مذہبوں سے اوپر انسانیت کے رنگوں میں

راجيش کمار اوڈ

خدا کرے ہر سال چاند بن کے آئے
دن کا اجالا شان بن کے آئے
دور نہ ہو آپکے چہرے سے ہنسی
یہ ہولی کا تہوار ایسا مہمان بن کے آئے

جی ہاں آج ہولی ہے، جسے بعض لوگ رنگوں کا تہوار بہی کہا کرتے ہیں ۔چنانچہ یہ تہوار آج نہ صرف پاکستان میں پر پوری دنیا میں ہندوں کے مذہبی تہوار کے طور پر بڑے جوش و خروش سے
منایا جا رہا ہے.

لیکن کیا جناب یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ صرف ہندوں کا تہوار ہے ؟ جی نہیں میں نہیں سمجھتا کہ یہ تہوار صرف ھندوں کا تہوار ہے یہ تو محبت کا تہوار ہے،انسانیت کا تہوار ہے۔یہ تہوار تو اس پیار،خلوص اور رواداری کا تہوار ہے جس کی بنا پر ہم آج بھی جڑے ہوئے ہیں ۔جب کہ یہ بھی پتہ ہوئے هے ہمارے مذہب اور عقائد الگ ہیں ۔

جس کی مثال آپ کو سندھ کے ان دو ذيادہ اقلیتی تعداد والے اضلاع عمرکوٹ اور تہرپارکر میں مل سکتے ہیں، جہاں مختلف مذہبوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ ہوکر ہولی کے رنگوں میں کہل مل جاتے ہیں،رنگ لگاتے ہے،مٹھائیا کہلاتے ہے اور ایک دوسرے کو مبارکیں دیتے ہیں اور جناب یہی جہلک آپ کو کرسمس اور عید کے دنوں میں بھی دیکھنے کو ملے گی،چاہے پہر وہ قربانی والی عید ہو یا پھر میٹہی۔

یہی کہ وہ ایک دن کے لئے ہر چیز مذہب،ذات رنگ نسل سے اوپر ہوکر ان لال،پیلےاور گلابی رنگوں کی طرح آپس میں مل جاتے ہیں اور دنیا کو دکہاتے کہ ہم سب ایک ہے۔

ہاں اگرچہ ایسا نہیں ہوتا تو یہ دن ہم آھنگی کا دن نہیں ہوتا جس کی اہمیت کا اندازہ اس سترہویں،آٹہرویں صدی میں اردو اور فارسی میں ہونے والی میر تقی میر،خواجہ حیدر علی آتش اور انشا کی شائری کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے,جس میں انہوں نے ہولی کا ذکر کیا ہے ۔
جیسے جشن ہولی کی مناسبت سے ایک جگہ میر نے لکھا ہے ۔
آوءؑ ساتہی بہار پہر آئی
ہولی میں کتنی شادیاں لائی
جس طرح دیکہو مارکہ سا ہے
شہر ہے یا کوئی کوئی تماشا ہے
تهال بهر بهر ابير لاتے ہے
گل کی پتی ملا اڑاتے ہے

اور آگے خواجہ آتش نے بھی ہولی کی آتشزدگی میں لکھا۔
ہولی شہید ای ناز کے خون سے بھی کھلییے
رنگ اس میں ہے ،گلال کا بوؑة ہے ابیر کی

اور ہاں اگرچے ہولی مذہبی دن ہوتا تو مغل بادشاہ جہانگیر اسے ً عید ای گلابیً کا نام نہ دیتا اور بابا بھلے بہی یے نہین کہتے-
ہولی ری کہیلونگی،کھ کر بسم اللہ
نام نبی کے رتن چارہی،بوند پڑی الھآ
رنگ رنگیلی اوہی کہلاوی
جو سکھِی ہوئے فنا فی اللہ
تو جناب یہ تہوار خوشیوں کا تہوار ہے. یہ تہوار تو جیت ہے ان انتہاپسند لوگوں کے خلاف جو مذہبوں کو استعمال کر کے نفرتیں پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں مذہبوں پے عمل کرو.
) لکم دینکم ولیدین (تمہارا دین تم سے، میرا دن مجھ سے- ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا مذھب کیا ہے، ہم اس کو کیسے محفوظ رکہیں اور کیسے اس کے پیغامات پی عمل کریں یہ آپ نا سکہائی تو بہتر ہے کیونکہ ہمارے مذھبوں نے اشرف المخلوقات سے محبت کرنا سکہایا ہے۔
اور میں سمجہتا ہوں یہی وہ محبت اور امن کا پیغام ہے جسے ہمارے برصغیر کے اولیاووں،بزرگوں اور صوفیائے کرام نے پکهیڑا اور آگاہ کیا کہ سب سے پہلے انسانیت اور اس سے محبت ۔

چلے اسی انسانیت کی خاطر سب ایک ہوکر دکہائے کہ پاکستان میں ایسے بھی لاکھوں لوگ ہیں جو رواداری اور ہم آھنگی کی پاسداری کرتے ہیں ۔کیونکہ يهي سماجی روایتیں یا قدریں ہے، جو ہم کو قریب لے آتے ہیں ۔
تو آوٴ۔
تم بھی جہومو مستی میں،ہم بھی جہومیں مستی میں
شور ہوا ساری بستی میں ،جہومیں سب ہولی کی بستی میں
مست مست یہ مستی رہیں،سدا آپکی کشتی میں
بیت جائیں گی ہولی پہر بھی بہیگی مستی میں۔

Najeeb chandio
About the Author: Najeeb chandio Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.