علی شیر کرد کا اغواء وقتل یا بلوچ نسل کشی؟

بلوچستان میں آگ وخون کے مناظر کے سیاہ وسرخ رنگ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں، جس میں بلوچ سیاسی رہنماؤں و کارکنوں، نوجوانوں اور عام شہریوں کا بہتا لہو حکمرانوں کیخلاف نفرت اور انتقام کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہا ہے- خاص طور پر بلوچ کارکنوں کے اغواء کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشوں کی صورت میں بازیابی نے بلوچ سماج میں ہر طرف مزاحمتی چنگاریاں بھر دی ہیں، جس کا عکس کسی بھی کارکن کے اغواء وقتل کے شدید عوامی ردعمل میں دیکھا جاسکتا ہے، مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم کے ان بگڑنے والے تیوروں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جارہا ہے اور بلوچ نوجوانوں و کارکنوں کے اغواء کے بعد انہیں انسانیت سوز تشدد کے ذردیعے قتل کرنے کے واقعات میں تیزی آگئی ہے- اسی نوعیت کا ایک اور اندوہناک سانحہ چند دن قبل کوئٹہ سے اغواء کئے جانے والے کالم نگار اور وکیل علی شیر کرد کی گزیشتہ روز خضدار (بلوچ شہدا کا شہر) سے ملنے والی تشدد زدہ لاش کی صورت میں سامنے آیا ہے، علی شیر کرد ایک کالم نگار اور بلوچ قومی سیاست سے ہمدردی رکھنے والا انسان تھا، اگرچہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر سرگرم نہیں تھا مگر لگتا ہے کہ اس کی بلوچ قومی سیاست سے ہمدردی ہی ناقابل معافی جرم بن گئی، جس کی سزا انہیں بدترین تشدد کے ذریعے بےرحمانہ قتل کی صورت میں دی گئی ہے- بعض مبصرین کے مطابق علی شیر کرد اور اس سے قبل گزشتہ چند ماہ میں اغواء کے بعد قتل کئے جانے والے بلوچوں کی بے گور کفن ملنے والی مسخ شدہ لاشیں بلوچ حلقوں کے ان خدشات و بیانات کی تصدیق کرتی ہیں کہ بلوچ سماج میں پھیلی ہوئی مزاحمت پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد بلوچ نسل کشی کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور ایک بار پھر مشرقی بنگال کی تاریخ دہرائی جارہی ہے اور جس قسم کے ذرائع سے بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا وہی طریقہ یہاں بھی اختیار کیا جارہا ہے لیکن اس فکروعمل نے جہاں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدل دیا وہاں بلوچستان میں بھی اسی قسم کے نتائج کا مبصرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں- ان حلقوں کے مطابق بلوچ نسل کشی جیسے واقعات و سانحات بلوچ قوم اور پاکستان کے مابین خون کی وہ گہری لکیریں اور فصیلیں بلند کررہے ہیں جن کو پار کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا اور حکمرانوں کو بدنامی اور ناکامی کے سوا وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا جس کے لیے بلوچ رہنماؤں وکارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے- متذکرہ بالایہ تبصرے اور تجزیے حکمرانوں کیلئے نوشتہ دیوار کہے جاسکتے ہیں، جن کو نظر انداز کرنے سے مزید تباہ کن نتائج جنم لے سکتے ہیں-
Jameel Ahmed
About the Author: Jameel Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.