فروری کے آخر میں سورج کی تپش اس بات کا عندیہ دے رہی
تھی کہ مارچ کے دوسرے ہفتہ میں پنکھے چلنا شروع ہوجائیں گے اور اپریل کے
شروع میں ائیر کنڈیشنر جوبن پر ہوں گے جب کے میڈیا پر لوڈشیڈنگ کی خبر کے
ساتھ ساتھ شارٹ فال کی خبر مستقل جگہ بنا لے گی ،مگر مارچ کے دوسرے ہفتہ کے
شروع ہوتے ہی اﷲ پاک کی طرف سے باران رحمت کا نزول ہوا اور موسم ایک بار
پھر سرد ہو گیا ،اب امید یہی کی جارہی ہے کہ مارچ کے آخر تک سویٹرز تو اتر
جائیں گی مگر موسم میں تھوڑی بہت ٹھنڈک ہوگی ۔ ویسے ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے
کہ موسم گرما کی آمد کے آثار سورج کی تپش سے ظاہر ہونا شروع ہوتے ہی لوگ
گرم کپڑے اور سویٹرز وغیرہ سنبھالنا شروع کر دیتے ہیں تو ایک دم ٹھنڈی لہر
بارش کے ساتھ آتی ہے اور ایک بار پھر سویٹرز اور گرم کپڑے باہر نکل آتے ہیں
۔یہ بارش تھمنے کے بعد سردی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ رہتی ہے اس کے بعد گرمی
انٹرمیڈیٹ مراحل میں داخل ہوجاتی ہے۔
اس بار اگرکہا جائے کہ موسم گرما اور موسم سرما کچھ عجیب سے رہے تو مضائقہ
نہیں ہوگا کیوں کہ مئی، جون ،جولائی اور اگست میں سخت گرمی پڑھنے کے ساتھ
ساتھ ماحول میں ایک عجیب قسم کی گھٹن بھی تھی ۔دھوپ میں گرمائش کے بجائے
چبھن زیادہ تھی اور قدرتی ہوا بھی ویسی نہ تھی جیسے گرمیوں میں ہوتی تھی
حتیٰ کہ رات کے وقت بھی ہوا نہ ہونے کی وجہ سے دل نے گھبراہٹ اور گھٹن
محسوس کی ۔ ظاہر ہے اس کہ وجہ جہاں ہمارے انفرادی و اجتماعی اعمال ہیں وہاں
ہی انسان کی ترقی کی ضرورت کے لیے ماحول کی تباہی بھی شامل ہے جس میں سب سے
بڑی ’’ترقی ‘‘ درختوں کی کٹائی کے بعد وہاں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہے ۔
ماحول جہاں درختوں کی کٹائی سے متاثر ہوا وہاں ہیوی مشینری سے تیار کردہ
سڑکیں اور پل ماحول کے لیے دوست نہ ثابت ہوسکیں ۔ٹھیک ہے آبادی بڑھنے کی
وجہ سے سڑکوں اور پلوں کی ضرورت نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے مگر درختوں
کی اہمیت سے کوئی نفس انکاری نہیں ہے ۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ سڑکوں اور
پلوں کی تعمیر اور درختوں کی کٹائی کے معاملہ میں منصوبہ بندی مناسب سے بھی
نچلے درجہ کی کی گئی ۔ہوسکتا ہے منصوبہ سازوں نے منصوبہ بندی اچھی کی ہو
مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صرف سڑکوں او رپلوں کی تعمیر کے لیے ہی منصوبہ
بندی کی گئی ہے یا منظور کی گئی ہے جب کہ ان سڑکوں اور پلوں کے راستوں میں
آتے درختوں کے بارے میں منصوبہ بندی سوچی بھی نہیں گئی ۔خیر ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ جتنے درخت کاٹے گئے اس سے دوگنے نہ سہی مگر کم از کم اتنے
درخت لگا دئیے جاتے مگر اس معاملہ میں بھی کوتاہی برتی گئی جس کی وجہ سے
ماحول شدید قسم کا متاثر ہوا، جس کے تکلیف دہ اثرات ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔
موسم سرما کی بات کریں تو موسم سرما بھی دیر سے شروع ہوا اس بار اکتوبر کے
مہینا کے آخر تک پنکھے آہستہ ہی سہی مگر چلتے رہے اور پنکھوں کے بنا راحت
بھی نہ تھی جب کہ نومبر میں جاکر موسم سرما کے کچھ آثار دکھائی دیے ۔دسمبر
جو بارشوں اور سرد ہواؤں کی وجہ سے مشہور تھا اس بار ان دونوں چیزوں سے
خالی خالی گزر گیا ۔جب کہ اس بار پنجاب کے مختلف شہروں میں دھند کم جب کہ
نئی آفت فوگ چھائی رہی جو جہاں ماہرین ماحول کے لیے حیران کن ہے وہاں ہی
ماحول سے متاثر ہونے والوں کے لیے بھی حیران کن او رپریشان کن ہے ۔خیر
تقریباً پندرہ دن سردی کا زور رہنے کے بعد سردی ،کم بارشوں کے ساتھ روانہ
ہوگئی۔روانہ ہوتے ہوتے ہر سال کی طرح مارچ کے شروعات میں بارشوں کی وجہ سے
ایک بار پھر سردی کی لہر آئی مگر اس بار سردی کی اس لہر کے ساتھ دھند بھی
چھائی رہی جو اس سال جاتی ہوئی سردی کا حیران کن اور پریشان کن اختتام ہے ۔
ماحول کی اسی پریشان کن حالت پر محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ عالمی
درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا ہے اور موسم
سرما کے فوراً بعد موسم گرما شروع ہوجایا کرے گا جب کہ ان دونوں موسموں کے
درمیان آنے والا موسم ،موسم بہار نہایت کم ہوجائے گا جو کہ نہ ہونے کے
برابر ہوگا۔ماہرین ِ موسمیات کے مطابق موسم بہار میں کھلنے والے پھولوں اور
درختوں کی افزائش کا دورانیہ بھی مختصر ہوجائے گا جس کی وجہ سے کئی پودے
ناپید ہوجائیں گے ۔عالمی موسمیاتی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمی تغیرات
کے نقصانات کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں شامل ہے ۔
مذکورہ بالا رپورٹ پریشان کن تو ہے ہی خاص کر موسم بہار کا نہ ہونے کے
برابر مختصر ہونا اور اس سے بڑھ کر اور زیادہ پریشان کن یہ کہ اس موسم بہار
کے مختصر ترین ہونے کی صورت میں پودوں کی افزائش نہ ہونا ۔ویسے پھولوں کی
تو ضرورت ہمیں شدت سے ہے کیوں کہ پھول باہم محبت اور رشتے جوڑنے کی علامت
ہیں اور ہمیں اس وقت اس عمل کی شدت سے ضرورت ہے کیوں کہ نفرت اور منفی سوچ
اتنی عروج پر ہے کہ اپنے سوا کوئی ٹھیک ہی نظر نہیں آتا ہے جس کی وجہ سے
محبت اور رشتے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ درختوں کی افزائش نہ ہونے کا
نقصان تو یقینا پورے ملک پر پڑے گا جس کی علامات ہم پچھلے کئی سالوں سے نہ
صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ شدیدمتاثر بھی ہو رہے ہیں ،لیکن ایک بار پھر معذرت
کے ساتھ کہ نہ ہمارے حکمرانوں کو درختوں کی ضرورت ہے اور نہ ہمیں تب ہی تو
قدرت ہماری ترجیحات کو دیکھتے ہوئے موسم بہار مختصر کر رہی ہے ۔
بہر حال آخر میں ، مَیں خیبرپختون خواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو
خراج تحسین پیش کروں گا کہ جہاں انھوں نے قوانین پاس کر کے پولیس کا نظام ،
ہسپتالوں کا نظام،تعلیمی نظام اورپٹواری سسٹم کچھ حد تک بہتر کر دیا وہاں
ہی تعلیمی سلیبس میں لازمی قرآنی تعلیم اور ختم نبوت شامل کر کے ملکی تعلیم
میں ناپید ہوتے اسلامی تشخص کوجگایا وہاں ہی جہیز جیسی قبیح رسم کی روک
تھام اور عورتوں کو وراثت میں لازمی حصہ دینے کا بل بھی پاس کر نے کے ساتھ
ساتھ سود پر بھی نجی شعبہ کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ساتھ اس لعنت پر بھی
پابندی لگا کر معاشرتی بیماریوں کے خلاف صف آراء ہوئے۔
مذکورہ بالا اصلاحات کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی
صوبائی حکومت کے ماحول دوست اقدامات بھی قابل تحسین ہیں جن میں سیاحت کے
فروغ کے ساتھ ساتھ جنگلات کی حفاظت اور ایک بلین درختوں کی پیداوار شامل ہے
آخری اطلاعات کے مطابق 750ملین سے زائد پودے ابتدائی افزائش کے مراحل سے گز
ر چکے ہیں جن میں سے ایک چوتھائی پودے درختوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔
موجودہ ماحولیاتی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تحریک انصاف کے
ایک بلین درخت کے پراجیکٹ کو سراہتے ہوئے پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی
ایسے اقدامات کرنے چاہیے تاکہ ماحولیاتی بگاڑ سنور سکے ۔اس معاملہ میں جہاں
دوسرے صوبوں کی حکومتوں پر فرض عائد ہوتا ہے وہاں ہی مرکزی حکومت کو بھی اس
معاملہ میں مناسب اقدامات کرنے چاہیے اور ساتھ ساتھ عوام کو بھی حکومت کے
ساتھ ساتھ اس معاملہ میں تعاون کرنا چاہیے عوام کا تعاون اس معاملہ میں
کیسے درکار ہے اس کے لیے بتاتا چلوں کہ تقریباً ڈیڑھ دو سال قبل میرے شہر
میں سڑکوں کے کنارے کنارے بلدیہ کی طرف سے درخت تو لگا دیے گئے مگر مناسب
دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ درخت کچھ ہی دنوں میں ’’بن کھلے مرجھا
گئے‘‘کیوں کہ یہ درخت یا کسی بھیڑ بکری کی نظر ہوگئے یا پھر کسی کی دکان یا
گھر کے سامنے آنے کی وجہ سے ’’جگہ ‘‘ گھیرنے کا باعث بن گئے اور جو بچ گئے
وہ ابھی تک افزائش کی انٹرمیڈیٹ سطح پر ہیں اس لیے درختوں کی مناسب دیکھ
بھال کے لیے جہاں حکومت کے ٹھوس اقدامات اہمیت رکھتے ہیں وہاں ہی عوام کی
سنجیدگی اورخاطر خواہ دل چسپی بھی نہایت ممدومعاون ہے کیوں کہ ماحول سے
متاثر ہونا ہے تو سبھی نے ہونا ہے۔ |