حضور ؐ کی حرمت پر ہم سب قربان، ہمارا ایمان اس وقت تک
کامل نہیں ہوسکتا جب تک ہمیں اپنی جان، مال، اولاد، والدین سے زیادہ محبت
اپنے نبی آخر الزمان ،وجہ کائنات، رحمتہ اللعالمین ؐ سے نہ ہو۔ نبی ؐ ساری
انسانیت کیلئے بھلائی اور دونوں جہانوں کی کامیابی کاپیغام لیکر دنیا میں
تشریف لائے اور یہ انہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ امت محمدیہ پر ایسا
اجتماعی عذاب نازل نہ ہوگا جس سے وہ صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔
حالانکہ گذشتہ قوموں جن میں قوم لوط، قوم عاد، قوم شعیب، قوم حضرت موسی،
حضرت عیسی، قوم ثمود، قوم نوح پر جو اجتماعی عذاب اﷲ کی طرف سے نازل ہوئے
اور ان کی بربادی و تباہی کی وجوہات تھیں وہ تمام ہم میں پائی جاتی ہیں
لیکن رسول ؐ کی دعاؤں کی بدولت ہم اﷲ کے عذاب سے محفوظ ہیں۔ ہمارے نبی ؐ جو
کہ یہودی کا جنازہ دیکھ کر بھی فکر مند اور افسردہ ہوجاتے تھے کہ اگر یہ
کلمہ پڑھ لیتا تو جہنم کی آگ سے بچ جاتا۔ جنہوں نے بڑے بڑے ظالم کو معاف
کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا۔ طائف کے دعوت الی اﷲ کے
سفر میں تمام تر ظلم و ستم کے باوجود انہوں نے بددعا نہ کی۔ ابو جہل، ابو
لہب جیسے سخت جان کافروں کے پاس کلمہ حق کی دعوت لے کر کئی بار گئے کہ شاید
یہ کلمہ پڑھ لیں ۔ انہوں نے اپنی رحلت کے بعد اپنی امت محمدیہ پر یہ ذمہ
داری ڈال دی کہ تم کلمہ حق کی دعوت غائبین تک پہنجاؤ۔ تاکہ وہ جہنم کے عذاب
سے بچ سکیں۔ نیکی کی دعوت دو خود بھی نیک اعمال کرو برائی سے بچو اور برائی
سے بچنے کی تلقین کرو۔ گویا قیامت تک آنے والے انسانوں کی فکر ہمارے نبی ؐ
کو تھی۔ لیکن بعض بدبخت ہمارے نبی ؐ کی تعلیمات ، ان کی سوچ و فکر ، ان کے
کردار و گفتار جانے بغیر ان کی تضحیک کرنے کی جسارت کرتے رہتے ہیں۔ قانونی
اور آزادی رائے کی آڑ میں ان کے خلاف کارروائی نہ ہو لیکن اﷲ پاک کی ذات نے
ہمیشہ ہمیں دکھایا ہے کہ حضور ؐ کا گستاخ آخرت میں تو برباد ہوگا ہی دنیا
میں بھی اسے نشان عبرت بنادیاجاتاہے۔ ذیل میں ماضی میں ایسے دو گستاخ رسولؐ
کے واقعات جن میں سے ایک کا تعلق ہلاکوخان اور دوسرے کا تعلق حضورؐ کے
زمانے سے ہے تحریر میں لارہاہوں تاکہ تمام گستاخ رسول ؐ عبرت پکڑسکیں۔
ہلاکو خان کے دور میں منگلوں کے ایک سردار نے عیسائیت اختیار کرنے کے موقع
پر ایک عظیم الشان محفل منعقد کی۔ اس موقع پر ایک عیسائی پادری نے حضور ؐ
کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ و کلمات کہنا شروع کردئے۔ پاس ہی بندھا ہوا
کتا اس ملعون پادری پر جھپٹ پڑا لوگوں نے بچ بچاؤ کرادیا۔ ایک شخص نے اس
پادری سے کہا کہ تم نے چونکہ حضور ؐ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا اس
لئے یہ کتا تم پر جھپٹ پڑا ۔ اس نے طنزیہ الفاظ میں کہا نہیں یہ کتا بڑا
خوددار ہے اس کی عزت نفس نے میرے ہاتھ کے یوں یوں والے اشارے دیکھ کر یہ
خیال کیا کہ شاید میں اسے مارنا چاہتاہوں یہ دیکھ کر اس نے بھونکنا شروع
کردیا اور مجھ پر حملہ آور ہوگیا۔ پھر اس ملعون عیسائی پادری نے دوبارہ
حضور اکرم ؐ کی شان عالی میں پہلے سے زیادہ بدگوئی شروع کردی یہ دیکھ کر
کتا اپنی رسی توڑ کر اس پر حملہ آور ہوا اور شیر کی طرح جست لگاکر اس
عیسائی بد زبان کی گردن میں اپنے نوکیلے دانت گاڑدئیے اور منٹوں میں اس
خبیث گستاخ رسول کو جہنم واصل کردیا۔ اس عجیب منظر کو دیکھ کر وہاں پر
موجود چالیں ہزار منگول حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ (در منشثور ابن حجر)
محترم قارئین ! دیکھئے ایک کتے نے جب امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی
شان میں نازیبا الفاظ سنے تو کیسا غضب ناک ہوگیا اور ا سنے کس انداز میں
اپنے غیرت مند ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ آج ہماری غیرت کہاں رخصت ہوگئی ؟ کیا
آج ہم میں سے ہماری ایمانی جرائت و حمیت بالکل ختم ہوگئی ہے؟ اگر بروز
قیامت ہم سے یہ سوال ہوا کہ اے امت محمدیہ، یہ بتاؤ دشمنان اسلام نے میری
عزت و حرمت پر ڈاکے ڈالے، مجھے خوب اذیتیں پہنچائیں تو تم نے میری عزت و
ابرو، حرمت وناموس کے دفاع میں کیا کردار پیش کیا؟ لہذا ہمیں چاہئے کہ
گستاخان رسول کا مکمل معاشی و سفارتی بائیکاٹ کریں۔ ایک دوسرا واقعہ امام
بیقہی نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ؐ کی صاحب زادی ام کلثوم ابو لہب کے
بیٹے کے نکاح میں تھیں۔ جب قرآن کی سورۃ تبت نازل ہوئی تو ابو لہب اور اس
کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ تم حضورؐ کی بیٹیوں کو طلاق دیدو
ورنہ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ چنانچہ عتبہ نے ام کلثوم کو طلاق
دے دی اور آں حضرت ؐ کے سامنے جاکر اس نے طلاق کی خبر دی اور بہت بے ادبی
کی باتیں کیں۔ تب آپ ؐ نے ابو لہب کے بیٹے عتبہ کیلئے بددعا فرمائی کہ اے
اﷲ اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط فرمادے۔ چنانچہ بددعا کا جو اثر
ہو اس کا قصہ حاکم نے بیان کیاہے کہ ابو لہب اور اسکا بیٹا عتبہ ملک شام کے
سفر پر گئے تھے۔ راستہ میں مقام زرقاء پر ایک راہب تھا ان کے پاس دونوں
ٹھہرے، راہب نے کہا کہ یہاں درندے بہت رہتے ہیں تم اپنے بچاؤکا سامان کرلیا۔
ابو لہب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ حضورؐ نے عتبہ پر بددعا کی ہے کہ اسلئے
اس کو بڑی حفاظت سے رکھنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سارا سامان اکھٹا کرکے خوب
اونچائی پر عتبہ کو سلادیا اور سب آس پاس نگرانی کیلئے سوئے رات میں ایک
شیر آیا اس نے ایک کا منہ سونگھ کر چھوڑ دیا اور کود کر عتبہ کا سر چبا
ڈالا۔ یہ شیر آنحضور ﷺ کی بددعا پر خدا کی طرف آیا تھا اسلئے آس پاس والوں
کو چھوڑ کر عتبہ کو ہلاک کرگیا اور چونکہ نبی کریم ؐ کے ساتھ دشمنی کی وجہ
سے عتبہ کا گوشت خباثت سے بھرا ہوا تھا اس لئے اس کے گوشت کو شیر نے بھی
نہیں کھایا شیر کے گوشت نہ کھانے سے معلوم ہو اکہ شیر کا تقرر صرف دشمن
رسول سے انتقام تھا اور بس۔ اﷲ تعالی ہمیں کامل اتباع سنت کی توفیق بخشیں
اور ہر قسم کی گستاخی و بے ادبی سے محفوظ فرمائیں۔ اب آج کل کے حالات میں
جب یہ برائی عام ہوتی جارہی ہے ہمیں ایک طرف تو ایسی میڈیا وار کا بھرپور
جواب دینا چاہئے ۔ہمارے قانونی اداروں کو ایسے گستاخ رسول ؐ کے خلاف فوری
اور بھرپور قانونی کارروائی کرنی چاہئے ۔ ان سب سے بہتر کارروائی یہ ہے کہ
2ارب مسلمان اپنی 24گھنٹے کی زندگی میں اسوہ حسنہ ؐ کو مکمل طورپر اپنالیں۔
جو ہمارے مخالفین کو منہ توڑ جواب ہوگا۔ ہم اپنے نبی ؐ سے سچی محبت ہونے کا
ثبوت ان کے اعلی اخلاق، کردار، گفتار کو اپنا کر دنیا کو دیں۔ بدقسمتی سے
ہم میں سے اکثر مسلمان زبان سے تو حضور ؐ سے محبت کرنے کا دعوی کرتے ہیں
لیکن عملی طورپر ہم کوسوں دور ہیں۔ اتباع رسول ؐ ہی ہمارے دین ، نبی ؐ کے
مخالفین کا منہ ہمیشہ کیلئے بند کرسکتی ہے۔ اﷲ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین۔ |