکستان جا کر نہ کھیلنے کا اعلان کر دیا ۔ پشاور زلمی کے کپتان ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی نے کہا کہ اُنہوں نے اپنی ماں اور بہنوں سے مشورہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اُسے پاکستان ضرور جانا چاہیے ۔ اُدھر عمران خاں متواتر بیان پہ بیان داغ رہے تھے کہ فوج کی نگرانی اور کرفیو کے حصار میں اِس میچ سے بہادری نہیں ، بُزدلی کا پیغام جائے گا حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی ، کوئی بھی میچ ہو تو سکیورٹی کے بھرپور انتظامات کیے جاتے ہیں ۔ کپتان نے یہ سوچا تک نہیں کہ ایسے بیانات دیتے ہوئی وہ نریندر مودی کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جس کی شدید ترین خواہش ہے کہ پاکستان میں یہ فائنل نہ کھیلا جا سکے ۔

کپتان صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ پوری قوم اور ساری سیاسی جماعتیں اِس میچ کے انعقاد کے حق میں ہیں حتیٰ کہ خیبر پختون خوا میں اُن کی حلیف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی بذاتِ خود یہ میچ سٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کا اعلان کر چکے ہیں ، شیخ رشید بھی اِس میچ کو پاکستان کی عزت و توقیر کا مسٔلہ سمجھتے ہوئے میچ دیکھنے لاہور آ رہے ہیں اور خاں صاحب کی اپنی سیاسی جماعت بھی اِس میچ کے حق میں ہے ، پھر مخالفت’’ چہ معنی دارد‘‘ ۔ لیکن ضِد کے پکے کپتان صاحب اپنی بات پہ اڑے رہے ، یہ الگ بات کہ اُن کی ہاں میں ہاں ملانے والا کوئی بھی نہ تھا ۔ قذافی سٹیڈیم میں میچ ہوا اور پورے تزک و احتشام سے ہوا ۔ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی اپنے دو وزیر میچ دیکھنے کے لیے بھیجے ۔ میچ کے کامیاب انعقاد کے بعد خاں صاحب کو یہ چاہیے تھا کہ وہ پوری قوم کو مبارک باد دیتے اور اگر ایسا کرتے ہوئے اُنہیں جھجک محسوس ہوتی تھی تو کم از کم خاموش ہی رہتے لیکن اُنہوں نے پاکستان آنے والے غیرملکی کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر‘‘ کہہ دیا ۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو اُنہوں نے یہ کہہ کر شرمندگی ٹالنے کی کوشش کی کی پی ایس ایل میں تو نامی گرامی کھلاڑی ہی نہیں تھے ، ایسے پھٹیچرتھے جن کو کوئی جانتا تک نہیں۔

سمجھ سے بالا تَر ہے کہ کپتان صاحب نرگسیت کے کِس درجے پر ہیں کہ جنہیں سوائے اپنی ذات کے اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اُنہوں نے 1992ء کا ورلڈکَپ کیا جیتا ، وہ اپنے آپ کو آسمان سے اُتری ہوئی مخلوق سمجھنے لگے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ92ء کا ورلڈ کَپ تقدیر نے ہماری جھولی میں ڈالا کیونکہ ہم تو کپتان صاحب کی کپتانی میں اپنا سب کچھ ہار کر تقدیر کے سہارے بیٹھے تھے ۔ یہ میچ صرف عمران خاں نہیں بلکہ پوری ٹیم نے جیتا تھا جس میں جاوید میاں داد ، انضمام الحق اور وسیم اکرم جیسے عظیم کھلاڑی بھی شامل تھے جنہوں نے اِس جیت کا کریڈٹ لینے کی کبھی کوشش نہیں کی البتہ عمران خاں اِس کا سارا کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈالتے رہتے ہیں۔ جن کھلاڑیوں کو وہ پھٹیچر کہتے ہیں اُن میں ڈیرن سیمی بھی شامل ہے جس نے خاں صاحب سے زیادہ میچ کھیلے اور دو دفعہ T-20 ورلڈ کپ بھی جیتا ، جس نے کہا کہ وہ پاکستانیوں کے چہروں پر خوشیاں لانے کے لیے آیا ہے اور جو پی ایس ایل ٹو کی فاتح پشاور زلمی کا کپتان ہے ، جس کے لیے وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے دو کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کر رکھا ہے ۔ کرس جورڈن دُنیا کے دَس عظیم کھلاڑیوں میں شامل ہے لیکن کپتان صاحب تو اُس سے واقف ہی نہیں ۔ پی ایس ایل ٹو میں عظیم ترین سَر ویون رچرڈ بھی شامل تھے جنہیں پاکستان اور پاکستانیوں سے بے پناہ پیار لاہور کھینچ لایا لیکن عمران خاں کے نزدیک تو ’’ یہ سب پھٹیچر تھے جنہوں نے ویسے ہی آ جانا تھا‘‘ ۔ ایسے تضحیک آمیز الفاظ سے صرف مہمان کھلاڑیوں ہی نہیں ، پوری قوم کی بھی توہین ہوئی ۔ اخلاقیات کا تو تقاضہ یہ ہے کہ خاں صاحب معافی مانگتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لیں لیکن اُنہوں نے نہ ایسا پہلے کبھی کیا ، نہ اب کریں گے ۔ اپنی ضِد ، ہَٹ دھرمی اور نرگسیت میں وہ اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ پی ایس ایل ٹو کے کامیاب انعقاد کے بعد جب آئی سی سی نے پاکستان میں ورلڈ الیون کے ستمبر میں چار میچز کروانے کا اعلان کیا تو خاں صاحب نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا کہ کہیں یہ بھی تو پھٹیچر کھلاڑی نہیں ۔

پی ایس ایل کے چیئر مین نجم سیٹھی کہتے ہیں’’ عمران خاں کو اپنے جملوں پر شرم آنی چاہیے ۔ اُنہوں نے کھلاڑیوں کو افریقہ سے لانے کی جو بات کی ، اِس سے زیادہ نسل پرستانہ جملے کبھی نہیں سُنے۔ وہ پاکستانیوں اور ہمارے رنگ کی عزت نہیں کرتے ۔ اُنہیں گوری چمڑی سے کچھ زیادہ ہی پیار ہے ۔ خاں صاحب سفید فاموں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر سٹیڈیم میں بم پھٹ جاتا تو عمران خاں خوش ہوتے کہ اُن کی بات صحیح ثابت ہوئی۔ وہ طالبان جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ طالبان کے لیے اُن کی ہمدردیوں کا ایک بیک گراؤنڈ بھی رہا ہے ‘‘۔ عمران خاں کے اِن الفاظ سے ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی برہم ہے جس کا اظہار پرنٹ ، الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کیا جا رہا ہے ۔ سبھی کہہ رہے ہیں کہ پھٹیچر وہ نہیں جو ہمارے مہمان تھے اور محض پاکستانیوں سے محبت اُنہیں کھینچ لائی بلکہ پھٹیچر تو وہ ہے جس کی اتنی گھٹیا سوچ ہے ۔ ایسا بیان دے کر خاں صاحب نے اپنی رہی سہی عزت بھی کھو دی۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 645271 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More