رشوت ہو یا کرپشن ہو اس کی تاریخ بہت پرانی اور قدیم ہے،
یہ مسئلہ آج کا نہیں، مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی بھی مکمل طور پر
قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس وقت غیر ترقی یافتہ ممالک سمیت ترقی یافتہ اور
ترقی پذیر تمام ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں، اس سے جمہوری نظام کی عمارت
گویا چرمرا کر رہ گئی ہے۔ یہ بد عنوانی انصاف میں رکاوٹ اور معاشی ومعاشرتی
ترقی میں سُستی کی محرک ہے۔ آ ج کے برق رفتار زمانہ میں ہر چیز شاخ در شاخ
ہوتی جارہی ہے، آج نیکیوں کے راستے بھی اَن گنِت ہیں اور گناہ کے بھی، یہ
انسان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے کیا پسند کرتا ہے۔ رشوت، جو کہ ہمارے
سماج کا ایک ناسور ہے، جس نے نہ جانے کتنی زندگیاں تباہ وبرباد کر دیں،
لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔ آج کے اس ’’ترقی یافتہ دور‘‘
میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، اب یہ
معاملہ محض نوٹوں کے سہارے ہی نہیں طے پاتا، بلکہ کوئی،ہدیہ، تحفہ، بھی اس
کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بالفاظ ِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے،
جس میں نقد یا تحفہ وغیرہ دے کر، وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاؤ
لایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔
کبھی یہ پیش کش دینے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے، اسے کمیشن
یا ڈونیشن جیسے نام سے موسوم کرکے اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
جس کی اصل حقیقت سب پر عیاں ہے۔ رشوت و کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو دیمک کی
طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض
نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔کرپشن
آکاس بیل کی طرح ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس
لیتی ہے۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک
شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا
کچھ باقی نہیں رہتا۔یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور
تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے،اس وقت پاکستان میں کرپشن عروج پر
ہے ۔چپڑاسی سے لیکر صدر تک تمام ادارے اس موذی مرض میں جھکڑے ہوئے ہیں ۔
پاکستان میں آج ہر دوسرا شخص کرپشن کی سحر میں مبتلا ہے ۔کرپشن اور رشوت
زنی ہر ادارے میں ہے ۔ پاکستان جوکہ ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا
مگر افسوس کہ اس ملک کے تمام سرکاری اداروں میں اسلامی تعلیمات کا نام و
نشان تک نہیں۔ سرکاری اداروں میں سے ایک بہت اہم ادارہ اور محکمہ، پولیس کا
محکمہ ہے۔ اس محکمہ میں جتنی کرپشن ہے، شاید ہی کسی ادارے میں ہوگی۔ سرعام
رشوت لینا، قاتلوں کی سرپرستی کرنا، بے قصوروں پر زیادتیاں کرکے ان سے مال
بٹورنا، سیاسی جماعتوں سے بھتہ وصول کرنا، مجرموں کو بھاری رقوم کے عوض رہا
کروانا، بھتے کے عوض شراب خانوں اور جوے کے اڈوں کی سرپرستی کرنا الغرض کہ
آپ کو جتنا بھی بڑا جرم کرنا ہو، پولیس والوں پر نوٹوں کی بارش کردو، آپ کو
اس ملک میں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ تمام
پولیس والے کرپٹ نہیں بلکہ ان کی بھاری اکثریت رشوت کے لین دین میں ملوث ہے
چند اچھے لوگ ہیں جن کو کرپٹ اہلکار آگے نہیں آنے دیتے۔مگر پولیس میں عام
ہے ۔میرا ایک دوست جو اس وقت ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ ہے ،کچھ عرصہ
قبل وہ سندھ پولیس ایف ایم میں جوکی تھا ، اس نے کہا کہ ڈیوٹی سے واپسی پر
راستے میں پولیس نے اسنیپ چیکینگ کے دوران روکاتمام متعلقہ دستاویزات
دیکھنے کے بعد افسر نے کہا کہ چائے تو پلا دو ،میں نے کہا کہ میں تو آپ کے
ہی ادارے سے ہوں ،افسرنے جواب دیا کہ میں کونسا رشوت مانگ رہاہوں ،چائے
پانی ہی تو مانگ رہا ہوں ۔اس ہی چائے پانی کی چکر میں لوگوں کا جیب خالی
ہوجاتا ہیں اور ان پولیس والوں کے جیب بھر جاتے ہیں ۔تھوڑے دنوں قبل حیدر
آباد میں ہم نے اس کا نمونہ دیکھا تھا ،ایک پولیس کانسٹیبل اور اس کے بیٹے
کو اس کے ہی پیٹی بند بھائی گرفتار کرتے ہے ،تو ان سے 75 کروڑ روپے نقد اور
دس لگژری گاڑیاں برآمد ہوتی ہیں۔ یہی ہے ان کا چائے پانی ۔ہم رشوت لینے اور
دینے کو کرپشن سمجھتے ہیں - کرپشن کا مفہوم کچھ اور بھی ہے ۔ ہر وہ عمل جو
قانونی , سماجی , معاشرتی , اخلاقی اور مذہبی قوانین و ضوابط سے ہٹ کر ہو ,
کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ۔ ایک وکیل جو اچھی طرح سے جانتا کہ اسکا کلائنٹ
غلط ہے اور قانون شکنی کا مرتکب ہے , اسے بچانے کی ہر کوشش کرپشن ہے ۔ یہ
وہ ایسی کرپشن ہے جس نے عدالتی نظام کی بنیاد کھوکھلی کر دی ہے - یہی وہ
مہارت ہے جو ایک وکیل کو بڑا وکیل بناتی ہے ۔ جج بھی سب جانتے ہیں ۔ انصاف
سے ہٹ کر فیصلہ کرے تو یہ بھی کرپشن ہے ۔ہم جانتے بھی ہے کہ ہمارا حمایت
یافتہ امیدوار بد دیانت , شرابی , زانی اور بد کردار ہے ان ووٹ دیتے ہیں تو
یہ بھی کرپشن ہے ۔ایک مذہبی جماعت اگر مذہب کے نام پر حاصل کیے گئے وسائل
کو سیاست کے لئے استعمال کرے تو یہ بھی کرپشن ہے ۔اگر اسمبلیاں قانون سازی
میں جھول رکھیں تو اسے بھی کرپشن ہی کہا جاے گا ۔ایک مزدور اگر اپنی ڈیوٹی
پوری طرح سے نہیں کرے گا یا کارخانہ دار مزدور کو پوری اجرت نہیں دیتا , تو
یہ سب بھی کرپشن ہی ہے ۔اس وقت پورے پاکستان میں کرپشن ہے حکمران تو حکمران
عوام بھی ملک کو قوم کا خزانہ لوٹنے میں حکمرانوں سے پیچھے نہیں ہے ۔عوام
کا کرپشن کیسے ؟ بجلی چوری کرپشن، ٹیکس کی عدم ادائیگی بھی کرپشن ،پیسوں پر
نوکری خریدنا بھی کرپشن ،جس سے جہاں ممکن ہوتا ہے وہ وہا ں کرپشن کرنے میں
سب سے آگے آگے نظر آتا ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاکستان میں اتنی کرپشن
ہے اور دہشتگردی بھی سر چھڑ کر بولتی ہے ،اس کے باوجود پاکستان وہی کھڑا ہے
۔اگر دنیا کے کسی اور ملک میں ذرا سی دہشتگردی ہو جاتی ہیں تو اس ملک کا
گراف ایک دم نیچے کی طرف آجاتا ہے ۔مگر پاکستان سلامت تھااور سلامت رہے گا
،پھر اس نتیجے پھر پہنچتا ہوں کہ یہ سب اﷲ کا کرم ہے پاکستان پر ۔
پیارے آقا محمد رسول اﷲ ﷺ کے ارشادکا مفہوم ہے کہ رشوت لینے اور دینے والے
د ونوں جہنمی ہیں۔کرپشن بدامنی اور زیادتی سے بچنے کا بہترین حل اﷲ تعالیٰ
کے نظام کے نفاذ میں ہے جب تک کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ملک میں نظام
مصطفی ﷺ نافذ نہیں ہوتا مسائل حل نہیں ہوں گے احتساب تمام سیاسی جماعتوں
اور قائدین کا ہونا چاہئے اسلامی نظام میں کوئی شخص احتساب سے بالا نہیں اس
کی بہترین مثال حضرت عمر فارورق رضی اﷲ عنہُ کا خود کو عوامی عدالت میں پیش
کرنا ہے۔ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کے اصولوں پر زندگی بسر کرکے ہم
دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں ملک کو قرآن و سنت کے نظام کی
ضرورت ہے ۔ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائیں (آمین) |