کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی اور خوشخالی میں اسکی نظام
تعلیم اور نصاب تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے ۔بلکہ یہ کہنا بیجاہ نہ ہوگا
کہ کسی بھی قوم کی ترقی کاراز اسکے تعلیمی نظام سے جڑا ہوا ہوتا ہے، اسلام
کے نام پر معرض وجود میں آنیوالی مملکت خداداد پاکستان کو روزاول سے تعلیمی
مسائل کا سامنا ہے۔اور آج تک اس تعلیمی مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی
سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی،بلکہ دن بدن مزید بھگاڑ پیدا ہوتا چلا گیا ۔اور
اسی تعلیمی نصاب کا کرشمہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم
سیکولرزم کا خواہا ں نظر آتا ہے اور ہندؤں کو ہولی تہوار میں اپنے اوپر رنگ
پھینکنے کی دعوت دے رہا ہے ۔ہمارے اسلامی ملک پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا
کہ مجھے بڑا شوق ہے کہ آپ لوگ مجھے اپنے تہوار میں بلایا کریں ۔اپنی دیوالی
کی خوشیوں میں مجھے بھی شریک کیا کریں ،اور جسطرح سے آپ ایک دوسرے پر رنگ
پھینکتے ہیں مجھ پر بھی پھینکا کریں۔اس طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو کئی
حصوں میں تقسیم کررکھا ہے ۔بنیادی طور پر 2حصوں میں تقسیم ہونے والا نظام
تعلیم اگے چل کر درجنوں طبقاتی تقسیموں منقسم ہوجاتا ہے ۔دینی اور دنیاوی
تعلیم کے نام پر مسلم قوم کو تقسیم کرنے کے بعد یہ دونوں طبقے تناول درخت
بن گئے اور اپنی بیسیوں شاخیں نکال لی ہیں ۔جہاں مدارس دینیہ نے قوم کو
مختلف مکتبہ ہائے فکر عطاء کرکے دیوبند ،بریلوی ،وہابی،اسکے علاوہ مختلف
طبقوں میں تقسیم کیا اور وہاں اثری تعلیم کے ٹھکیداروں نے ساری قوم کو درجن
بھر طبقات میں تقسیم کردیا ہے ۔سرکاری اور پرائیوٹ نظام تعلیم Aلیول اور
Oلیول کی تقسیم ،امیر زادوں اور غریب زادوں کی تقسیم ،انگلش میڈیم اردو
میڈیم کی تقسیم ،مشنری سکولز اور غیر ملکی این جی اوز کے سکول الغرض یکساں
نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے آج آدھا تیتل اور آدھا بٹیر
کے مسداخ ہم آج اپنی اصل پہچان کھو بیٹھے ہیں آج ہم ایک ایسے دور سے گزررہے
ہیں ۔جہاں غریب اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہے غریب کا
بیٹا چاہے کتنا ہی قابل کیوں نا ہو اس میں صلاحیتوں کا بے پناہ ذخیرہ موجود
کیوں نا ہووہ اس ملک کی مشینری کا ایک ناکارہ پرزہ ہے ۔وہ اپنی صلاحیتوں سے
ملک قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔اس برعکس امیر کا بیٹا نالائق اور
نکما کیوں نا ہو پھر بھی اسکے پاس ترقی کے مواقع موجود ہیں وہ اہم عہدوں تک
با آسانی رسائی حاصل کرلے گا ۔اور بلند منصب پر پہنچ کا ر منصب کی رسوائی
کا سبب بنے گا ،کیا خود کوپاکستان کا حکمران کہلانے والے اس طبقاتی نظام کا
جواب دے سکتے ہیں کہ اس ملک کے ایک شہری کے پاس سکولوں میں بیٹھنے کے لئے
ٹاٹ دستیاب نہیں ہیں۔اور دوسرا نرم اور فوم کی کرسیوں پر تعلیم کے مزے لے
رہا ہے۔ایک کے پاس پینے کے لئے سکولز میں صاف پانی تک نہیں اور دوسرا منرل
واٹر پی رہا ہے ۔ایک کوتپتی دھوپ اور کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنا پڑتا ہے ۔اور
دوسرا ائیرکنڈیشر کلاس روم میں پرآسائش تعلیم حاصل کررہا ہے پرانی اور
بوسیدہ عمارتوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اور ہائی کلاس بلڈنگ میں تعلیم
حاصل کرنے والے بھلا کب برابر ہوسکتے ہیں ۔ابتدائی کلاسوں میں سالانہ
20لاکھ اور30لاکھ دینے والے سکولز بھی اسی مملکت کا حصہ ہے اور پھٹی پرانی
ٹاٹوں پر اپنے تعلیمی سال دھکیلنے والے اسی مملکت خداداد کے باثی ہے۔اپنا
تعلیمی نظام اوراپنا تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے غیروں کی ثقافت نے
ہماری ثقافت اور تہذیب کو بے دردی سے پامال کرکے رکھ دیا ہے ،نجی سکولوں
میں ایک خاص منصوبے کے تحت میوزک کی تھاپ پر رقص کے گڑ سکھائے جارہے ہیں ۔تہذیب
و تمدن غیروں کے اشاروں پر ایسے ناچ رہے ہیں گویا ہماری اپنی کوئی تہذیب
تھی ہی نہیں ہے۔ہمارا حال بکریوں کے اس ریوڑ جیساہے جسکا چرواہا ان کو
بھیڑیوں کے سپرد کرکے خود گہری نیند سوجائے ۔اگر چے اس فرسودہ نظام تعلیم
کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے طور
پرمختلف نظام ہائے تعلیم متعارف کروانے کی کوشش کی اور اسلامی نظام تعلیم
کو ترجیح بھی ملی۔ ان میں تقویٰ ماڈل سکول،الدعوۃ ،دارارقم اور ان جیسے
دوسرے سکول شامل ہیں مگر یہ انفرادی اور ناکافی کوششیں ہیں آبادی کا 1فیصد
بھی ان اداروں سے مستٖفیذ نہیں ہوپارہا معاشرے میں پائے جانے والی کرپشن
دہشتگردی ،بدیانتی ،رشوت ،لوٹ مار،اختیارات کا ناجائز استعمال ،صلاحیتوں کی
ناقدری اور نا اہل لوگوں کا منصب پر فائز ہونا ان تمام برائیوں کی جڑ
طبقاتی اور مہنگا ترین نظام تعلیم ہے۔اپنی تعلیم پر کروڑوں خرچ کرکے اعلیٰ
منصب پر پہنچنے والے افراد اپنی تعلیم پرہونے والے اخراجات پورا کرنے کے
لئے ہاتھ پاؤں ماریں گئے اور جائز طریقے سے حصول ممکن ہوتو وہ حاصل کریں
گئے ۔وگرنہ ناجائز زرائع استعمال کرکے ملک و ملت میں ایک اور کرپٹ فرد کا
اضافہ کریں گئے کیا ایسا ممکن نہیں کہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ
کردیا جائے اور حصول تعلیم میں امیر غریب کی تفریق ختم کرکے سب کو بلا
تفریق تعلیم کی سہولت دی جائے۔پورے ملک میں نصاب مہیا کردیا جائے بچوں میں
صلاحیت کی قدر کرتے ہوئے صلاحیت والے بچوں کی حوصلہ آفزائی کی جائے اسلام
کے نام پر بننے والے اس ملک میں ترجیحی بنیادوں پر اسلامی نظام تعلیم کو
اجاگر کیا جائے اگر ایسا ممکن ہے تو پھر ہم خود کومسلمان کہلانے کے مستحق
بھی ہیں ۔ہمارے حکمران خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے کے مستحق بھی
ہیں ۔اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ہم اسلامی مساوات سے کوسوں دور اور ہمارا
مستقبل نہایت تاریک ہے ۔ |