چیئرنگ کراس لاہور میں خودکش دھماکے کے بعد باجوڑکے رہنے
والے گرفتار سہولت کار انوار الحق نے دوران تفتیش بتایاکہ اس کے پاس کل چھ
خودکش جیکٹس تھیں ۔ چار جیکٹیں اس نے سانحہ یوحنا آباد ، سانحہ گلشن اقبال
اور سانحہ چیئر نگ کراس میں حملہ آواروں کو فراہم کیں جبکہ دو جیکٹیں اگلے
ٹارگٹ میں استعمال کرنی تھیں جو گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے
اپنے قبضے میں لے لیں ۔ اس نے مزید بتایا کہ سانحہ چیئرنگ کراس سے قبل ایک
دربار پر حملہ کرنے کاٹاسک ملا تھا لیکن بعد میں تبدیل کرکے کہاگیا جہاں
پولیس افسران اکٹھے ملیں وہاں حملہ کردو ۔ چیئر نگ کراس میں یہ موقعہ مل
گیا ۔ ایک طرف یہ انکشافات تو دوسری جانب خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی
پرویز خٹک کی زہر آلود دھمکیاں اور بھڑکیں انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ان کا لب
و لہجہ تکلیف دہ ۔ وہ گزشتہ دنوں لاہور آئے اورپختونوں کے ایک جرگے سے خطاب
کرتے ہوئے کہا ۔شہبازشریف باز آجاؤ ، پختونوں کو نہ ستاؤ ۔ پختون دہشت گرد
نہیں اگر وہ قربانیاں نہ دیتے تو دہشت گرد تمہارے گھروں تک پہنچ چکے ہوتے ۔ایسا
ہی بیان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دے چکے ہیں کہ پنجاب
میں پختونوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک سے وفاق کمزور ہوگا ۔جبکہ بلوچستان
اسمبلی نے بھی بلوچوں کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اس کے باوجود
کہ جماعت اسلامی کی پالیسی ہمیشہ صوبائی تعصب سے بالاتر رہی ہے لیکن بطور
امیر مولانا سراج الحق نے تاریخ میں پہلی مرتبہ منصورہ لاہور میں پختونوں
کا جرگہ بلاکر جماعت اسلامی کے منشور اور روایات سے یکسر مختلف اقدام کیا ۔
زہر انڈیلنے میں وہ پرویز خٹک سے بھی آگے نکل گئے ۔انہوں نے منصورہ میں
پختون جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وہی زہر آلود باتیں کیں جو پرویز خٹک کرچکے
تھے ۔ چند دن پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق آرمی کے جوانوں
نے صوابی کے قریب دہشت گردوں کوجب پکڑنا چاہا تو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے
پاک فوج کے ایک کیپٹن جنید اور سپاہی امجدکوشہید کوکردیا ۔جبکہ ہلاک ہونے
والے دہشتگردوں میں ماجد سکنہ( صوابی) ، یوسف عرف چھوٹا خالد اور جواد جو
خیبرپختونخواہ کے ہی علاقے (ملک آباد) کے رہنے والے تھے ۔ میں یہ بات وزیر
اعلی خیبر پختونخواہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا فوج کے افسر اور جوانوں کو
شہید کرنے والے دہشتگرد بھی فرشتے تھے ۔ اب اس سے اگلی خبر ملاحظہ فرمائیں
پنجاب میں سرچ اور کومبنگ آپریشن کے تحت درجنوں مشکوک افراد کو حراست میں
لے کر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا ۔ملتان سے آنے والی رپورٹ کے مطابق
گرفتار ہونے والوں میں خانیوال سے قاری محمداقبال ، شیراز رسول شامل تھے
جبکہ حافظ آباد سے قریب ایک گاڑی کی تلاشی کے دوران بھاری اسلحہ پکڑا گیا
ملزمان کا تعلق پنجاب کے علاقے حافظ آباد سے بتایاگیا۔یہ ملزمان قبائلی
علاقوں سے اسلحہ لاکر پنجاب کے دہشت گردوں کو فروخت کرتا تھا ۔کہنے کامقصد
یہ ہے کہ دہشت گردوں کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے اور نہ شناخت۔ اگر پنجاب کے
لوگ پنجابی دہشت گردوں اور مجرموں کو معصوم قرار دے کر، سندھی عوام، سندھی
دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو ہیرو بنا کر ، بلوچی عوام ، بلوچ لبریشن
آرمی کو معصوم قرار دینے لگے تو کیا اس طرح پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ
سکے گا ۔ کیا پاکستان کی بری ، بحری اور فضائی افواج اس طرح یکجا رہ سکے گی
۔ دلوں میں تھوڑی سی بھی دراڑ پڑ جائے تو پھریہ دراڑ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔
قومی یکجہتی اور سا لمیت کے خلاف زہراگلنے والے 1971ء کے سانحے کو کیوں
بھول جاتے ہیں۔ جب بنگالیوں بے اعتبار اور مشکوک ٹھہرے توافواج پاکستان کے
تینوں اداروں کوناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا ۔ نفرتوں کے بیج اگر زمین میں
بوئے جائیں گے تو پھول نہیں کانٹے ہی اگتے ہیں ۔گھر کی حفاظت گھر کے افراد
ہی کرتے ہیں کوئی باہر سے آکر نہیں بچاتا اگر گھر کے افراد ہی باہم دست
گریبان ہوجائیں تو اس گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا ۔ پاکستان ہمارا
گھر اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ جس طرح پنجاب ، سندھ ،
بلوچستان ، کے پی کے اور گلگت کے لوگ پاکستان کے محافظ ہیں اسی طرح افواج
پاکستان میں بھی پٹھان پنجابی سندھی بلوچی ، گلگتی اور کشمیری شامل ہیں جو
پاکستان کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں۔ خدانہ کرے پرویزخٹک ، محمود
اچکزئی ، مولانا سراج الحق اور اسفند یار ولی جیسے مکروہ لوگوں کا سایہ بھی
ان پر پڑے ۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو کیا پاک فوج دنیا کی عظیم فوج رہ
سکے گی۔ اگر فوج نہ رہی تو کیا ہم سب آزاد اور باوقاررہ سکیں گے ۔بھارت اور
امریکہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ ہم یہ
سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر نفاق اور نفرت کے اس راستے پر چل رہے ہیں جو
انتشار اور بربادی کی طرف جارہاہے ۔ ذمہ دار حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں کو
بات کرنے سے پہلے تولنا پھر بولنا چاہئیے ۔کہنے والے تو اب یہ بھی کہتے ہیں
کہ عمران اور الطاف حسین کے زہر آلود بیانات میں اب کوئی فرق نہیں رہ
گیا۔وہ کراچی بند کرنے ، عمران پاکستان بند کرنے کی دھمکیاں دیتے
ہیں۔پاکستان سپرلیگ ٹو کافائنل لاہور میں ہونا اعزاز تھالیکن عمران خان نے
پہلے اسے پاگل پن قرار دیا اب چہرہ بگاڑ کر کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں۔کیا
عمران سمیت یہ زہر آلود باتیں کرنے والے قانون سے بلندترہیں ، کیا ان کی
زبان کو حلق سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔اگر الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ
بن سکتا ہے تو عمران ، پرویز خٹک ، محمود اچکزئی ،اسفند یار ولی پر کیوں
نہیں بن سکتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی آستین میں
کتنے ہی ملک دشمن چھپے بیٹھے ہیں جوموقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور پاکستان
کی یکجہتی اور سلامتی کے خلاف روززہر اگلتے رہتے ہیں اور قانون کی گرفت سے
محفوظ بھی رہتے ہیں ۔ کیا وزیراعظم کی حیثیت سے وطن عزیز کا تحفظ کرنا
فرائض میں شامل نہیں ہے ۔ |