یتیموں اور بیواؤں پر کیا گذرتی ہے،موج ماج اور عیش وعشرت
کی اس دنیا میں انہیں کن کٹھن مراحل سے گذرنا ہوتاہے ،کن کن مصائب اور
تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیسے کیسے طعنے سہنے ہوتے ہیں، کتنی جگہوں
پر روز مار کھانی پڑتی ہے ،الله تعالی کسی کو یہ بُرے دن نہ دکھائے،اسی لئے
نبی کریم (ص) نے اپنی دو مبارک انگلیوں اوپر اُٹھاتے ہوئے فرمایا تھا:میں
اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ایک ساتھ ہوں گے،قرآنِ کریم میں
یتامٰی کے حقوق کی رعایت اور نگہبانی کے متعلق بہت مفصل تعلیمات وفرامین
نازل ہوئے ہیں،حاجی مسعود پاریکھ صاحب نے اسپیشل بچوں اور یتیموں کے لئے
الگ الگ ادارے قائم کئے ہیں،مجھے دونوں اداروں کے بارے کافی معلومات ہیں ،
ان کے پروگراموں کو دیکھنے کے مواقع بھی ملے ہیں،حاجی صاحب ان بچوں کے ساتھ
اُن ہی کی طرح بن جاتے ہیں،ان کے ساتھ لڈو کھیلتے ہیں،درمیان میں لڑائی سی
ہوجاتی ہے،وہ ماحول دیکھنے کا ہوتاہے،کوئی حاجی کی ٹوپی چھینتاہے،کوئی
کندھے پے چڑھ چکا ہے،کوئی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے حاجی کی پٹائی کرتاہے ،فٹبال
اور کرکٹ کا میدان بھی فقط دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ،ٹی وی دیکھتے ہوئے
حاجی کو کوئی چینل پسند ہے تو کسی اور بچے کو کوئی اور،پھر روموٹ پر دنگا
مشتی ہوتی ہے وہ منظر بڑا نِرالا ہوتاہے۔
اب عامر بھائی،اسد صاحب،ڈاکٹر راحیل اور پیر یاسر عرفات نے مسجدِ
نبوی(ص)میں استاذِ شعبہ ء قراءات وتجوید اور حرمین شریفین کے بعض اماموں کے
استاذشیخ بشیر المدنی بحکم وارشاد یتیموں کے لئے ایک عظیم ادارہ"دارالاصلاح
فاؤنڈیشن"کی بنیاد رکھی ہے،ابتدائی طور پر ادارے کے لئے کروڑوں فنڈ بھی
مختص کیا ہے،کئی ایکڑ اراضی بھی خریدی جاچکی ہے،أھداف ومقاصد سے معلوم
ہوتاہے کہ بامقصد اور بڑا کام ہونے جارہاہے،اس کی ابتدا یہ حضرات گوادر سے
کررہے ہیں،آگے جاکر پورے ملک میں اس کی شاخیں پھیلانے کا بھی عزمِ مصمم
ہے،دعاہے یہ سلسلہ بھی حاجی صاحب والے سسٹم کی طرح کامیاب وکامران ہو،
یورپی دنیا نے ہر طرف اور ہر میدان میں ترقی کی ہے،اگرچہ وہ ترقی کچھ
حوالوں سے تباہی یا فحاشی میں بدل چکی ہے،لیکن اپنے طور پر وہ لوگ ایک حد
تک اپنے مقاصد میں کامیاب نظر آتے ہیں،مثلاً،صلیبی جنگوں کے زمانے میں ان
کے یہاں جو بچے یتیم ہوئے،انہیں انہوں نے جمع کیا،اٹلی کا دارالحکومت روم
ہے،روم میں ایک ملک ویٹیکن ہے،جہاں پوپ ہوتاہے،ویٹیکن میں ایک اور ملک
ہوسپیٹلیئرز ہے،جس کے الگ سفارت خانے اور مستقل سسٹم ہے،کہتے ہیں بلیک واٹر
ز اصل یہ لوگ ہیں کیونکہ یہ اُن کے سابق مجاھدین کی اولادیں ہیں،اس کے
مقابلے میں ہمارے یہاں یتیم اور اس کی ماں کس قسم کی مشکلات کے شکار ہیں،
اس کے لئے ہمارے ایک دوست کی یہ رُلادینی والی تحریر (ننھی دکان)ملاحظہ ہو:
میں ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس
سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر
میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔ اندر
داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے
ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی
ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو
گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔ میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں
اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے
جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود
میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے
روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو
تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی
دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ
بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی دوکانوں کے لیے سبزی خرید کر
اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے
فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرہ دیکھ کر پریشانی میں
مبتلا ہو رہا تھا کہ چکر کیا ہے۔ میں اس بچے کو چوری چوری فالو کرنے لگا۔جب
اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی اونچی
آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے
ساتھ ایسا دونکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔
دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دوکان سے اٹھا جس کی دوکان کے سامنے اس
بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی۔ اس شخص نے آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر
اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے
پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا۔ ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو
لیے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی
دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی۔بھلا ہو اس شخص کا جس کی دکان کے
سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہی کہا۔
تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہو گئی۔اور وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک
کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا
اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ میں بھی اس کے
پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ بچہ سکول گیا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔
جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔ میں نے جلدی سے جا کر استاد کو
منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔ استاد فرمانے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک
گھنٹا دیر سے آتا ہے میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر
آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔ بچہ مار کھانے کے بعد
کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور
گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ تو
بھول ہی گیا ہوں۔
حسب معمول بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ھو گی۔
ساری رات میرا سر چکراتا رہا۔ اگلے دن صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے
استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہر حالت میں منڈی پہنچے۔ جس پر مجھے مثبت
جواب ملا۔ سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا
منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔ میں نے اس کے گھر جا کر اس کی
والدہ کو کہا کہ بہن میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول
کیوں دیر سے جاتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ منہ میں یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ
آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہی۔چھوڑوں گی نہیں اسے آج۔منڈی میں لڑکے کا
استاد بھی آچکا تھا۔ ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں
سنبھال لیں اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔ حسب معمول آج بھی اسے
کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے
کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔
اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی درد بھری
سیسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی اور میں نے فوراً اس کے استاد کی طرف
دیکھا تو بہت شدت سے اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔دونوں کے رونے میں مجھے ایسا
لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو اور آج ان کو اپنی
غلطی کا احساس ہو رہا ہو۔
اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا
گیا۔ حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے اور آج اس کو دکان دار نے ایک
لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا
سوٹ لے لو۔ بچے نے اس سوٹ کو پکڑ کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔
آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ
کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دیے کہ استاد
ڈنڈے سے اس کو مار لے۔استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس
قدر زور سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں
نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا
کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میری ماں
امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے
ہوتے ہیں۔ اس کے پاس جسم کو مکمل ڈھانپنے والا کوئ سوٹ نہی ہے اس لیے میں
نے اپنی ماں کے لیے یہ سوٹ خریدا ہے۔ یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو دو
گے؟؟؟ میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔۔۔جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں
کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔ بچے نے جواب دیا نہیں انکل جی چھٹی کے بعد
میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دے دوں گا اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع
کر کے سلائی دوں گا جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گئے تب میں اسے اپنی ماں
کو دوں گا۔۔۔۔۔
استاد اور میں یہ سوچ کر روتے جا رہے تھے کہ ابھی اس معصوم کو اور منڈی
جانا پڑے گا، اور لوگوں سے دھکے کھانے پڑیں گے اور ننھی دکان لگانی پڑے
گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کب تک غریبوں کے بچے ننھی دکانیں لگاتے رہیں
گے۔آخر کب تک۔۔۔۔السلام عليكم
|