- کیا شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں
آسکتا ہے:
فرمایا: "فان الشیطان لا یتمثل صورتی"
بیشک شیطان میری (رسول اللہ کی) صورت میں نہیں آسکتا
(بخاری، 6197)
یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ بات توبالکل صحیح ہے کہ شیطان نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت تو اختیار نہیں کر سکتا مگر شیطان کسی بزرگ کی
شکل میں آکر گمراہ تو کرسکتا ہے، اورجھوٹ بھی بول سکتاہے، یہ پابندی تو
اسپر کسی نے نہیں لگائ اسلیے جو شخص یہ دعوی کرے کے اسنے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اس سے پوچھا جاۓ گا کہ اسنے نبی کریم کو
کیسے دیکھا، اور یہ عمل ابن عباس کا بھی تھا.
- جنات اور شیاطین کا جانوروں کے ساتھ ربط:
قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الصَّلاَةِ فِي
مَبَارِكِ الإِبِلِ فَقَالَ "لاَ تُصَلُّوا فِي مَبَارِكِ الإِبِلِ
فَإِنَّهَا مِنَ الشَّيَاطِينِ". وَسُئِلَ عَنِ الصَّلاَةِ فِي مَرَابِضِ
الْغَنَمِ فَقَالَ " صَلُّوا فِيهَا فَإِنَّهَا بَرَكَةٌ ".
اونٹ پر شیاطین کا اثر ہو سکتا ہے اسلیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھنے سے منع کیا. جبکہ بکریوں کے ریوڑ یا باڑے میں
نماز پڑھنے کی اجازت دی، کیونکہ اسمیں برکت ہے
(سنن ابی داؤد، رقم: 493 و اسنادہ صحیح. ابن ماجہ، رقم: 768 واسنادہ حسن)
بعض جانوروں کو شیطان دکھائ دیتا ہے: -
وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ
الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا ".
جب گدے کی آواز سنو تو اللہ سے پناہ مانگو کیونکہ اسنے شیطان کو دیکھا
(بخاری 3303)
کتے کا رات کو بھونکنا اور شیطان:-
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلاَبِ وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ
فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لاَ تَرَوْنَ " .
جب تم رات کو کتوں کا بھونکنا اور گدھوں کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ طلب
کرو بلاشبہ یہ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے ہو
(سنن ابی داؤد، رقم: 5103 و اسنادہ حسن ابن خزیمہ نے صحیح کہا، حاکم نے شرط
مسلم پر کہا اور ذھبی نے بھی اسمیں ایک روایت کی موافقت کی)
انسان کا جنات کو دیکھنا:
انسان کا جنات کو دیکھنا محال نہیں ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَىَّ الْبَارِحَةَ ـ أَوْ
كَلِمَةً نَحْوَهَا ـ لِيَقْطَعَ عَلَىَّ الصَّلاَةَ، فَأَمْكَنَنِي
اللَّهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي
الْمَسْجِدِ، حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ،
فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي
لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ". قَالَ رَوْحٌ فَرَدَّهُ خَاسِئًا.
گزشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا. وہ میری نمازمیں خلل ڈالنا
چاہتا تھا. لیکن اللہ نے مجھے اسپر کا بو دے دیا. اور میں نےسوچا کہ مسجد
کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ تم سب اسے صبح دیکھو. پھر مجھے
اپنے بھائ سلیمان کی دعا یاد آئ.راوی حدیث کہتے ہیں پھر نبی کریم نے اس
شیطان کو ذلیل کر دھتکار دیا
(صحیح بخاری،رقم: 461)
اس حدیث میں عفریت کا لفظ آیا
امام بخاری اسکو بیان کرتے ہیں: متمرد من انس او جان
کہ عفریت وہ ہوتا ہے جو انسانوں یا جنات میں سے بہت طاقت والا سرکش ہو.
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ کسی کو طاقت و قدرت دے تو جنات کو پکڑنا
محال نہیں اور ایسا ممکن ہے. مگر یاد رہے ایسے بابا اور پیر صاحبان جو عام
طور پر دعوی کرتےہیں وہ سب جھوٹ ہوتا ہے. جنات ایسے لوگوں کے لیے کام کرتے
ہیں تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں اور شرک و کفر میں ڈال دیں
جنات کے جانور بھی ہوتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ
الْقُرْآنَ".قَالَ فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ
نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ " لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ
اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ
لَحْمًا وَكُلُّ بَعَرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ " . فَقَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " فَلاَ تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا
طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ".
مفہوم: میرے پاس ایک دعوت دینے کے لیے جن آیا تو میں اسکے ساتھ گیا. تو میں
نے ان پر قرآن پڑھا. صحابی کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ہم کو لے کر گیے اور وہ
جگہیں اور آثار دکھائیں. اور ہم کو انکی آگ کے نشان بتاۓ. ان جنات نے اللہ
کے نبی کو کہا ہمیں کچھ توشہ دیجۓ. تو اللہ کے نبی نے ان سے کہا ہر وہ ہڈی
جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ میں گوشت والی بن کر آۓ گی.
اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کے لیے کھانا ہوگا. تو اللہ کے رسول نے صحابہ
سے کہا دیکھو تم اس سےاستنجہ مت کرنا (یعنی ہڈی و گوبر سے) اسلیے کہ یہ
تمہارے (جنات) بھائیوں کا کھانا ہے
(مسلم: 450)
اس سے ثابت ہوا کہ جنات اور انکے جانور ہیں اور وہ ہڈی وگوبر انکی غذا ہے
- اچھے جنوں کی خوراک:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ،
فَسَأَلُونِي الزَّادَ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ لَهُمْ أَنْ لاَ يَمُرُّوا
بِعَظْمٍ وَلاَ بِرَوْثَةٍ إِلاَّ وَجَدُوا عَلَيْهَا طَعَامًا ".
مفہوم: میرے پاس نصیبین کے جن آۓ. اور کتنے اچھے جن تھے وہ. تو انہوں نے
مجھ سے توشہ مانگا میں نے انکے لیے اللہ سے دعا مانگی کہ جب بھی ہڈی یا
گوبر پر سے وہ گزریں تو وہ انکے لیے کھانا ملے.
(صحیح بخاری،رقم: 3860)
گویا اس سے کوئ یہ نہ سمجھے کہ اللہ کے رسول جنوں کو دے سکتے ہیں تو ھمیں
یہ نہیں دے سکتے؟ بلکہ اللہ کے رسول نے اللہ سے دعا کی
برے جنوں (شیاطین) کی خوراک:
إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ وَإِذَا شَرِبَ
فَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ
وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ " .
تم میں سے کوئ بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھاۓ نہ پیے اسلیے کے شیطان بائیں ہاتھ
سے کھاتا ہے بائیں ہاتھ سے پیتا ہے.
(صحیح مسلم،رقم: 2020)
اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی ہے.
انسان کی خوراک میں شیطان کا شریک ہونا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ
وَعِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ لاَ مَبِيتَ لَكُمْ وَلاَ عَشَاءَ
. وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ قَالَ
الشَّيْطَانُ أَدْرَكْتُمُ الْمَبِيتَ . وَإِذَا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ
عِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ أَدْرَكْتُمُ الْمَبِيتَ وَالْعَشَاءَ".
مفہوم: جب تم میں سے کوئ اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنے داخل ہوتے وقت
اور کھاتے وقت میں اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے) کہتا ہے
تمہارے لیے یہاں رہنے کا بھی کوئ انتظام نہیں ہے اور کھانے کا بھی نہیں ہے.
اور جب وہ آدمی داخل ہوتے وقت اور کھاتے وقت بسم اللہ نہیں کہتا تو شیاطین
کہتے ہیں رہنے اور کھانے کا انتظام ہوگیا
(صحیح مسلم،رقم 2018)
یہاں یاد رہے کہ جنت کی مختلف اقسام ہیں کوئ گھر میں غسل خانہ میں ہوتا ہے،
کوئ جن ہر وقت ساتھ ہوتا ہے کوئ ذکر سے بھاگ جاتا ہے اور کوئ ذکر میں خلل
ڈالتا ہے. تو اگر ایک شخص بسم اللہ کہ کر گھر میں داخل ہوا تو ایک قسم کے
جنات تو الحمد للہ داخل نہ ہوے مگر دوسری قسم کے جنات جو گندگی میں رہتے
ہیں، وہ پھر بھی موجود ہیں اور ان سے بچنے کا دوسرا طریقہ ہے، واللہ اعلم۔
اسی حدیث سے محدث الشیخ البانی رحمہ اللہ نے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ کھڑے ہو
کر پانی پی لینا جائز نہیں ہے اور بغیر بسم اللہ کے کھانا بھی صحیح نہیں.
- بغیر عضر کے کھڑے ہوکر پانی پینا:
سمعت ابا ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لرجل رآہ یشرب قائما قء
قال لم؟ قال اتحب ان تشرب مع الھر؟ قال لا! قال فقد شرب معک شر منہ الشیطان
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے روایت کی: اللہ کے نبی نے ایک آدمی کو کھڑے ہوکر پانی پیتے
دیکھا. آپ نے اس سے کہا الٹی کر. اسنے کہا: کیوں؟آپ نے فرمایا: کیا تم پسند
کرتے ہو تم اور بلی ایک ہی برتن میں پیو؟ اسنے کہا: نہیں! اسلیے کہ تمہارے
ساتھ بلی سے برا نے پیا ہے یعنی شیطان نے
(رواہ احمد، رقم: 7943، اسی قسم کی روایت سنن دارمی، رقم: 2174 میں بھی ہے،
جلد: 2 صفحہ: 110، مترجم نسخہ، صحیح سند، انصار السنۃ پبلیشرز لاہور، الشیخ
البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں درج کیا)
اس سے معلوم ہوا کہ بلا کسی شرعی عزر کے کھڑے ہوکر کھانا بہتر نہیں، اور
یہی تطبیق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی کی ہے، واللہ اعلم
- شیطان کا پیشاب کرنا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى
الله عليه وسلم رَجُلٌ نَامَ لَيْلَهُ حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ " ذَاكَ
رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ ـ أَوْ قَالَ ـ فِي أُذُنِهِ
".
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو رات بھر دن چڑھے تک سویا
پڑا رہتا ہے. آپ نے فرمایا کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے کان یا دونوں کانوں میں
شیطان نے پیشاب کر دیا (صحیح بخاری، رقم: 3270) علماء مثلا تابعی سفیان
ثوری نے کہا:
مفہوم: یہ روایت اپنے الفاظ کا ہی معنی رکھتی ہے اور اس سے کچھ دوسرا مراد
نہیں ہے.
دوسرے علماء کی راے:
https://the-finalrevelation.blogspot.com/2013/01/explaining-hadith-satan-urinated-in-ear.html
افسوس ہے کہ کئ لوگ دنیاوی صفائ کا بہت خیال رکھتے ہیں مگر وہ صبح کی نماز
کا احتمام نہیں کرتے. دیکھیں کہ شیطان کون سا عمل کہاں کر رہا ہے؟ اللہ ھم
پر رحم فرماۓ، آمین.
جنات میں شہوت:
اللہ تعالی نے فرمایا:
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا
جَانٌّ ﴿٥٦﴾ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥٧﴾
مفہوم: وہاں (شرمیلی) نیچی نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن یا
انسان نے نہ ہاتھ لگایا ہوگا
(سورۃ رحمن 55 آیت: 56)
یہاں علماء نے استدلال کیا ہے جنات میں شہوت ہوتی ہے جیسا کہ چھونے کا ذکر
ہے اگر شہوت نہ ہو تو اس بات کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت؛ اس آیت کے بعد جن و
انس کے ذکر سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ انسانوں کی طرح جنات میں بھی
شہوت ہے، واللہ اعلم
دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے شیطان کو فرمایا:
وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ.."
مفہوم: کہ انکے مال واولاد میں شریک ہوجا.."
(سورۃ الاسراء 17 آیت: 64)
علماء نے اسکی مختلف کیفیات بتائیں کہ حرام سے مال کمانا، اولاد میں شریک
ہونا یعنی شیاطین کو خوش کرنے کے لیے اولاد کا قتل کرنا، اسکی ایک کیفیت یہ
بھی ہے کہ صحبت کہ وقت شیطان کا شامل ہونا (ایسا ممکن ہے) اسی لیے مسلمان
کو خاوند و بیوی کے درمیان صحبت کے وقت کی ایک دعا سکھائ گئ.
- صحبت کے وقت کی دعا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَمَا إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ
اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا
رَزَقْتَنَا..".
جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتا ہے اور یہ دعا پڑتا ہے ” اللہ کے نام
سے شروع کرتا ہوں ، اے اللہ ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو
دے ( اولاد ) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ ۔.. “
اس کو امام بخاری، 3271 میں روایت کیا. اس روایت کے آخری الفاظ ہیں:
فَرُزِقَا وَلَدًا، لَمْ يَضُرُّهُ الشَّيْطَانُ
"پھر اگر انکے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا
سکتا."
آج افسوس یہ ہے کہ دین اور کام کی بات شادی شدہ افراد کو معلوم ہی نہیں مگر
دیگر دنیا کی ہر بات معلوم ہے. اسکا نتیجہ یہ ہے کہ شادی شدہ افراد کبھی
بھی یہ دعا نہیں پڑھتے تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسا کہ شیطان نے انکی اولاد
کو نقصان پہنچایا ہو، الا ما شاء اللہ.
- جنات دنیاوی کام کرتے ہیں اور سلیمان علیہ السلام کی خدمت کرتے تھے:
صبا جو ملکہ تھی اسکے تخت کے لانے میں ایک جن نے کہا:
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن
مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ
مفہوم:
ایک سرکش طاقت ور عفریت جن نے کہا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں. اس سے پہلے ہی
پہلے میں اسے آپ کے پاس لا دیتا ہوں، یقین مانیے کہ میں اس پر قادر ہوں اور
ہوں بھی امانت دار
(سورۃ النمل 27 آیت: 39)
- اس سے پتا لگا کہ جنات میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ بہت تیزی سے فاصلہ بھی
تہ کرسکتے ہیں
یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جنات ان عامل بابا کے کنٹرول میں نہیں ہوتے
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا. وہ صرف اس وقت تک اپنی مرضی سے ان عاملوں کی
بات مانتے ہیں جب تکہ وہ کفروشرک کرتے رہیں اور عوام الناس کو ایسے کفر پر
لگاۓ رکھیں اور جب وہ عامل جادوگر انکی بات ماننا کم کرے تو انکی زندگی
اجیرن کر دیتے ہیں، مثلا انکو سونے نہیں دیتے، برتن گراتیں ہیں وغیرہ. اللہ
ہمیں ان سے اور انکے فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین.
- جنات کے رہنے کی جگہ:
سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قَالَ لاَ تَكُونَنَّ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ السُّوقَ
وَلاَ آخِرَ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّهَا مَعْرَكَةُ الشَّيْطَانِ
وَبِهَا يَنْصِبُ رَايَتَهُ.
مفہوم: اگر تیری استطاعت میں ہو تو ایسا کر کے سب سے پہلے بازار میں جانے
والا مت بن اور نہ ایسا بن کے سب سے آخر میں بازار سے نکل رہا ہے. اسلیے کہ
بازار شیطان کا میدان جنگ ہے
(صحیح مسلم،رقم: 2451)
یعنی بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان گمراہ کرتا ہے اور انسان جھوٹ، دھوکہ،
چوری، امانت میں خیانت، نگاہوں کی خرابی، بے پردگی جیسے گناہ وجرم کرتا ہے
اسی طرح شیاطین گندگی کی جگہوں مثلا بیت الخلا میں بھی ہوتے ہیں. جیسا کہ
ہم نے پہلے ہی خلا یعنی گندگی کی جگہوں پر آنے کی دعا بھی پڑھ لی تھی.
شیطان کے بیٹھنے کا انداز:-
ان النبي صلی اللہ علیہ وسلم نہی ان یجلس بین الضح والظل، وقال: مجلس
الشیطان
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بیٹھنے سے منع کیا کہ آدھی دھوپ
اور آدھی چاہوں ہو. کیوں ایسا شیطان کا بیٹھنا ہے
(رواہ احمد، 15421 اس روایت کو اہل علم نے صحیح یا حسن کہا .اسی طرح الشیخ
البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں صحیح کہا)
اس سلسلہ میں کئ روایات مختلف وجوہات کی وجہ سے استنادی حیثیت و صحت میں
ضعیف درجہ کی بھی ہیں. مگر ابن ماجہ 3722، ابن ابی شیبہ اور المستدرک والی
روایت پر امام بوصری نے حسن کا حکم درج کیا:
ان النبي صلی اللہ علیہ وسلم نھی ان یقعد بین الظل والشمس
مفہوم: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دھوپ میں اور کچھ چھاؤں میں بیٹھنے
سے منع فرمایا ہے
(ابن ماجہ، رقم: 3722، وسندہ صحیح)
عکرمہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھا ہے
تو ایسا بیٹھنا شیطان کا ہے
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: 25953 وسندہ صحیح)
عبید بن عمیر تابعی رحمہ اللہ سے بھی ایسا قول صحیح سند سے منقول ہے
ابلیس ملعون، اللہ سے بہت سی چیزوں میں اللہ کی برابری کی کوشش کرتا ہے. تو
اللہ کا عرش آسمانوں پر ہے اور ابلیس کا عرش سمندر پر ہے. اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ فَيَبْعَثُ سَرَايَاهُ
فَيَفْتِنُونَ النَّاسَ فَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً "
.
مفہوم: بے شک ابلیس کا عرش سمندر پر ہے وہ اپنی فوجیں بھیجتا ہے اور وہ جا
کے لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں. اسکے نزدیک سب سے اچھا وہ ہوتا ہے جو
لوگوں کو زیادہ فتنہ میں مبتلا کرے
(صحیح مسلم،رقم: 2813)
ایک دوسری روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ مَا
صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ
حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ - قَالَ - فَيُدْنِيهِ
مِنْهُ وَيَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ " . قَالَ الأَعْمَشُ أُرَاهُ قَالَ
" فَيَلْتَزِمُهُ " .
مفہوم: ان میں سے ایک (شیطان) آتا ہے اور کہتا ہے میں نے ایسا ایسا کیا.
ابلیس اس سے کہتا ہے کچھ بھی نہیں کیا تم نے. دوسرا آتا ہے میں لگا رہا ان
میں یہاں تک کے میں نے ان میں (خاوند و بیوی میں) دراڑ ڈال دی. تو ابلیس
اسکو اپنے نزدیک کرتا ہے اور کہتا ہے کیا نعمت ہے تو. اعمش کہتے ہیں اسکو
گلے بھی لگاتا ہے.
(صحیح مسلم،رقم:2813)
اسی طریقہ سے گھروں میں بھی جنات ہوتے ہیں جو سانپ یہ دوسرے جانوروں کی شکل
میں ہوسکتے مثلا کالی بلی یا کتا وغیرہ.جنات اچھے یا برے دونوں ہو سکتے
ہیں. اس لیے اگر وہ گھروں میں کسی جانور کی شکل میں نظر آۓ تو اسکو تین بار
جانے کا کہیں اگر وہ نہیں سنتا اور نہیں جاتا تو اسکو مار ڈالے کیونکہ وہ
شیطان ہے معلوم ہوا کہ شیطان کو اسطرح سے قتل کرنا جائز ہے اور اس پر کوئ
قصاص بھی نہ ہوگا.
ان شاء اللہ اس کی مزید تفصیل قرآن والسنۃ کے دلائل کے ساتھ جاری ہے
|