ہر پریشانی کا حل

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے! موجودہ دور میں جب بھی آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو زیادہ چہرے پریشان حال نظر آئیں گے جن کے چہرے پر ایک عجیب سی افسردگی چھائی ہوگی آپ کسی بھی بندے کے اندر کو کھول لیں دکھوں اور غموں کی ایک طویل ترین داستان آپ کو سننے کو مل جائے گی۔ ہر مسکراہٹ کے پیچھے آپ کو ایک افسردگی ضرور سنائی دے گی جس طرح کہ ناصر کاظمی صاحب کہتے ہیں:
ان ہنستے ہونٹوں کے پیچھے کتنے دکھ ہیں ہم سے پوچھ
ہم نے دیکھے ہیں ویرانے انٹر کانٹی نینٹل میں

تو موجودہ دور میں آپ کو کئی ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے کہ جو اپنے غموں کی پوٹلیاں اٹھائے کسی نہ کسی کندھے کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جس پہ سر رکھ کر وہ اپنا دکھڑا سنا سکیں۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر غموں کا علاج صرف دولت ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط ہے اگر دولت سے تمام غم پریشانیاں دور ہو جاتیں تو شاید پھر ان بڑی بڑی کوٹھیوں میں اتنی افسردگی نہ چھائی ہوتی اگر دولت سے غم اور پریشان دور ہو جاتے تو یورپی ممالک میں پریشانیوں کے حل کے لیے لاکوں کتابیں نہ چھپتیں۔

اگر ہم آج سے کچھ عرصہ پیچھے جائیں اور اپنے تھوڑا عرصہ پہلے کے انسان کے چہرے پہ اتنی پریشانی نہیں ہوتی تھی جو آج کے تقریباً ہر انسان کے چہرے پہ نظر آتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ہر انسان کے پاس اپنے دوسرے بھائی کی سننے کے لیے وقت ہوتا تھا اور آج کے دور میں آپ کو ایک دو سے تین سال کا بچہ بھی کسی نہ کسی پریشانی میں نظر آئے گا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس کی سن سکیں۔ ہمارے آج اس کو ایک بیماری کہا جاتا ہے اور میرے خیال میں ہمارے ہاں تقریباً99%لوگ اس بیماری کا شکار ہوں گے۔ اور اس بیماری کا نام آج ہم ٹینشن دیتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میری نظر سے ایک کتاب گزری جس کا نام ’’پریشان ہونا چھوڑئیے جینا شروع کیجیے‘‘تھا جو ڈیل کارنیگی کی لکھی گئی تھی اور غالباً ایک پاکستانی رائٹرز نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا تو اس کتاب کا نام پڑھ کر مجھے کچھ تجسس ہوا تو میں نے وہ کتاب لی اور اس کو پڑھا تو اس کتاب میں ڈیل کارنیگی نے لوگوں کو پریشانی سے بچنے کے لیے مختلف واقعات تحریر کیے تھے اب اب واقعات کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا اس کتاب میں زیادہ واقعات ایسے تھے جن میں کسی شخص کی آب بیتیاں تھیں۔مثلاً ایک شخص اپنا مسئلہ بتاتا ہے کہ اسے فلاں فلاں مسائل تھے جن کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتا لیکن پھر میں نے ٹینشن لینا چھوڑ دی اور اس بات پر سوچنا شروع کر دیا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا تو ایسا ہوا کہ میرے سارے مسائل حل ہوگئے اور بعد میں مجھے اس بات کا ندازہ ہوا کہ میں ایسے ہی ٹینشن میں مبتلا تھا۔ تو کچھ اس طرح کے واقعات تھے جو ڈیل کارنیگی نے اس کتاب میں لکھے تھے اور زیادہ کوشش اس نے یہ کی کہ بتایا کہ بس ٹینشن لینا چھوڑ دو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات پڑھ لینے سے ایک غمزدہ انسان کی زندگی پر کچھ اثر نہیں پڑتا کیونکہ ہم خود اس کو ایک بیماری کا نام دے رہے ہیں پوری دنیا میں آج ٹینشن کے خلاف مہم جاری ہے ہمارے سنڈے میگزین ایسی کئی اشتہاروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ جس میں کبھی کسی ہومیوپیتھک کی جانب سے اور کبھی کسی ڈاکٹر یا کسی حکیم کی جانب سے اور سب سے بڑھ کر کسی سائیکالوجسٹ کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ 100%کامیاب علاج۔ لیکن اس کا علاج کس طرح کیا جاتا ہے کہ صرف اس شخص کو کہہ لیں کہ ایک سہارا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا دکھ بیان کرے اور جب وہ اپنی پریشانی بتا دیتا ہے تو اسے چند ادویات تھما دی جاتیں ہیں۔

ہمارے ہاں یہ ایک بہت رواج ہے کہ ہم کسی بھی بیماری کا علاج تو کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن اس بات کی کھوج نہیں لگاتے کہ آیا وہ شخص اس بیماری میں پھنسا کیسے۔ کیا ایک صحت مند اور خوش باش انسان نشے کی طرف قدم اٹھائے گا نہیں نہ۔ اس طرح نشے کی طرف قدم وہی اٹھاتا ہے کہ جس اندر کا پن مر چکا ہوتا ہے جس کو پریشانی میں کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا اگر دولت سے پریشانی کا حل ہوتا تو ہمارے بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے افراد رات کو نیند کی گولیاں لے کر نہ سوتے۔ تو اس کے علاج کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی اس پریشانی کی کھوج پہلے لگائی جائے اور اس غم کا سب سے بہترین علاج جو ہے وہ ہے اطمینان ایک امید ایک یقین اگر ہم اسی طرح کے واقعات لکھ کر یہ کہنا شروع کردیں کہ پریشانی لینا ہی چھوڑ دیں مسئلہ حل ہو جائے گا تو یہ صحیح نہیں کیونکہ اس بات پر عمل کرنے کے لیے ایک سہارے کی ضرورت ہے ایک ایسا سہارا کہ جس کے بعد واقعی وہ بندہ کہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو جائے تو وہ سہارا ہمیں ہمارا سب سے مہربان خدا اپنی پاک کلام میں پیش کرتا ہے جو تمام پریشانی کا حل بتاتا ہے۔ صرف ایک آیت کہ وَاُفَوّضُ اَمرِیْ اِلَی اللّٰہ کہ میں اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں تو ذرا غور کریں کتنی پیاری اور کتنے سہارے والی بات ہے کہ ایک بندہ مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہے کہ اس کے فلا ں کام کا کیا بنے گا فلاں کا کیا تو اچانک ایک آواز آتی ہے کہ تو یہ سب کچھ اپنے رب کے اوپر کیوں نہیں چھوڑ دیتا تواس شخص کے اندر اب ایک امید اور ایک سہارا پیدا ہوگا کہ اب جو ہونا ہے ہوجائے اور پھر وہ بندہ کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے یہ پریشانی ہے مجھے نہیں پتہ کہ اب میرے ساتھ کیا ہوگا میں نے یہ کام تمہارے سپرد کیا۔

تو جب کوئی بندہ اپنی شدید مشکلات کو صرف یہ کہہ کر مطمئین کرتا ہے تو اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس نے جس ذات کے سپرد کیا ہے اس کے ہاتھ میں اب ساری گیم ہے وہ مجھے مایوس تو کر ہی نہیں سکتا۔ اور جب کوئی شخص کسی ایسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی پریشانی اپنے اللہ کے آگے پیش کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے ہو سکتا ہے کسی بندے کا وسیلہ بنا دے کہ جس کے ذریعے یہ ہوتا ہے کہ اس بندے کو ایک سہارا مل جاتا ہے کہ جس کو وہ اپنا سارا دکھ بیان کرسکے۔ اب جب وہ بندہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کی مدد کی تو پھر اس کے اندر خود بخود بعض اوقات ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح میرے رب نے میری مدد کی اسی طرح میں اس کے بندوں کی مدد کروں گا۔

تو ہمارے جو اکثر چہرے پریشان زدہ نظر آتے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنے رب کو اپنا دکھ یا پریشانی نہیں بتائی اگر بتائی بھی ہے تو صرف شکوہ کے طور پر کہ کیا اس دکھ کے لیے ایک میں ہی رہ گیا تھا۔ میں جب بھی کسی بزرگ کے دربار پہ گیا تو میں نے وہاں ایک کثیر تعداد عورتوں کی دیکھی جو اپنے اپنے غم کی پوٹلیاں اٹھائے وہاں جوک درجوک آرہی ہوتی ہیں۔ ہمارے ایک چیز بہت عام ہوئی ہے کمپیوٹر اور موبائل کہ جس کے ذریعے لوگ چیٹنگ کر کے ایک دوست بناتے ہیں تو میرا ایک دوست تھا جس کا بڑا بھائی سرا دن چیٹ پہ لگا رہتا تو میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ تم یہ چیٹ کیوں کرتے ہو کہنے لگا اس طرح مجھے ہر قسم کے لوگوں سے ملنے کا فائدہ ہو جاتا ہے اور ہم ایک دوسرے سے اپنی باتیں شیئر کر لیتے ہیں تو میں نے اس سے کہا کہ کیا تم نے کبھی اپنے رب سے چیٹ کی تو وہ میری طرف حیرانگی سے دیکھنے لگا تو میں اکثر کہتا ہوں کہ کبھی جب اکیلے بیٹھے ہوں اور کوئی پاس نہ ہو تو پھر اس رب سے چیٹ کر کے دیکھو اور اس سے اپنے دکھ شیئر کر کے دیکھو تو پھر دیکھنا تم کو کتنا مزہ آتا ہے۔ جب انسان اس اللہ کو دوست بناتا ہے اور پھر اس سے چیٹ کرتا ہے کہ یا اللہ میں ایک غموں کا مارا ہوں پریشانیاں بہت ہیں کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گے تو پھر جب اس بندے کو پریشانی آتی ہے تو وہ اپنے اس دوست کو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے یہ پریشانی ہے مجھے نہیںپتہ کہ میرے ساتھ کیا ہوگا میں یہ پریشانی آپ کے سپرد کرتا ہوں اب تو جان یا تیرا کام۔ تو جب ہم اللہ کو دوست بناکر اس کے ساتھ چیٹنگ کریں گے کہ یا اللہ اے میرے اللہ تو تو میرا سب سے اچھا دوست ہے نا مجھے یہ پریشانی کھائے جا رہی ہے تو میں آج تیرے ساتھ یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں تو یقین کیجیے کہ آپ کے اندر سکون کی ایک بہت اچھی لہر پیدا ہوگی اور آپ کو یقین ہوگا کہ اب میرا یہ مسئلہ ضرور حل ہوگا کیونکہ اس بار امید کے ساتھ آپ کو وہ سہارا بھی مل رہا ہے جس کو آپ یقین کا سہارا کہتے ہیں۔
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13772 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More