دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والے جنگ نے وقتا فوقتا
مختلف صورتیں اختیار کی ہے اور اس کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا
ہے۔ شروع میں وہ لوگ دہشت گرد تھے جو امریکی نظریہ کے مخالف تھے۔ پھر ہر
ملک کے اندر ریاستی دہشت گرد پیدا ہونے لگے۔ یوں یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے فیس
بکی دہشت گردوں تک پہنچ گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی گئی۔ مختلف اوقات
میں آئین میں ترامیم کیے گئے۔ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتاریاں کیے گئے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو
پھانسی کی سزا ئیں دی گیں۔ کافی حد تک ملکی حالات میں بہتری آگئی۔
وطن عزیز میں جہادی عملی دہشت گردی کا سامنا ہے اس سے کئی گنا بڑھ پر سوشل
میڈیا پر نفرتیں پھیلائی جارہی ہے۔ سستے انٹر نیٹ اور فری سوشل میڈیا
اکاؤنٹس و پیکجز نے جہاں نوجوان نسل کے قیمتی اوقات کو تباہ کیا وہاں اخلاق
اور تہذیب و تمدن کا جنازہ بھی نکال دیا۔ سوشل پر موجود ہر شخص شتر بے لگام
بنا ہوا ہے۔ جس کے جی میں جو آتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے کہہ ڈالتا ہے۔
کوئی تجزیہ نگار بنا ہوا ہے، تو کوئی پیج ریٹنگ کے خاطر سنسنی پھیلانے میں
مشغول عمل ہے۔ کوئی مذہبی منافرت میں ثانی نہیں رکھتا تو کوئی مفتی اعظم
بننے کے چکر کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھوکر ناسمجھ لوگوں کو گمراہ کرنے میں
پیش پیش ہے۔
دہشت گردی کے حق میں پیغامات سے لے کر بات اب باقاعدہ تابڑ توڑ حملوں تک
آپہنچی ہے۔ نہ کسی کا ذات محفوظ اور نہ کسی کا دین محفوظ۔ مذہبی منافرت کے
حوالے سے اگرچہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کرنے کا قانون موجود ہے ،
تاہم ابھی تک کوئی ایسی کارروائی نہ کی گئی جس سے ایمانوں کو بہا لے جانے
والے طوفان کا راستہ روکھا جاسکے۔ کوئی سیاسی لیڈروں کے محبت میں علماء کو
گالیاں دیتے ہیں، تو کوئی قرآن و حدیث کی تعلیم کو پرسودہ نظام کا نام دیتے
ہیں۔ کوئی صحابہ کرام کے ذات کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں تو کوئی اﷲ رب العزت
کے معصوم بندوں انبیاء کرام کے ذات مبارکہ پر کیچڑ اچھال کر خود کو پلید کر
رہے ہیں۔
کبھی یہود و ہنود سوشل میڈیا کے ذریعے عصمت انبیاء پر داغ لگانے کے لیے
مصروف عمل ہوتے ہیں تو کبھی دیسی بھینسے امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکانے کے
لیے صحابہ کرام اور محسن عالم ﷺ کے ذات عالی کے بارے میں بد اخلاقی کے
مرتکب ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مختلف مذہبی جماعتوں کا لبادہ اوڑھ کر آپس
میں نفرتیں پھیلانے کے لیے جعلی آئی ڈیز بنائے گئے ہیں۔
ایسے حالات میں حکومتی اداروں کی نہ صرف یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مسئلہ کا
حل تلاش کریں بلکہ اس پر عمل در آمد کرانا بھی لازمی ہے۔ ماضی میں متنازعہ
ویڈیوز کی وجہ سے یوٹوب کو بند کر دیا گیا جو کہ ایک احسن اقدام تھا۔ حالیہ
الجھے ہوئے حالات میں ایک بار پھر توہین آموز مواد کی صورت میں ویب سائیٹس
کو بلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور ساتھ میں سوشل میڈیا کو بند کر
نے کے بارے بھی مختلف اراء گردش کر رہی ہیں۔ اگر چہ یہ ایک مثبت قدم ہے
تاہم یہ مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔ حکومت ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لے
کر مستقل حل ڈھونڈ نکالے۔ توہین آمیز اور نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں تک
پہنچ کر ان کو قرار واقعی سزا دے ۔ تاکہ آئیندہ ایسے حرکتیں کرنے والوں کے
لیے نشان عبرت بن جائے۔ |