شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ دو آدمی
قبرستان میں بیٹھے تھے ایک آدمی اپنے دولت مند باپ کی قبر پر بیٹھا تھا اور
دوسرا اپنے درویش باپ کی قبر پر ۔ امیر زادے نے درویش لڑکے کو طعنہ دیا کہ
میرے باپ کی قبر کا صندوق پتھر کا ہے ، اس کا کتبہ رنگین اور فرش سنگ مر مر
کا ہے اور فیروز ے کی اینٹ اس میں جڑی ہوئی ہے اس کے مقابلے میں تمہارے باپ
کی قبر کیسی خستہ حال ہے کہ دو مٹھی مٹی اس پر پڑی ہے اور دو اینٹیں اس پر
رکھی ہیں۔ ۔۔
اس پر درویش زادے نے جواب دیا یہ درست ہے لیکن یہ بھی تو سوچو کہ قیامت کے
دن جب مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس سے پہلے کہ تیرا باپ بھاری پتھروں
کے نیچے جنبش کرے میرا باپ بہشت میں پہنچا ہو گا۔ ۔۔
قارئین ! عقل والوں کےلئے سوچنے اور سمجھنے کےلئے اس دنیا میں کئی نشانیاں
موجود ہیں آج جو لوگ اس زمین پر دنیا کی تقدیروں کے مالک نظر آرہے ہیں
دراصل وہ ایک امتحان کے عمل سے گزر رہے ہیں ہر کسی کی بساط کے مطابق اس کا
امتحان ہو رہا ہے اور بےشک خدابزرگ و برتر کی ذات کسی ذی روح پر اس کی
استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی اس وقت پاکستان میں ہمارے حکمرانوں ،
سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور پبلک سرونٹس سے لیکر 18کروڑ عوام امتحان کے
ایک عمل سے گزر رہے ہیں یہ امتحان اس صورت میں بھی دکھائی دیتا ہے کہ ہم
اپنی خانگی زندگی سے لیکر پورے دن کے 24گھنٹوں میں ایک ایک لمحہ کس نیت اور
کس عمل کے تحت بسر کر رہے ہیں ۔۔
جنید انصاری |