پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہولی کا تہوار جوش و خروش کے
ساتھ منایا جارہا ہے،ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف بنفس نفیس ہولی کی تقریبات میں شرکت کریں گے جو معاشرے میں مثبت
روایات اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے حکومتی سطع پر ایک نہایت
قابلِ تحسین اقدام ہے ، گزشتہ برس وزیراعظم صاحب نے دیوالی کی تقریب سے
خطاب میں ہولی منانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ ان پر بھی محبت کے رنگ
پھینکے جاسکیں۔ہندو دھرم میں دیوالی کے بعد سب سے بڑا تصور ہونے والا یہ
تہوار موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے، مذہبی روایات کے مطابق
یہ تہوار نیکی کی بدی پر فتح کی یاد دلاتا ہے، میلے کا آغازروائتی پوجا پاٹ
کے ساتھ کیا جاتا ہے ، گھروں میں خصوصی پکوان پکائے جاتے ہیں، زائرین
بھگوان کرشن اور رادھا کی شان میں گیت گاتے ہیں ، فیسٹیول آف کلرز یا رنگوں
کے تہوار کے نام سے پاکستان ، انڈیا ، نیپال، سری لنکا ، ماریشس کے علاوہ
جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں بھی ہولی کی
رنگارنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ہندو مذہبی کتاب بھگوات پرن کے مطابق
ہرنیاکاشیپو بادشاہ کو پانچ خاص طاقتیں سونپی گئی تھیں، اس کو نہ تو کوئی
انسان اور نہ ہی جانور قتل کرسکتا تھا، نہ اندرونی طور پر اور نہ بیرونی
طور پر، نہ دن اور نہ رات کو، نہ کسی بھی قسم کے ہتھیارسے او ر نہ زمین، نہ
پانی اور نہ ہوا پر نقصان پہنچایا جاسکتا تھا، انہی عوامل کی بناء پر
بادشاہ نے دیوتا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رعایا سے اپنی پوجا کا مطالبہ
کردیا، بادشاہ کے ظلم سے ستائے اسکے اپنے بیٹے پرہ لاد نے بغاوت کردی جس پر
وشنودیوتا نے اوتار کی شکل میں زمین پر پدھار کر بادشاہ کے خلاف پرہ لادکی
انتھک جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، سنسکرت زبان کے لفظ پرہ لادکا مطلب
خوشیوں سے بھرپور ہے، بادشاہ کی مددگار پرہ لاد کی آنٹی ہولیکا کو نذر آتش
کرنے کی یاد میں ہولی کے موقع پرہر سال عظیم الشان آگ بھڑکائی جاتی ہے جسکا
مقصد تمام بدی کی نمایندہ قوتوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کے عہد کا اعادہ کرنا
ہوتا ہے۔ ہولی سے منسوب یہ واقعہ اس لحاظ سے سبق آموز ہے کہ یہ ایک انسان
کے کامیابی کے حصول کے اس عزم کو مستحکم کرتا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ پر یقین
ِ محکم ہونا چاہیے،خدا ہر جگہ موجود ہے، خدا سب سے بڑا ہے، مذہبی عقائد پر
کاربند رہنے کیلئے عمر کی قید نہیں، خدا اپنے ماننے والوں کی مدد کرتا ہے
اوربدی کی قوتیں بظاہر جتنی بھی زیادہ طاقتور کیوں نہ نظر آئیں، بالآخر
شکست کھا جاتی ہیں۔کرشن اور رادھا سے منسوب دوسری روایات کے مطابق ہولی کے
موقع پر ایک دوسرے کے اوپر لال ، نیلا ، پیلا ، ہرا ، نارنجی ، زرد ، گلابی
اور بھی بہت سارے رنگ پھینک کر خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے، ہندو برادری
کے افراد ایک جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ سب ہی ایک
دوسرے کے چہروں پر رنگ ملتے اور پھینکتے ہیں، اس روز ہندو برادری کے افراد
ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھی پیش کرتے ہیں، خاص پکوانوں میں کچوریاں ، قسم
قسم کی مٹھائیاں اور کھانے پکائے جاتے ہیں، بچے مرد اور خواتین سفید رنگ
اور خوبصورت رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جب کہ گھروں پر تقاریب کا
اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور انہی رنگوں سے گھر کے آنگن میں خوبصورت رنگولی
بنائی جاتی ہے ۔ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں میں ہندو برادری پچاس فیصد
ووٹ بینک کی حامل ہونے کی بناء پر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، الیکشن
کمیشن آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ہندو صوبہ سندھ میں
بستے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے موقع پرجب نفرت کے الاؤ ہر طرف بھڑک رہے تھے، محبت
کا پیغام عام کرنے والے صوفاء کرام، سادھوؤں اور جوگیوں کی دھرتی سندھ میں
امن و امان قائم تھا، 11اگست 1947ء کو بانی پاکستان قائد اعظم نے جب آئین
ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان میں بسنے والے غیرمسلموں کو تحفظ کی
یقین دہانی کراتے ہوئے ترک ِ وطن نہ کرنے کا کہا تو محب وطن پاکستانی
ہندوؤں نے پاکستان کو اپنا وطن بنالیا، آئینِ پاکستان بھی ملک بھر میں بسنے
والے غیرمسلموں کو مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، ہندو دھرم میں دھرتی ماتا سے
محبت ایمان کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی
ہندوؤں کی پاکستان سے وفاداری پر کوئی دوسرا سوال نہیں۔میرا اپنا تعلق بھی
صوبہ سندھ کے تھرپارکر سے ہے جہاں آج بھی ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک
ساتھ رہتے آرہے ہیں۔بدی کی نمائندہ انتہاپسند قوتوں نے یوں تو پورے ملک کے
امن و امان کو متاثر کیا ہے لیکن صوبہ سندھ میں بسنے والے ہندوؤں کیلئے بھی
مشکلات میں اضافہ کیا ہے، جبری مذہب تبدیلی، اغواء ، مندروں پر حملے، مقدس
مقامات پر ناجائز قبضے، نفرت آمیز نصابِ تعلیم جیسے ناپسندیدہ اقدامات نے
ہندوؤں کے احساسِ عدم تحفظ میں اضافہ کیا جسکی وجہ سے گزشتہ برسوں کی
اطلاعات کے مطابق سالانہ پانچ ہزار ہندو باشندے اپنی دھرتی ماتا سے ہجرت پر
مجبور کیے گئے ہیں۔ان تمام ظلم و ستم کے باوجود بدی کی قوتوں کا مقدر
بالآخرشکست ہواکرتا ہے اورآج آپریشن ضرب عضب، کراچی رینجرز آپریشن، رد
الفساد آپریشن، اقتصادی تعاون تنظیم اجلاس کی کامیابی نے بدی پر نیکی کی
فتح ثابت کردی ہے۔ دوسری طرف ملک بھر میں بسنے والے ہندوؤں کی نمائندہ
تنظیم پاکستان ہندو کونسل گزشتہ نو برسوں سے مسلسل ہولی کے تہوار میں غریب
ہندوؤں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے اجتماعی شادیوں کی رنگارنگ تقریبات
کا انعقاد کراتی آرہی ہے، اس موقع پر بیت المال، ایدھی فاؤنڈیشن اور دیگر
فلاحی اداروں کے تعاون سے غریب نوبیاہتا جوڑوں کیلئے نئی زندگی کا سفرنہایت
عزت و احترام سے ممکن بنایا جاتا ہے بلکہ غریب مستحق نوجوانوں میں آٹو رکشہ
اور خواتین کو سلائی مشین فراہم کی جاتی ہے، رواں برس19مارچ کوپاکستان
ہندوکونسل کے زیراہتمام ہولی تہوار کی مناسبت سے 100جوڑوں کی اجتماعی
شادیوں کی تقریب کراچی میں منعقد کی جارہی ہے جس میں گورنر سندھ محمد زبیر
بمعہ اہل و عیال شریک ہونگے جبکہ دیگر مہمانِ گرامی میں وزیراعظم نوازشریف،
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورمحترمہ مریم نواز کو مدعو کیا گیا ہے ۔ میں
سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف کی ہولی کے پرمسرت موقع پرشرکت ہولی کے
اس مقدس پیغام کی تجدید کرتی ہے کہ خداوند تعالیٰ نیک بندوں کی غیب سے مدد
فرماتا ہے ، اگرایک طرف وزیراعظم صاحب نے اپنے آپ کو پورے پاکستان کا
وزیراعظم ثابت کردیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی محب وطن ہندو برادری بھی
وزیراعظم نواز شریف کو اپنا ہردلعزیز قائد مانتے ہوئے ان پر محبت، اخلاص ،
وفاداری اور مذہبی ہم آہنگی کے رنگ پھینکنے کیلئے بے تاب ہے تاکہ انکی
حکومت تمام تر رکاوٹیں اور مشکلات کو عبور کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود
کا سفر بلا تفریق جاری رکھ سکے، یہ منفرد اعزاز بھی موجودہ قومی اسمبلی ہی
کو حاصل ہے جس نے میری پیش کردہ قرارداد کو منظور کرتے ہوئے ہولی کے موقع
پر سرکاری تعطیل کا اعلان کیا ، اسپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق اور ڈپٹی
اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی جانب سے ہندو اراکین پارلیمنٹ اور کمیونٹی
کیلئے مبارکبادی کے پیغامات کو بھی پوری ہندو برادری قدر کی نگاہ سے دیکھتی
ہے کیونکہ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونا اور پرخلوص نیک تمناؤں کا
اظہارہی مہذب معاشرے کی نشانی ہوا کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭ |