آج اور کل کا کشمیر اور قائد اعظم

ترال، مقبوضہ کشمیر کاایک منفرد قصبہ جہاں کئی دہائیوں سے تحریک آزادی کا ہر روز ایک نیا معرکہ لڑا جاتا ہے۔ برہان وانی بھی اسی قصبے کا جوان رعنا تھا تو اسی قصبے میں 5اور6مارچ2017 کو آزادی کے متوالوں نے پاکستان کے دفاع میں خون کی قربانی دیتے ہوئے ایک اور تاریخی معرکہ اس وقت لڑا جب ساراپاکستان کرکٹ کے نشے میں مست بلکہ بدمست تھا۔یہاں ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس لاتعدادبھارتی فوج جب مکمل ناکام ہونے اور لاشیں اورزخمی اٹھانے کے بعد مسلسل رسوائی سے دوچار ہوئی تو اس نے اس مکان پر چاروں طرف سے گولہ باری کر دی جہاں موجودو محصور 2نوجوانوں سے وہ پہلے رات اور پھر دن بھر سے مار کھا رہی تھی۔گولہ باری سے مکان تباہ ہوا تب فرعون کے پیرو کاروں کو کچھ سکون ہوا کہ اب ان کی جان چھوٹ چکی ہے اور وہ اعلان فتح کے لئے لاشو ں کی تلاش میں بلڈوزر لے کر اس ملبے پر چڑھ دوڑے تھے۔ابھی انہوں نے بلڈوزر سے ملبے کو حرکت ہی دی تھی کہ اس ملبے سے ایک بار پھر گولیوں کی بوچھاڑ نے کئی ظالموں کو خون میں نہلا دیا۔کچھ بلڈوزر کے پیچھے جا چھپے اور کئی زمین پر اوندھے پڑے تھے۔ دور بیٹھے سورماؤں نے ملبے پر گولیوں اور پھر مارٹر گولوں کی بارش شروع کر دی۔دیر بعد پتہ چلاکہ یہاں جو دو جوان شہید ہوئے ہیں ان میں ایک عاقب احمد بٹ تھا جس کا جنازہ اس کے آبائی علاقے ہیونہ میں اٹھایا گیا تو اس کی میت اس سے پہلے کے بے شمار شہدا ء کی طرح پاکستان کے پرچم میں لپٹی ہوئی تھی ۔جنازے میں جہاں شرکا ء لاتعداد تھے تو وہیں ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے پرچم لہرائے اور پاکستان، اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے جا رہے تھے۔ یہ سب وہی کشمیری تھے جن کے لاتعداد جگر گوشے برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کے نعرے لگاتے شہادت پا کر قبروں میں اتر گئے تو ڈیڑھ ہزار سے زائد آنکھوں سے محروم ہوئے۔15ہزار سے زائد جیلوں میں جا پہنچے تو مسلسل کرفیو اور محاصرے نے انہیں بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور کیا لیکن ان کے جذبہ و تحرک میں کمی نہ آئی۔بھارتی ریاست اور فوج کے جرنیل اعلیٰ ان کشمیریوں کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ پاکستانی پرچم لہرانے ،آزادی کے نعرے لگانے اور مجاہدین کے لئے میدان میں آنے کا مطلب اپنی موت کو آپ دعوت دینا ہو گا لیکن کشمیری ہیں کہ نئی دہلی کا ہر اعلان اور پیغام ان کے جوتے کی نوک پر ہے۔ ہر گلی کوچہ پاکستان کے پرچم سے رنگاہوا ہے اور ہر دل میں پاکستان ہی مچل رہا ہے۔یہ وہی کشمیر ہے جو آج پاکستانیوں کو اسلام اور آزادی کی قدر و قیمت سے آگاہ کرنا چاہتاہے ۔اس کشمیر کی راہوں میں بھارت سونا بچھانا چاہتا تھا کہ وہ کسی طرح پاکستان کا نام لینا چھوڑ دیں لیکن وہ باز آنے پر تیار نہیں۔اسی کشمیر نے 80سال پہلے بانی پاکستان قائد اعظم کا استقبال بھی اسی انداز سے کیا تھا۔1935ء میں قائداعظم کے دورہ کشمیر پر ایک عظیم الشان جلسہ سرینگر پتھر مسجدمیں منعقد ہواجس میں چوہدری غلام عباس نے سپاسنامہ پڑھا۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا ’’میں آپ پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آزادی کیلئے آپ کی جدوجہد اوربرٹش انڈیا میں میرے معاملات کے ساتھ اپنی ہمدردی اور نیک خواہشات ظاہر کریں گے۔ یقینا آپ ایسا کریں گے‘‘یہ وہ وقت تھا جب قائداعظم نے ایک سال بیشتر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور آپ تمام برصغیر میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں مصروف تھے۔ دوسری طرف کانگریس مسلمانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کیلئے کوشاں تھی۔ اسی لئے قائداعظم نے کشمیری مسلمانوں کی کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم و ستم اور اقتدار کے خلاف جدوجہد کی۔23مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اور اس تاریخ ساز اجلاس میں اتفاق رائے سے قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔مئی 1944میں قائداعظم نے کشمیر کا تیسری بار دورہ کیا۔ قائداعظم نے کشمیر میں اڑھائی مہینے قیام فرمایا اور اس دوران انہوں نے کشمیری عوام اور ان کے راہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا اور انہیں یقین آگیا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت ناقابل تسخیر ہے۔ جموں کے عیدگاہ میدان میں قائداعظم نے فرمایا ’’جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی ان بے انصافیوں کا ردعمل ہے جو ایک صدی سے ان پر روارکھی گئی ہیں۔

جون 1944 میں مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چوہدری غلام عباس کے سپاسنامے کے بعد قائداعظم نے کشمیریوں سے خطاب فرمایا ''جب میں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں مجھے خوشی ہوتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں ایک مہینے سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں میں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔میں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ عزت کا صرف ایک راستہ ہے وہ ہے اتفاق و اتحاد ایک پرچم،ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کیا تو آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ مسلم لیگ اور ہماری خدمات' تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی۔‘‘اس طرح 1944ء میں جب برصغیر میں پاکستان کی تحریک اپنے کٹھن اور صبرآزما مراحل میں تھی۔ قائداعظم نے کشمیریوں کو برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور مستقبل میں شریک سمجھتے ہوئے کشمیر کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے عظیم رہنما کی حیثیت سے کشمیریوں کو منزل دکھائی، منزل کے حصول کا طریقہ بتایا۔ 1946ء میں جب کانگریسی رہنماء جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے سخت کوششیں کررہے تھے۔ قائداعظم نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی رہنمائی عطا کی۔ قائداعظم نے فرمایا ’’جموں کشمیر کے مسلمانوں سے میں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگانگت کو بہرکیف برقرار رکھیں اور چوہدری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔ 14اگست1947کو پاکستان تو بن گیا لیکن کشمیر لٹک گیا اورپھر بھارت نے27کتوبر 1947کو ہوائی جہازوں کے ذریعے ہندوستان نے اپنی فوج سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتاردیں۔

قائداعظم کو مہاراجہ کی بددیانتی ’ہندوستان کی دھاندلی اور ہٹ دھرمی پر بڑا دکھ ہوا اور آپ نے فوج کو حکم دیا ’’مارچ آن یوئیرز ٹروپس اینڈ کیچ جموں اینڈ سری نگر بوتھ۔‘‘ جنرل گریسی نے پس و پیش کر کے حکم نہ مانا اور پھربات بگڑتے معاملہ الجھتے کہانی یہاں تک پہنچی ہے کہ کشمیری قوم نے آج بھی اسلام کے نام پرپاکستان سے محبت اور آزادی کے نعرے کو خون کی ندیاں عبور کرتے ہوئے گلے سے لگا کھا ہے۔تاریخ ،حالات و واقعات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا ایک حصہ ہے جس کے بغیر پاکستان کی بقاء و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں تو پاکستان کو اپنے باقی تمام مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھرپور کارروائی کرنی ہو گی۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.