عالمی سطح پر پاکستان تنہا نہیں!!

بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر اہم سمجھتی ہیں

حال ہی میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس اقتصادی تعاون تنظیم کا تیرہواں اجلاس تھا۔یہ اجلاس اس لیے اہمیت کا حامل تھاکہ پاکستان میں گزشتہ ماہ کے آ خری ہفتے میں دہشت گردوں کی جانب سے جو خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں کئی قیمتوں جانوں کے ضیاع کے ساتھ پاکستان کا تشخص عالمی تناظر میں درجہ بدرجہ زوال کا شکار ہوا،اس تناطر میں ایکو(ECO)کے اجلاس کا کامیاب انعقاد یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ یہ قوم دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں سے ڈرنے والی نہیں،یہ قوم انتہاپسندوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالے دلیرانہ فیصلے کرتی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم(ECO)اجلاس میں ترکی، ایران، آذربائیجان، تاجکستان، ترکمانستان کے صدور جب کہ قازقستان، کرغستان کے وزرائے اعظم سمیت ازبکستان کے نائب وزیر اعظم شریک ہوئے، اس کے علاوہ افغانستان کی نمائندگی پاکستان میں موجود اُن کے سفیر نے کی۔اِن سربراہان مملکت نے اجلاس کو کامیاب بنا کر یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستان عالمی سطحپر تنہا نہیں!!اس اجلاس کے انعقادکو کامیاب بنانے میں جہاں حکومت کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیے ،وہاں مذکورہ ممالک کی قیادت کے اعتماد کی بھی داد دینی چاہیے کہ اِن ممالک نے پاکستان میں آنے کو ترجیح دی۔عالمی سطح پر پاکستان اس وقت 60سے زائدبین الاقوامی تنظیموں کا رکن ہے ،اِن میں سے چند خاص تنظیموں کا جائزہ لیتے ہیں:۔

اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)
اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)1985ء میں قائم کی گئی۔یہ تنظیم ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی،جس کا مقصد رکن ممالک کے مابین اقتصادی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینا تھا۔یہ تنظیم علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کا تسلسل ہے جو 1964ء سے 1979ء تک قائم رہی۔ 1992ء میں ایکو میں 7 نئے ارکان کا اضافہ کیا گیا جس میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک امن وامان کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے ۔

رواں سال اقتصادی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اقتصادی تعاون تنظیم (ایکو) کے تیرہویں سربراہ اجلاس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔اجلاس میں اقتصادی تعاون اور علاقائی رابطہ کاری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔اجلاس میں اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، ایران، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان کے سربراہان مملکت و حکومت کے علاوہ چین کے خصوصی نمائندگان نے شرکت کی۔پاکستان میں افغانستان کے سفیر نے سربراہی اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ اس بار اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک نے پرامن خطے کیلئے انتہا پسندی، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف اجتماعی کاوشوں کا بھی عزم کیا ہے نیز ٗمشرق اور مغرب کے درمیان رابطوں کیلئے اس خطہ کی جغرافیائی اہمیت ناگریز ہے۔

22 سال بعد اسلام آباد میں ہونے والے ای سی او سربراہی اجلاس کی صدارت اور میزبانی وزیراعظم نواز شریف نے کی ٗ اجلاس میں 5 رکن ممالک کے صدور اور 3 رکن ممالک کے وزرائے اعظم شریک تھے۔13 ویں سربراہ اجلاس کا موضوع علاقائی خوشحالی کے لیے رابطے تھا جسے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، اجلاس میں ای سی او کے وژن 2025ء کی منظوری بھی دی گئی۔نیزسی پیک منصوبے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے پورے خطے کی ترقی کے لیے معاون قرار دیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آئندہ 3 سے 5 سال کے دوران ای سی او ممالک کی باہمی تجارت کو دگنا کیا جائے گا۔ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن، سائبر، توانائی اور سیاحت کے ذریعے عوامی سطح پر رابطے بڑھائے جانے اورتوانائی کے ذرائع کے بہتر استعمال پر بھی اتفاق کیا گیا۔اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بین الاقوامی سربراہان کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آمدنے اجلاس کو جہاں کامیاب بنایاوہاں یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستان کسی طور پر بھی عالمی سطح پر تنہا نہیں!

دولت مشترکہ ممالک
دولت مشترکہ ممالک(Commonwealth of Nations)اُن ممالک کی تنظیم ہے جو نو آبادیاتی دور میں برطانیہ کی غلامی میں رہے ہیں۔ اس تنظیم کے 53 رکن ممالک ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہیں۔ یہ تنظیم 1926ء میں اس وقت قائم ہوئی جب سلطنت برطانیہ کا زوال شروع ہوا۔پاکستان نے 1972ء میں دولت مشترکہ کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جانے پر احتجاجا دولت مشترکہ کی رکنیت سے علیحدگی اختیار کی، تاہم 1989ء میں ایک مرتبہ پھر تنظیم میں شمولیت اختیارکی۔ دولت مشترکہ ممالک(Commonwealth of Nations)کے ارکان ممالک میں سے 16 ممالک ایسے ہیں جوملکہ برطانیہ کو سربراہ مملکت تسلیم کرتے ہیں جبکہ اکثر رکن ممالک کے اپنے سربراہان مملکت ہیں۔ہر 4 سال بعد اولمپک کھیلوں کی طرز پر دولت مشترکہ کھیل بھی منعقد ہوتے ہیں۔دولت مشترکہ ممالک تنظیم کے تمام رکن ممالک آزاد ہیں۔ تنظیم کے قائم کرنے کا مقصد رکن ممالک میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینا،جمہوریت کو فروغ دینااور حقوق انسانی کی پاسداری ہے۔

دولت مشترکہ کی پارلیمانی کانفرنس 31 ستمبر سے 8 اکتوبرتک پاکستان میں ہونا تھی تاہم بھارت نے دولت مشترکہ کی پاکستان میں ہونے والی پارلیمانی کانفرنس کے لئے لابنگ شروع کردی تھی ۔اجلاس میں دولت مشترکہ کے تمام ممالک کے سپیکرز کو پاکستان میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی جس میں متنازع علاقہ ہونے کے باعث مقبوضہ کشمیر کے سپیکر کو پاکستان کی جانب سے مدعو نہیں کیا گیا، جس پر بھارت نے پاکستان میں کانفرنس کے انعقاد نہ کرانے کے لئے لابنگ شروع کردی تھیلیکن پاکستان نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے کانفرنس کی میزبانی کی قربانی دے دی۔پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں دولت مشترکہ کے لندن سیکرٹریٹ پر واضح کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اس لئے مقبوضہ کشمیر کے سپیکر کوکانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تاہم بھارت کی جانب سے طے کردہ شرائط پر پاکستان میں کانفرنس منعقد نہیں کی گئی۔تاہم پاکستان کشمیر کے معاملے پرکوئی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جب کہ پاکستان نے بھارت پر یہ بھی واضح کردیاکہ پا کستان ایسی کی شرط کو تسلیم نہیں کرے گا جو پاکستان کے مؤقف کی نفی کرے اوریہ ممکن نہیں کہ کشمیر پرکوئی اورفیصلہ کرے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف پر اقوام عالم کو ایسا دوٹوک پیغام ملا جس سے مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام کرے۔

انٹرپول(INTERPOL)
بین الاقوام پولیس برائے جرائم کی روک تھام 3ستمبر 1923ء کو تشکیل دی گئی ،جب کہ پاکستان مئی1952ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔انٹرپول جس میں ہر ملک کے پولیس اراکین ہوتے ہیں ، یعنی جیسے تمام حکومتوں کے درمیان اقوام متحدہ کا تنظیم ہے اسی طرح مختلف ممالک کے پولیس کے درمیان انٹرپول تنظیم ہے۔190رکن ممالک پر مشتمل انٹرپول کسی بھی ملک کو مطلوب جرائم پیشہ افراد کو فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔اکثر اوقات سنگین جرائم یا کرپشن میں ملوث افراد بیرون ملک فرار ہوجاتے ہیں جنھیں بعد میں انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جاتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے فرار اکثر ملزمان کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لایا گیا ہے۔جیسے کہ گزشتہ سال انٹرپول کو بابا لاڈلہ ،اُستاد تاجو سمیت کئی خطرناک کارندوں کی گرفتاری کا ٹاسک دیا گیا جن میں سے چند مطلوب افراد کو بیرون ممالک سے گرفتار کرکے پاکستان کے سپرد بھی کیا گیا۔جس کی مثال کے طور پرپاکستان کو مطلوب انسانی سمگلر فیصل اعجاز کو گرفتارانٹرپول نے ناروے سے گرفتار کیا۔ ملزم سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر یونان اور ترکی بھجوانے میں ملوث تھا۔ ملزم نے ان ملکوں میں سیف ہاؤس بنا رکھے تھے جہاں پاکستان سے لے جائے گئے افراد کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ ملزم ناروے کی حکو مت کو بھی انسانی سمگلنگ کے مقدمات میں مطلوب تھا۔اگردہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جائے تو انٹر پول بھی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہمرکاب ہے۔

ورلڈ انٹی لیکچوئیل پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO)
عالمی تنظیم برائے فکری ملکیت ‘اقوام متحدہ کی 16 خصوصی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ہے۔ عالمی تنظیم برائے فکری ملکیت 1967ء میں قائم کی گئی، جس کا مقصد دنیا بھر میں تخلیقی سرگرمیوں کی ترویج اور بین الاقوامی سطح پر فکری ملکیت کا تحفظ کرنا تھا۔اس تنظیم کے اراکین میں دنیا بھر کی 184 ریاستیں شامل ہیں۔ اس تنظیم نے کل 24 معاہدے تشکیل دیے تھے۔ اس تنظیم کا مرکزی دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم کیا گیا ہے۔پاکستان اس تنظیم کا رکن1977ء میں بنا۔اس تنظیم 189رکن ممالک ہیں۔دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں، موجدوں، آرٹسٹوں، ٹریڈیونینوں اور فن کے نامور لوگوں کی ایک کنونشن بلائی گئی جس میں ان کی دماغی صلاحیتوں کے فن پاروں کو ان کی مالیت قرار دیا گیا۔ اِس آرگنائزیشن کودسمبر 1974ء میں اقوام متحدہ میں شامل کیا گیا۔ اس کا مقصد فنکار کی فنی پراپرٹی کا تحفظ کرنا ہے جسے کوئی دوسرا شخص یا ادارہ اپنے نام سے نمایاں نہ کر سکے۔ اس کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ میں ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)
شنگھائی تعاون تنظیم(SCO) ایک سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے2001ء میں کیا۔ پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ء میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ۔

گزشتہ سال 2016ء میں سلامتی کونسل میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب میں کہا تھاکہ چونکہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے جنوبی ایشیاکااہم ترین ملک ہے اس لیے پاکستان کوشنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دی جائے، دنیا کو نئے اور پیچیدہ تنازعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انسانی اور منشیات سمگلنگ ،منظم جرائم خطے کے ملکوں کیلئے خطرہ ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے15سال مکمل ہونے پرمبصرکی حیثیت سے شرکت کررہے ہیں۔تنظیم کے ملکوں سے انٹیلی جنس تعاون بڑھانے پر تیار ہیں ۔پاکستان انسداد دہشت گردی آپریشنز کے تجربے کا ایس سی او ملکوں سے تبادلہ کرسکتاہے۔

بعد ازاں پاکستان ‘شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ مستقل رکن بن گیا، تاشقند میں منعقدہ تنظیم کے اجلاس کے موقع پرپاکستان کے صدر ممنون حسین نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دستاویزات پردستخط کیے۔ چین، روس، قازقستان، کرغیزستان، ازبکستان اور تاجکستان سمیت رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ نے پاکستان اور بھارت کیلئے شرائط کی یادداشت وضع کی تھی۔ پاکستان کی اس رکنیت سے روس کے ساتھ فوجی اور تکنیکی تعاون اور چین کیساتھ بڑے کمیونی کیشن منصوبوں پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔SCOپاکستان کو خطے میں مستحکم پوزیشن اور چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے وسائل تک رسائی فراہم کرے گی۔ اس موقع پر پاکستانی صدر ممنون حسین نے کہا تھا کہ،’’ تنظیم کے مکمل رکن کی حیثیت سے پاکستان اس تنظیم کے ساتھ اپنے روابط مزید مضبوط بنائے گا اور علاقائی امن و استحکام اور ترقی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتا رہے گا۔ پاکستان اس تنظیم کے رکن کی حیثیت سے ’’شنگھائی سپرٹ‘‘ کے تحت رکن ممالک سے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔پاکستان کے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ انتہائی گہرے تاریخی و ثقافتی روابط کے علاوہ مضبوط اقتصادی اور سٹریٹجک تعلقات ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مفادات اور دلچسپیوں میں بڑے پیمانے پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے‘‘۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا نہیں۔۔!!

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام1948ء میں عمل میں آیا،اس تنظیم کے بانی رکن ممالک میں ہانگ کانگ،ڈومینیشیا،فرانس،آسٹریا،جاپان اور نائیجیریا وغیرہ شامل ہیں۔عالمی تجارتی ادارہ (World Trade Organization) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا پرانا نام گیٹس (GATTS) تھا۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر آزاد تجارت اور گلوبلائزیشن کا داعی ہے اور اس کی راہ میں ہر قسم کی معاشی پاپندیوں (ڈیوٹی، کوٹا، سبسڈی، ٹیرف وغیرہ) کا مخالف ہے۔نیز یہ ادارہ بین الاقوامی تجارت میں ممکنہ تنازع کی صورت میں عالمی ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت ڈبلیو ٹی او کے 149 باقاعدہ ارکان ہیں۔پاکستان اس تنظیم کا رکن یکم جنوری1995ء میں بنا۔WTO ہر 4 سال بعد پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لیتی ہے اور اس کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے رپورٹ تیار کر کے ڈبلیو ٹی او کوبھجوائی جاتی ہے۔فروری2013ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہی سنبھالنے کے بعد پاکستان عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی سربراہی بھی سنبھال چکا ہے۔

دسمبر2015ء میں جغرافیائی حیثیت اور تجارتی راہ داری کی اہمیت سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تجارت میں سہولت فراہم کرنے کے معاہدے کی منظوری دی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے ایک معاہدے کے تحت پاکستان کو تجارتی عمل میں تیزی کے ساتھ تجارتی راہ داری کے طور پر مصنوعات کی فوری کلیئرنس کے اقدامات بھی لینے پڑیں گے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ٹریڈ فیسی لیٹیشن معاہدے پر عمل درآمد کرنے والا پاکستان تنظیم کا 51 واں جبکہ جنوبی ایشیائی خطے کا پہلا ملک بن گیا ۔ حال ہی میں پاکستان اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ آف گوڈز معاہدہ پر بھی دستخط کر چکا ہے جس کے تحت تجارتی راہداری کے طور پر آنے والے سامان پر پڑوسی ملکوں کو کسٹم اور ٹیکسز کی ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی۔

اس وقت ٹریڈ کا نظام تبدیل ہوگیا ہے اور ٹریڈ ویلیو چین میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے ایک چیز ایک ہی ملک میں تیار ہوتی تھی لیکن اب ایک چیز کے مختلف پرزے ایک سے زائد ملکوں میں تیار ہوتے ہیں۔ ویلیو چین کا کردار دنیا میں بڑھ گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی تجارت بڑھانے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ جی ایس پی پلس میں آنے کے بعد پاکستان نے ڈبلیو ٹی او کے 27 کنونشن پورے کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے تاکہ اپنی ورک فورس کو عالمی معیار کے مطابق تربیت یافتہ بنایا جائے۔اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا نہیں۔۔!!

سارک (Saarc)
جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم یا سارک جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے۔یہ تنظیم 8 دسمبر 1985ء کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔’’سارک تنظیم‘‘ میں شامل ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور افغانستان پر مشتمل آٹھ ایشیائی ملکوں کی آبادی دنیا کی 23فیصد کے برابر ہے مگر یہ آبادی اپنے اندر دنیا کی 44 فیصد غربت بھی رکھتی ہے۔سارک کے مبصرین آسٹریلیا،چین،یورپی اتحاد،ایران، جاپان، موریشس، میانمار، جنوبی کوریا اور ریاستہائے متحدہ امریکا شامل ہیں۔

سارک کے قوانین میں یہ بات موجود ہے کہ اگر ایک بھی رکن ملک کانفرنس میں شرکت سے انکار کردے تو سارک کانفرنس ملتوی ہوجائے گی۔گزشتہ سال نومبر میں متوقع سارک کانفرنس بھارت سمیت 3ممالک نے شرکت سے انکار کردیا، اس لیے قوانین کے مطابق یہ ملتوی ہوگئی ۔ سارک سربراہ کانفرنس کیلئے 8 ممالک کا کورم مکمل نہ ہونے پر اسے ملتوی کیا گیا لیکنیہ منسوخ نہیں ہوئی۔

سارک تنظیم کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کے ہر دور کے سربراہان مملکت نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مل کر چلنے اور سارک کے مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہکیا۔ویسے بھی پاکستان سارک کا بانی رکن ہونے کی حیثیت سے سارک چارٹر کے اصولوں پر کاربند ہے اور اسی جذبے کے تحت پاکستان نے 19 ویں سارک سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی تیاریاں کیں تاہم کانفرنس کے التواء سے علاقائی تعاون، ترقی و خوشحالی کے امکانات کے حوالے سے عوام ایک بار پھر محروم ہوئے ہیں جبکہ خطے کے عوام کی ترقی وخوشحالی اور مشترکہ مفادات کیلئے قائم کیا گیا یہ فورم اپنے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے کے وعدوں کے مطابق اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکا۔جس کا پاکستان کو دکھ پہنچا۔

سارک تنظیم کے غیر موثر ہونے کی ایک بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات ہیں۔پاکستان کے تقریباً ہر وزیراعظم نے مشترکہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھارت کو کئی بار دعوت دی لیکن بھارت کی موجودہ حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ ایسے اقدامات کیے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا ملی۔ سارک کے مقاصد کے حصول اور ان کو حقیقت میں بدلنے کے درمیان فاصلے کو ختم کرنا ضروری ہے اور یہ باہمی معاملات میں اکٹھا ہو کر چلنے سے ہو گا‘ سارک میں اعتماد کی فضا کو فروغ دینا ہو گا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خطے کے مسائل کا تو ذکر کرتے ہیں مگر دوسری جانب وہ پاکستان کے خلاف بیانات دینے سے بھی باز نہیں آتے۔سارک ممالک بھی یورپی یونین کی طرح ترقی کر سکتے ہیں مگر انھیں ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے خلوص نیت سے کام کرنا ہو گا جو ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بنک (ADB)
ایشیائی ترقیاتی بنک کا قیام1966ء میں عمل میں آیا، اس کے ارکان کی تعداد 47 ہے،اس بینک کا قیام اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل کی سفارشات پر جاپان کے تعاون سے عمل میں آیا تھا۔اس کے قیام کے دو مقاصد ہیں(1)ایشیائی اوربحرالکاہل کے علاقے کے ممالک کے مابین تعاون بڑھانا،(2)علاقے میں واقع ممالک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔اس کے زیر اثر علاقوں میں جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ 1966ء میں پاکستان ایشیائی ترقیاتی بنک کا رکن بنا۔اپنے اغراض و مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے قرض رعایتی شرح سود پر فراہم کیا جاتا ہے ،یہ بنک پاکستان کو اہم مواقع پر باالخصوص ٹرانسپورٹ، توانائی اور زراعت کے شعبے میں امداد فراہم کرتا ہے۔

تنظیم تعاون اسلامی (OIC)
21 اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں OICکا قیام عمل میں آیا۔تنظیم تعاون اسلامی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ OIC دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے۔پاکستان‘اس تنظیم کے قیام1969ء سے ہی منسلک ہے۔اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR)
اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین تنظیم کی تشکیل14 دسمبر 1950ء عمل میں لائی گئی، یہ اقوام متحدہ کا ذیلی دفتر ہے جو بین الاقوامی سطح پر مہاجرین کی حفاظت اور امداد کا ذمہ دار ہے۔ مہاجرین کی امداد و حفاظت کے لیے یا تو کوئی حکومت باضابطہ درخواست دائر کرتی ہے یا پھر اقوام متحدہ اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر یہ کام سرانجام دیتی ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف مہاجرین کے فلاح، حفاظت اور امداد کا کام سرانجام دیتا ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مہاجرین کی دوبارہ آبادکاری کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، یاد رہے کہ اس ادارے کا کام کلی طور پر فلاحی ہے۔ اس ادارے کا مرکزی دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم ہے۔

پاکستان اس تنظیم کا رکن1970ء کے اوائل میں ہی بنا،روس کی جنگ کے بعد جب افغان مہاجرین کی آمد کا آغا زہوا تو پاکستان نے ان مہاجرین کی آبادکاری کی کوششیں کیں اور اِن مہاجرین کو بھائی کا درجہ دیتے ہوئے اپنے ہاں پناہ دی جس پر پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ۔

مذکورہ بالا تناظر میں اگر مفاد پرست اور متعصبانہ عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس تناظر میں پاکستان کا اقوام عالم کی تنظیموں میں اہم کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا تو ایسے حالات میں ہمارے دشمن نے کیسے یہ سمجھ لیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جاسکتا ہے۔یہ سوچ صرف دماغ کا فتور ہوسکتی ہے اور کچھ نہیں!!
٭٭٭
ڈیک:
پاکستان کے تقریباً ہر وزیراعظم نے مشترکہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھارت کو کئی بار دعوت دی لیکن بھارت کی موجودہ حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ ایسے اقدامات کیے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا ملی

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے والا پاکستان جنوبی ایشیائی خطے کا پہلا ملک بن چکا ہے ۔ حال ہی میں پاکستان اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ آف گوڈز معاہدہ پر بھی دستخط کر چکا ہے جس کے تحت تجارتی راہداری کے طور پر آنے والے سامان پر پڑوسی ملکوں کو کسٹم اور ٹیکسز کی ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی
 

Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.