نبوت کے سات سال گزر چکے ہوتے ہیں چند گنے چنے لوگ دین
الہی کو قبول کرتے ہیں ۔اہلِ مکہ کی مخالفت حد سے تجاوز کر جا تی ہے۔ ظلم
وستم کا کوئی ایسا انداز نہیں جو اہلِ اسلام پہ آزمایا نہ گیا ہو ۔آپؐ کوسر
عام اذیت ، طعن وتشنیع اورظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ایسے میں ایک
رات آپؐ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے کچھ مانگ رہے ہیں ۔آپکی دعا میں کرب
اور طلب کی انتہا ہے ۔فرماتے ہیں کہ یا رب العزت تیرا دین کمزور ہو رہا ہے
یا اللہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام میں سے جو بہتر ہو اسکے قبولِ اسلام
کی صورت میں اپنے دین کو تقویت عطا فرما ۔
یہاں پر یہ دعا غور طلب ہے کہ تمام اہلِ مکہ میں سے نبی آخرالزمان صرف دو
اشخاص میں سے کسی ایک کو اپنے رب سے مانگ رہے ہیں اور ترجیح کا اختیار بھی
خود استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رب سے بہترشخص کے انتخاب کا مطالبہ کرتے
ہیں ۔اور کیایہ طلب بلامقصد تھی ۔ نہیں بلکہ تمام اہل ِ مکہ میں سے ان دو
اشخاص کا انتخاب ان کی کچھ نمایاں صفات کی وجہ سے تھا ۔یہ دونوں اپنے
معاشرے کے سرکردہ سردار تھے۔ دونوں اپنی خصوصیات کی وجہ سے یکتہ روزگار
تھے۔
اک طرف عمرو بن ہشام ہے جس کو اہلِ مکہ "ابو الحکم "کہتے ہیں جو اہلِ مکہ
میں سب سے بڑا دانشور ، روشن خیال اور منطقی شخص سمجھا جاتاتھا۔ جو الجھی
ہوئی گتھیاں منٹوں میں سلجھا لیا کرتا ۔اورلوگوں میں اس کے کیے گئے فیصلوں
کوآخری اور حتمی سمجھا جاتا ۔گو کہ وہ اہل ِ مکہ میں سب سے عقل مند اور
روشن خیال شخص سمجھا جا تا تھا۔
دوسری طرف عمر بن خطاب ہیں ۔جو اہلِ مکہ میں جرآت و بہادری کی علامت سمجھے
جاتے تھے ۔غیرت وحمیت آپکی شخصیت کا خاصہ تھی۔غلط بات کے سامنے آپ تن ِ
تنہا کھڑے ہو جاتے ۔ بزدلی اور بے حمیتی کے مقابلہ میں موت کو ترجیح دیتے
۔گو کہ آپ اہلِ مکہ میں سب سے غیرت مند ، جری اور بہادر شخص سمجھے جاتے تھے
۔
اب جب رب العالمین نے اک طرف غیرت اور دوسری طرف عقل میں سے اک کا چناءو
کیا۔ تو غیرت ایمانی اور جرات و بہادری کو ظا ہری عقل و دانش اور روشن
خیالی پر ترجیح دی ۔عمر بن خطاب اپنی غیرت ایمانی کے ساتھ آج تک تاریخ
انسانی میں فاروق اعظم کے نام سے چمک رہے ہیں اور دوسری طرف" ابوالحکم
"اپنی تمام تر عقل وحکمت کے باو جود ابوجہل کہا جا تا ہے ۔میرے دوستو ترجیح
الہی بھی بڑی دلربا اور انوکھی ہے۔
|