برکت

ہم روزمرہ زندگی میں برکت کا لفظ بار بار استعمال کرتے ہیں لیکن ہمیں برکت کا مادی ، مرئی اور منطقی وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ ہمارا ظائراً تویہ مشاہدہ ہے کہ اگر ایک آدمی کا کھانا ہے تو وہ صرف اک ہی کھاسکتا ہے۔ اک آدمی کی ضرورت کی رقم ہے تو وہ اک ہی کی ضرورت پوری کرسکتی ہے یعنی کہ ہر چیز اپنی مادی صلاحیت کے مطابق ہی فائدہ دے سکتی ہے۔ لیکن برکت کا اسلامی تصور بڑا عجیب ہے کہ کھانا ایک کیلیے ہے لیکن وہ کئی سیر ہوکر کھا لیں ۔ رقم اک شخص کی ضرورت کیلیے ہے لیکن وہ کئی اشخاص کی ضرورت پوری کر لے ۔ برکت کا یہ تصور کسی قلیل چیز سے اس کی صلاحیت سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا ہے ۔ یہ تصور اہلِ مغرب کے تصورِ مادیت کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے جو دو جمع دو جمع چار کے قائل ہیں لیکن یہاں تو سارے فارمولے فیل ہو جا تے ہیں بس رہ جاتی ہے تو صرف روحانیت جسکو نہ گنا اور نہ ہی تولاجاسکتا ہے-

اسلام کے علاوہ کسی مذہب کی لغت میں یہ برکت کا لفظ نظر نہیں آئے گا اسی لیے اسلام زیادہ کی تمنا کے بجائے جو کچھ ہے اس میں برکت کی دعا کی تلقین کرتا ہے۔ کیا کبھی غور کیا کہ ام معبدؓ کی کمزور و لاغر بکری کے تھنوں سے دودھ کے چشمے جاری ہو نا اور تمام اہل مدینہ کا سیر ہو جانا ،یا حضرت جابر ؓ کے گھر دس اشخاص کا کھانا ہزاور ں صحابہ کی بھوک مٹا دینے کیلیے کافی ہوجانا، کیا تھا ۔کیا کسی مادی فارمولے سے ان واقعات کا احاطہ کیا جاسکتاہے ۔ نہیں ، کیونکہ جہاں پہ عقل ناکام ہو تی وہاں سے روحانیت شروع ہوتی ہے-

آج کے دور میں دیکھ لیں لاکھوں کمانے والا آپکو تنگدستی کا رونا روتے نظر آئے گا لیکن دوسری طرف چند ہزار کمانے والا خوشحال اور مطمئن نظر آئے گا ۔مسلمان کے لیے مقدار سے زیادہ برکت اہم ہے اگر یہ نہیں تو قارون کا خزانہ بھی آپکی ضروریات پوری نہ کر سکے گا .برکت اک روحانی فائدہ ہے جس کے حصول کیلیے کچھ ایسے عمل ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے جن پہ اہل عقل کبھی یقین نہیں کرتے ۔ مثلاً وہ بازار سے جب کوئی سامان لاتے تو وہ ایسے کپڑے سے ڈھانپ لیتے جس سے کسی کووہ نظر نہ آتا کیونکہ وہ یہ خیال رکھتے تھے کہ کسی غریب کی حسرت بھری نگاہ اس میں موجود برکت ختم کر دیتی ہے ۔ لیکن آج کےدور میں ہم شاپرمیں کھانے پینے والی اشیاء ڈالکر گھر پہنچنے تک کتنے ہی غریبوں کی حسرت بھری نگاہوں کو دعوت نظارہ دیتے ییں جو وہ چیزیں خریدنے کی استعداد ہی نہیں رکھتےاور پھر رونا روتے ہیں کہ ہر چیز سے برکت اٹھ گئی ہے ۔غریب کی حسرت والی نگاہ برکت کے اٹھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ اسلیے کہتے ہیں کہ یا دے کے کھاؤ یا چھپا کے کھاؤ۔

اس لیے ہمیں اپنے رزق ،اولاد ،کاروبار اور عمر میں برکت کی دعا کرنی چاہیے نہ کہ کثرت کی ۔

 

atifjaved
About the Author: atifjaved Read More Articles by atifjaved: 14 Articles with 9115 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.