پچھلے دنوں آئی جی دفتر لاہور میں ایف آئی آر کمپیوٹرائزڈ
سسٹم کا افتتاح کرنے اور جامعہ نعیمیہ میں ایک تقریب میں تقریر کرنے کے لیے
وزیر اعظم پہنچے۔سنٹرل پولیس آفس میں اس سسٹم کا کنٹرول روم جدید تقاضوں کے
مطابق قائم کرنا ایک احسن قدم ہے ۔ آئی جی دفتر میں تو خطاب کے دوران "من
ترا ملاں بگوئم تو مرا حاجی بگو" کی طرح دونوں شریف بھائیوں نے خوب ایک
دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھے ۔میرٹ کا ذکر بہت کیا گیا مگر عوام پوچھتی
ہے کہ مرکز اور پنجاب میں دونوں بھائیوں کا بالترتیب وزیر اعظم اور وزیر
اعلیٰ بنناکیا میرٹ پر مبنی ہے؟کیا پنجاب کے کسی دوسرے حصے میں مائیں قابل
محنتی بچے نہیں جنتیں ۔یا نون لیگ میں قیادت کا ہی فقدان اور بحران ہے کہ
دونوں بھائیوں کے اقتدار میں رہے بغیر ملکی سسٹم چل ہی نہیں سکتاان حالات
میں موجودہ ڈکٹیٹرانہ جمہوریت یا آمریت کیا کسی دوسری بلا کا نام ہے۔ آئی
جی آفس میں پورے پنجاب کے اعلیٰ پولیس افسران کو تمام اضلاع سے تقاریر سننے
کے لیے بلوایاگیا تھاایسے افتتاح کرنایا پلوں سڑکوں ودیگر سرکاری کاموں کے
مکمل ہونے پروہاں اپنی تختیاں لگوانا عجیب گورکھ دھندا ہیں ۔جس پر کروڑوں
روپے ضائع ہو جاتے ہیں اور بندوں کو اکٹھا کرکے ان کا فضول وقت بھی ضائع
ہوتا ہے جب کوئی بھی منصوبہ مکمل تیار ہوجائے تو اسے عوامی فلاح و بہبو د
کا کام کرنے دیں بھلا اس میں کسی بھی وی آئی پی شخصیت کی آمد کا کیا مطلب و
مقصد ہے کیا اس مخصوص صاحب بہادر نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے سارا
سرمایہ اپنی طرف سے لگایا ہے ؟یا اس کی تکمیل کے لیے کوئی روپوں پیسوں کا
حصہ ڈالا ہو تا ہے جب کہ کبھی کسی کو اس کی تو فیق تک نہیں ہوئی پھر قرضوں
میں ڈوبے ہوئے غریب ملک کے سرکاری خزانوں سے ایسی فضول خرچیوں کے ڈراموں کا
کوئی تُک نہیں بنتا۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے ایسی کوئی تقریردل
پذیر کسی بھی ٹی وی چینل پر گھر یا دفتر سے بھی کی جا سکتی ہے ہزاروں لوگوں
کو اکٹھا کرکے ان کے وقت کا ضیاع آخر کس زمرہ میں آئے گا۔پولیس کے اعلیٰ
افسران کو پورے صوبے سے تقریر کے لیے بلوانا کسی صورت بھی احسن قدم قرار
نہیں دیا جا سکتا پھر وہاں اسمبلیوں کے اسپکیر،وزیر اعلیٰ وزیر قانون و
غیرہ کو بھی بلوا کر گھنٹوں بٹھائے رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟اتنے سارے وی وی
آئی پی کو اکٹھا کرنے پر لاکھوں کروڑوں کا خرچہ فضول خرچی نہیں تو اور کیا
ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر پورے لاہور کی ٹریفک کو وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے
جام کر ڈالنا انتہائی احمقانہ اقدام قرار پائے گااﷲ کے فضل و کرم سے ملک
بنیﷺ کے صدقے ضرور اپنے پاؤں پر جلد کھڑا ہوجائے گاتب بیچارے غریب عوام
ایسے فضول پرو گراموں اور تقاریب کا سوچ سوچ کر ٹھٹہ اڑایا کریں گے۔حضرت
عمر فاروق فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے تو باری باری کے فارمولہ کے
تحت غلام اونٹ پر سوار تھا اور خود لاکھوں میلوں پر حکمرانی کرنے والے
ہمارے خلیفہ اونٹ کی مہار پکڑے چلے آرہے تھے ایوب خان چین میں ماؤذے تنگ کی
ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے وہاں پر گھر کے باہر یا اندر کوئی ایک شخص بھی
ہٹوبچو کی صدائیں بلند کرنے والا نہ تھانہ کوئی نو کر نہ کوئی گن مین ۔ماؤ
خود کچھا پہنے کھرپا پکڑے اپنے مخصوص مشغلہ باغبانی میں مصروف تھے۔ ہمیں
بھی افراد کو اکٹھا کرکے تقریر کا شوق جب بھی ذہن میں آئے خرچہ برسر اقتدار
افراد کی جیبوں سے ہی کیا جانا چاہیے اب بھی لاہور میں منعقدہ ان دونوں
فنکشنوں میں جتنی سرکاری رقوم خرچ کی گئی ہیں وہ انہی سے وصول کی جا نی
چاہیں تاکہ آئندہ مستقبل میں کوئی بھی مقتدر شخص وزیر مشیر وغیرہ ایسی
عیاشیوں سے گریز کرے اور قرضوں سے چلنے والے ملک پاکستان کے خزانہ پر ایسے
اشخاص بوجھ نہ بن سکیں جامعہ نعیمیہ میں تو جن علماء تک کو دعوت ناموں کے
ذریعے بلوایا گیا تھا ان کو بھی مخصوص سیکورٹی اقدامات کی وجہ سے اندر داخل
نہ ہونے دیا گیاٹی وی چینلز ان کی طرف سے گو گو کے نعرے نشر کرتے رہے ایک
طرف تو حکمران دہشت گردی کا رونا روتے نہیں تھکتے پھر ایسے اجتماعات کیوں
منعقد کرتے ہیں جن کی سیکورٹی کے لیے سارے لاہور شہر کی ٹریفک بند کرنی پڑ
جائے سپریم کورٹ اس کا سویو موٹو لے کر اس قضیہ کو مستقل حل کر ڈالے تو
بہتوں کا بھلا ہو گا اور آئندہ ٹریفک بندہو کر شہروں کے مکنیوں کی آہ و بقا
سے مستقل طور پر جان چھوٹ جائے گی پورا دن شہریوں کا یرغمالی بن کر رہ جانا
ختم ہو جائے گا۔ٹریفک رک جانے سے بڑے شہروں میں گاڑیوں کے اژدہام سے
انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں طالب علموں کے امتحانات جاری ہیں جو بچے
امتحانی مراکز تک ٹریفک کی بندش کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے ان کا پرچہ دینے
کے لیے نہ پہنچ سکنااور امتحان میں فیل ہو جانے سے ایک قیمتی سال کے ضائع
ہو جانے کے مجرم کون ہیں ؟ جو افراد مریض وان کے لواحقین ہسپتال آجارہے تھے
ان بیچاروں کا کیا قصور ہے۔ انتہائی نگہداشت والے مریض مزید بگڑ گئے ہوں گے
۔اس ساری وی آئی پی مومنٹ پر معصوم لوگوں کی مشکلات کیسے ختم ہو سکتی ہیں
جو بھوکے پیاسے بچے وخواتین گاڑیوں میں کئی گھنٹے بند بیٹھے رہے ، ان کی
رفع حاجت کا بھی کوئی انتظام نہ ہو سکا ہو گا تو کیا وہ حکمرانوں کو
صلواتیں نہیں سناتے ہوں گے کہ جب تک تمام وی آئی پی گھر تک محفوظ نہ پہنچ
جائیں ٹریفک کھل ہی نہیں سکتی گذشتہ دنوں تو چھ گھنٹوں سے زائد تک شہری
گاڑیوں میں دبکے بیٹھے رہے کا ش ایسے پروگرام تو جاتی امرائی محلات میں ہی
منعقد ہوجائیں ویسے بھی ٹریفک کے یوں جام ہوجانے سے دہشت گردوں کاکام آسان
اور اس طرح دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لیے گذشتہ را صلوۃ اور آئندہ
را احتیاط کا فارمولا اپنانا بہتر ہو گابحر حال قوم جھولیاں اٹھا اٹھا کر
دہائیاں دیتی التجائیں کرتی دعا گو ہے کہ اے خدا ہمارے حکمرانوں کو عقل
سلیم عطا فرما یا پھر ان سے جان چھڑ واکر اپنے پسندیدہ بندوں کو اقتدار کی
کنجیاں عطا فرمادے۔آمین۔ |