انسانی تخیل کی پرواز جتنا سفر کر سکتی ہے اور کائنات کے
وجود سے آنے سے لے کر زمانہ حال تک کی تاریخ کے ہر گوشے پر بھی نظر ڈال لے
پھر بھی ہی اُس کے ذہن میں ایک ہی بات سما سکتی ہے اور یہ بات اٹل حقیقت ہے
کہ دُنیا میں جتنے بھی رہنماء انسانی معاشرت کی رہنمائی کے لیے آئے وہ خالق
کائنات کے کرم سے انسانوں کو ہدایت دیتے رہے۔ ان تمام انسانوں میں سے افضل
البشر ہستی صرف اور صرف نبی پاکﷺ کی ہے۔ جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اﷲ
پاک نے خاص طور پر مبعوث فرمائی۔ اِس عظیم ہستی کی توقیر نے ہی انسانیت کو
عزت و احترام بخشا ۔ خالق نے جتنی بھی الہامی کتابیں نازل فرمائیں اُن میں
سے سب سے افضل کلام انسانیت کے لیے جو نازل فرمایا گیا وہ بھی دُنیاکی افضل
ترین ہستی جناب محمد رسول اﷲ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اﷲ پاک نے نبی پاکﷺ کو اُس
وقت نبوت پر سرفراز فرما دیا جب ابھی آدم کا ظہور بھی نہ ہوا تھا۔ گویا نبی
پاک ﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ آپﷺ کی عظمت در حقیقت اﷲ پاک کی عظمت ہے اور
آپﷺ کی عظمت کا ادراک درحقیقت انسانیت کی عظمتوں کا اساس ہے۔دُنیا بھر میں
امن کے دُشمن ادیان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے دُنیا میں فساد برپا
کیے ہوئے ہیں۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو بزور شمشیر
نہیں پھیلایا بلکہ نبی پاکﷺ کی عظمت کو دلوں میں راسخ کیا۔ جدید دُنیا میں
جہاں دُنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا گیا وہاں اظہار رائے کی
آزادی کے نام پر بھی بہت سے فتنے سر اُٹھا رہے ہیں۔ نبی پاکﷺ کی ختم نبوت
کے حوالے سے آپﷺ کی عزت و ناموس کے حوالے سے یورپی ممالک اور امریکہ میں
رسالت مابﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ اندازاختیار کیا جا رہا ہے۔سو شل
میڈیا اِس حوالے سے فساد کی جڑ بنتا جارہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جس نبی
پاکﷺ کی شان اقدس اور عزت و ناموس کی خالقِ کائنات قسمیں کھاتا ہے ایسی
ہستی کے حوالے نازیبا الفاط استعمال کیے جائیں۔ جبکہ مسلمانوں کا تو عقیدہ
ہی نبی پاکﷺ کی ذات اقدس سے محبت سے شروع ہوتا ہے اور ایمانی جذبے کی تکمیل
کامنبع بھی آپﷺ کی ذات پاک ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہی اِس ارشاد پاک پر ہے
جو آقا کریم ﷺ کاہے کہ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب
تک کہ وہ اپنی اولاد ، جان مال سے بڑھ کر مجھ محمدﷺ سے محبت نہ کرئے۔ جب
ایمان کی کسوٹی ہی عشق رسول ﷺ ہے تو پھر دُنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔
سوشل میڈیا کی اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری مسلمانوں کی جوتی کی نوک
پر ۔ نام نہاد سوشل میڈیا کی افادیت کا ستیا ناس ہوجائے۔ سورۃ لہب کے مکی
ہونے میں تو مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن ٹھیک ٹھیک یہ
متعین کرنا مشکل ہے کہ مکی دور کے کس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ
ابولہب کا جو کردار رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور آپﷺ کی دعوتِ حق کے
خلاف تھا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازا کیا جا سکتا ہے کہ اِس سورت کا نزول
اُس زمانے میں ہوا ہوگا جب وہ محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی عداوت میں حد
سے گزر گیا تھا اور اُس کا رویہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔
بعید نہیں کہ اِس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہو جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و
آلہ وسلم اور آپﷺ کے خاندان والوں کا مقاطعہ کر کے قریش کے لوگوں نے اُن کو
شِعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا تھا اور تنہا ابو لہب ہی ایسا شخص تھا جس
نے اپنے خاندان والوں کو چھوڑ کر دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔ اِس قیاس کی بنا
یہ ہے کہ ابو لہب محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا، اور بھتیجے کی
زبان سے چچا کی کھلم کھلا مذمت کرانا اُس وقت تک مناسب نہ ہو سکتا تھا جب
تک چچا کی حد سے گزری ہوئی زیادتیاں علانیہ سب کے سامنے نہ آ گئی ہوں۔ اس
سے پہلے اگر ابتدا ہی میں یہ سورت نازل کر دی گئی ہوتی تو لوگ اس کو اخلاقی
حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجا اپنے چچا کی اِس طرح مذمت کرے۔ابو لہب کا
اصل نام عبدالعزٰی تھا۔ قرآن مجید میں صرف اسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت
کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ
ایسے تھے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طو رپر
بھی کم نہ تھے۔ یہ شخص مکہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا سب سے قریبی
ہمسایہ تھا، دونوں گھروں کے درمیا ن صرف ایک دیوار حائل تھی۔ یہ اور اس کے
اہل خانہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کبھی چین لینے نہیں دیا تھا۔ آپ کبھی
نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ بکر ی کی اوجھڑی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر پھینک
دیتے۔ ہنڈیا میں غلاظت ڈال دیتے۔ ابو لہب کی بیوی امّ جمیل کا تو روزانہ کا
کسب یہی تھا کہ وہ راتوں کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر
خاردار جھاڑیاں لاکر بچھاد یتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپﷺ یا آپﷺ کے بچے
باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔اس کے علاوہ بھی یہ شخص ہر اس
جگہ پہنچ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا جہاں آپﷺ دعوتِ دین کے
لیے جاتے اورلوگوں کو آپﷺ کے خلاف اُکساتا۔چنانچہ اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے
ا س شخض کانام لے کر درج ذیل سورۃ مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی
مَذمت فرمائی ترجمہ ،ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اورنامراد ہوگیا وہ۔اُس کا مال
اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں
ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی جورو(بیوی)بھی،لگائی بجھائی کرنے
والی،اُ س کی گردن میں مونجھ کی رسّی ہوگی۔ اس سورۃ مبارکہ میں بالواسطہ اﷲ
تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی
اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کی موت ذلت آمیز ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی
ہوا،حالانکہ یہ سورۃ مبارکہ ابولہب کی موت سے تقریباً10 سال پہلے نازل ہوئی
تھی، اگر وہ اسلام قبول کرلیتا تو نعوذباﷲ قرآن غلط ثابت ہو سکتا تھامگر
ایسانہیں ہوا۔ لطف کی بات یہ کہ اس کی موت کے بعد اس کی بیٹی درّہ اور اس
کے دونوں بیٹوں عُتبہ اور متعب نے اسلام قبول کرلیا۔ تفاسیر میں آتاہے کہ
جنگ بدرمیں قریش کی شکست کی جب اسے مکہ میں خبر ملی تو اُ س کو اتنا رنج
ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہا یت
عبرتناک تھی۔ اسے عَدَسَہ (Malignant Pustule)کی بیماری ہو گئی جس کی وجہ
سے اس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑدیا،کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا۔
مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش
سڑگئی اوراس کی بو پھیلنے لگی۔ آخرکار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے
دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس
کی لاش اٹھوائی اورانہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا اوردوسری روایت یہ ہے کہ
انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اورلکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں
پھینکا اوراوپر سے مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا قرآن مجید
میں یہ فرمان حرف بحرف سچ ثابت ہوا جو اس کی سچائی کی ایک اور واضح دلیل
ہے۔زخموں سے رِستا ہوا لہو اور محبوب کے فراق کے لمحات دونوں میں فرق نہیں
دونوں کی حثیت عمومیت کی حامل ہوتی ہے۔نہ تو فراق کوئی اجنبی شے ہوتی ہے
عاشق کے لیے اور نہ ہی زخموں سے لہو کا رِسنازخموں کے لیے کوئی انوکھا کام
ہوتا ہے۔عاشق کا عشق سلامت ہے تو پھر یہ راہ عشق کے اندازبھی جاری ہیں
۔ورنہ کہاں کے زخم اور کہاں کے فرقت کے لمحات۔جب عشقِ مصطفی ﷺ کے حوالے سے
کسی بھی دنیا وی تگ وتاز کا تذکرہ ہوتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر
فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ حضرت علی حیدر کرار، امامِ عالیٰ مقام حضرت امام
حسینؓ وامام حسنؓ صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارئے لیے مشعل راہ بن جاتی
ہے۔تابعین تبعہ تابین اولیااکرام شھداء اِ ن تمام عاشقان رسولﷺ کا ایک ہی
نصب العین ہمارئے سامنے آتا ہے کہ جو ہو نہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول
ہے۔غلامی ِ رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے۔اﷲ پاک نے یہ کائنات اپنے محبوب
بندئے نبی پاکﷺ کے لیے تخلیق کی اور آپﷺ کی بدولت ہیں سارئے جہانوں کے اندر
جان ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے بقول ہر مسلمان کے اندر روح محمد ﷺ ہے ۔ اب
اگر روح محمد کے حامل انسان عاشقِ رسول نہیں ہوگا تو پھر کیسے ہوگا؟۔ گویا
خالص انداز ِ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ اﷲ اور اُس کے محبوب نبی ﷺ کی
اطاعت کی جائے۔ اِس لیے ادب احترام کا دامن کبھی بھی چھوڑا نہ جائے۔کیونکہ
جہاں جبریل جیسے قرب الہی رکھنے والے فرشتے کو بھی ااجازت پیش ہونے کی ہمت
نہیں جہاں عالم یہ ہو کہ نبی پاکﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی آب وگل
میں تھے۔ جہاں اﷲ پاک خود نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی قسم کھاتا ہو۔ جہاں
ابوبکرؓکی لیے صرف خدا کا رسولﷺ ہی سب کچھ ہو۔ جہاں عمر فاروقؓ کی عدالت کا
فیصلہ صرف اِس بات پر ہو کہ نبیﷺ کا فرمان حتمی ہے اور عمر فاروقؓ نبیﷺ کے
فرمان میں تاولیں پیش کرنے والے کی گردن اُڑانے کے بعد کہیں کہ اگر تمھیں
نبی پاکﷺ کا فیصلہ پسند نہیں تو پھر میرا فیصلہ تو یہ ہے۔ جہاں عثمان غنیؓ
دو انوار کے حامل ہوں جہاں حیدر کرارؓؓ کی تربیت نبیﷺ نے خود فرمائی ہوئی
جہاں امام عالیٰ مقام حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر جھولے دئیے گئے ہوں
ایسی ہستی کے حوالے یہ گمان کرنا کہ اُس کی حثیت عمومیت کی حامل ہے یا وہ
عام انسانوں جیسے ہیں یا اُن کا حلقہِ اثر صرف عرب کی سرزمین ہے۔جو نبی
پاکﷺ کی شان کو کم کرکے اﷲ کی شان بڑھانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے
ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہی ہے کہ وہ نبی ﷺ کا اُمتی بننے
کی بجائے یہودی اور عیسائی بن جائیں کیونکہ اُن کے اور ہمارئے درمیاں فرق
صرف مصطفے کریمﷺ کی نبوت کا ہے ورنہ یہود نصاریٰ بھی اﷲ کو ایک مانتے ہیں ۔
اِس لیے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ جب اﷲ پاک خود
فرماتا ہے کہ ائے میرئے محبوب ﷺاگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان
پیدا نہ کرتا بلکہ اپنے رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔ تو پھر چوں کہ چنانچہ کی
گردانیں پڑھنے کی کوئی حثیت نہیں ہے۔اﷲ پاک نبی پاک ﷺ ہمارئے ایمان کی
بنیاد ہیں۔ قران کو ماننے کی رٹ لگانے والے صاحب قران نبی ﷺ کی عزت و توقیر
کیے بغیر کس طرح قران پر من وعن ایمان رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ نبی پاکﷺ پر
چوبیس سال تک قران نازل ہوا۔ جس بات کو نبی پاکﷺ کی زبان مبارک نے فرمادیا
کہ میرئے صحابہ قران میں اﷲ پا ک نے یہ فرمایا ہے تو صحابہ اکرامؓ نے اُسے
قران سمجھ کر تحریر کر لیا اور جب نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ
اکرامؓ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ حدیث ہے تو اُسے صحابہ اکرام ؓنے حدیث
کا درجہ دئے دیا۔ جب تعین ہی نبی پاکﷺ نے کرنا ہے کہ یہ قران ہے اور یہ بات
قران نہیں ہے تو قران سے زیادہ فضیلت تو صاحب قران نبی پاکﷺ کی ہے ۔ جن پر
قران نازل ہوا۔ جن کیوجہ سے خالص توحید سے آشنائی ہوئی ۔ جن کی وجہ سے
کائنات کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ وجہ صرف یہ ہی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا بولنا
چلنا پھرنا ایک ایک عمل رب کے حکم سے ہے تو پھر جو کچھ بھی نبی پاکﷺ کاعمل
ہے وہ اﷲ کا عمل ہے اور جو بھی محبت اور تکریم نبی پاک ﷺکے لیے ہے وہ
درحقیت اﷲ پاک سے محبت اور تکریم ہے۔اِس لیے نبی پاکﷺ کے بغیر نہ تو اﷲ پاک
کو راضی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہم مسلمان ہو سکتے ہیں کیونکہ اﷲ کو ماننے
والے تو یہودنصاریٰ بھی ہیں۔ جن کے متعلق اﷲ پاک کا فرمان ہے کہ وہ کبھی
کسی مومن کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ نام نہاد آزادی اظہار کے علمبرداروں کو شرم
نہیں اور اﷲ کے محبوب ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے گستاخی مرتکب ہو تے ہیں ۔
یاد رکھیں بقول حضرت اقبالﷺ ہر مسلمان کی اند روح محمدﷺ ہے اور اِس روح
محمدﷺ کا یہ کمال ہے کہ ہر مسلمان اپنا آقا کریمﷺ سے اپنی جان مال اولاد سے
بڑھ کر محبت کرتاہے۔ |